جنرل باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع

418

پاکستانی افواج کے سالار قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں مزید 3سال کی توسیع کر دی گئی ہے۔وہ نومبر2019 ء میں ریٹائر ہونے والے تھے مگر اب وہ نومبر 2022ء تک سپہ سالار رہیں گے۔کہا جاتا ہے کہ دوران جنگ گھوڑے نہیں بدلے جاتے اور پاکستان ایک عرصے سے حالت جنگ میں ہے ۔آجکل تو بھارت کھلی دھمکیوں پر اترآیاہے۔کنٹرول لائن پر روزانہ جھڑپیں ہو رہی ہیں ۔مقبوضہ کشمیر ہڑپ کر لیا گیا ہے۔ایسے میں چین آف کمانڈ یا فوج کی سر براہی میں تبدیلی قرین مصلحت نہیں تھی چناچہ توقع یہی تھی کہ جنرل باجوہ کی سالاری کا تسلسل برقرار رہے گا۔وزیر اعظم نے اپنا آئینی اختیارا ستعمال کرتے ہوئے مذکورہ فیصلہ کیا ہے اور یہ فیصلہ باجوہ کی مدت ملازمت ختم ہونے سے تین ماہ پہلے کر لیا گیا تاکہ قیاس آرائیوں کا خاتمہ ہو جائے اور خود فوج اور اس سے متعلق ادارے بھی یکسو ہو جائیں۔اس فیصلے کو حزب اختلاف کی تمام جماعتوں کی طرف سے سراہا گیا ہے اور وزیراعظم آفس کی طرف کہا گیا ہے کہ فیصلہ علاقائی امن و سلامتی کے ماحول کے پیش نظر کیا گیا ہے۔ وفاقی وزراء نے اسے وقت کی ضرورت قرار دیا ہے اور کسی نے اسے حکومت اور فوج کے ایک صفحے پر ہونے کا ثبوت قرار دیا ہے۔ لیکن اگر سپہ سالار بدل دیا جاتا تو کیا فوج اور حکومت کے اوراق منتشر ہو جاتے یا نیا آنے والا حکومت کے ساتھ نہ ہوتا۔ مولانا فضل الرحمن کا تبصرہ ہے کہ یہ معمول کا فیصلہ ہے اور اسے سیاسی نقطہ نظر سے نہ دیکھا جائے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ماضی میں فوج کے سالاروں کی تبدیلی میں سیاسی عناصر کارفرما رہے ہیں اور سول حکومتوں کی خواہش رہی ہے کہ ایسے شخص کو آرمی چیف لگایا جائے جس سے ان کی حکومت کو کوئی خطرہ نہ ہو۔ یہ اور بات کہ بسا اوقات یہ انتخاب توقع کے مطابق ثابت نہ ہوا ہو مثلاً ذوالفقار علی بھٹو نے جنرل محمد ضیاء الحق ( مرحوم) کو بے ضرر سمجھتے ہوئے تین جرنیلوں پر ترجیح دے کر انہیں سپہ سالار بنا یا۔ جنرل پرویز مشرف میاں نوازشریف کا انتخاب تھے۔ جنرل باجوہ کو بھی نواز شریف نے سپہ سالار بنایا تاہم انہوں نے بار بار جمہوریت کے استحکام کے لیے کام کرنے پر زور دیا لیکن حزب اختلاف کا دعویٰ ہے کہ اس بار عمران خان اور تحریک انصاف کی حکومت سلیکٹڈ ہے۔ کس کا انتخاب، یہ محتاج وضاحت نہیں۔ پاکستان سمیت ترقی پزیر ممالک کے معاملات میں دخل دینے اور ہر ممکنہ تبدیلی پر نظر رکھنے والی بڑی طاقتیں پہلے ہی سے کسی اہم تبدیلی کا ادراک کرلیتی ہیں۔ پاکستان میں تو ویسے بھی سی آئی اے کا جال پھیلا ہوا ہے۔ گزشتہ دنوں جب جنرل باجوہ امریکا گئے تو انہیں 21توپوں کی سلامی دی گئی اور پینٹا گون میں ان کا شاندار استقبال کیا گیا۔ یہ عزت افزائی پاک فوج کے لیے باعث فخر تھی گو کہ انہی دنوں وزیر اعظم عمران خان کے دورہ واشنگٹن کو ایسی اہمیت نہیں دی گئی اور ان کے استقبال کے لیے بھی امریکا کا کوئی بڑا عہدے دار نہیں پہنچا بلکہ پاکستانی سفارت خانے نے ان کا استقبال کیا لیکن عمران خان اسی پر خوش ہوگئے کہ صدر ٹرمپ نے ان کو ملاقات کاشرف بخشا۔ اس کے ساتھ ہی امریکی صدر نے عمران خان کو خوش کرنے کے لیے مسئلہ کشمیر پر ثالثی کرانے کی پیشکش کردی۔ ہم اس پر ہی بغلیں بجاتے رہ گئے اور نریندر مودی نے مقبوضہ کشمیر کو بھارت کا اٹوٹ انگ بنالیا۔ بہرحال جنرل باجوہ کے شاندار استقبال سے لگتا ہے کہ امریکا کو خوب معلوم تھا 2022ء تک جنرل باجوہ ہی سے واسطہ رہے گا۔ جنرل باجوہ ا یک پیشہ ور فوجی ہیں اور وہ خوب جانتے ہیں کہ بھارت کے جنگی جنون کا جواب کس طرح دینا ہے۔ سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف کو توسیع دینے کے بارے میں باقاعدہ ایک مہم چلی کہ وہ ابھی چھوڑ کر نہ جائیں مگر عمران خان نے حزب اختلاف میں رہتے ہوئے کسی جرنیل کی مدت ملازمت میں توسیع کی سختی سے مخالفت کی لیکن وہ یو۔ٹرن لینے میں شہرت یافتہ ہیں اور شاید یہ وقت کا تقاضا بھی ہے کہ گھوڑے نہ بدلے جائیں۔ یہ اور بات کہ وقت کی ایک بڑی طاقت سے جنگ کے دوران میں سیدنا عمرؓ نے اپنے سالار خالد بن ولید کو بدل دیا تھا اور ان کی جگہ سیدنا ابو عبیدہ بن الجراح کو فوج کی سربراہی سونپ دی تھی۔ خالد بن ولید ایک عام سپاہی کی طرح اپنے سالار کی قیادت میں لڑتے رہے، بہرحال اس اہم تبدیلی پر سب ہی متفق ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ تبدیلی تو کبھی نہ کبھی آنی ہے۔ خواہ 2022ء کے بعد آئے۔ پاکستان برسوں سے حالت جنگ میں ہے اور نجانے کب تک رہے۔ پاکستان کی فوج دنیا کی بہترین فوجوں میں سے ایک ہے اور اس کا ہر جرنیل باصلاحیت اور پیشہ ورانہ مہارت کا مالک ہے۔ چنانچہ ہر نیا آنے والا پاک فوج کا ’’قمر‘‘ ہی ہوگا۔ جنرل باجوہ نے 1980ء میں کمیشن حاصل کیا تھا اور 2022ء تک فوج میں ان کا کیریئر طویل ترین ہوگا۔ اللہ تعالیٰ انہیں پاکستان کے تحفظ اورسلامتی کی توفیق عطا کرے۔ اس تقرر سے سول حکومت میں کسی بڑی تبدیلی کی حزب اختلاف کی خواہشات کو زک پہنچے گی۔ اب سب کچھ ایک ہی صفحے پر ہے اور حزب اختلاف شاید حاشیے پر بھی نہ ہو۔