’آئی ایس آئی‘‘ نے ایسا کوئی کام نہیں کیا

637

وزیراعظم عمراان خان نے اپنے دورہ امریکا کے دوران میں ’’فاکس نیوز‘‘ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا کہ ’’اُسامہ بن لادن کے خلاف ایبٹ آباد میں امریکی کارروائی‘‘ آئی ایس آئی کی جانب سے دی گئی خفیہ معلومات کی بنیاد پر کی گئی تھی، اگر آپ ’’سی آئی اے‘‘ سے پوچھیں تو آپ کو اندازہ ہوتا ہے کہ ’’آئی ایس آئی‘‘ نے ابتدا میں اسامہ کی موجودگی کا ٹیلی فونک لنک امریکا کو فراہم کیا تھا۔ ہم امریکا کو اپنا اتحادی سمجھتے تھے اور یہ چاہتے تھے کہ ہم خود اسامہ بن لادن کو پکڑتے لیکن امریکا نے ہماری سرزمین میں گھس کر ایک آدمی کو ہلاک کردیا۔ پاکستان اس وقت امریکا کی جنگ لڑ رہا تھا۔ اس واقعے کے بعد پاکستان کو شدید شرمندگی اٹھانا پڑی‘‘۔ (وزیراعظم کے مذکورہ انٹرویو کی خبر 24 جولائی 2019ء کے اخبارات میں موجود ہے)۔
تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی بحیثیت وزیراعظم ان کے حوالے سے یہ خبر کہ ’’القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کی موجودگی کی اطلاع ’’سی آئی اے‘‘ کو ’’آئی ایس آئی‘‘ نے دی تھی بہت بڑا انکشاف ہے۔ اب یہ انکشاف کوئی تصدیق شدہ خبر ہے یا محض ’’سی آئی اے‘‘ کے کسی افسر کے ساتھ گفتگو کے بعد کا اندازہ ہے۔ بات جو بھی ہے تاہم وزیراعظم کی حیثیت سے عمران خان نے ایسی بات کہہ دی ہے جس پر خاموشی اختیار کرنا یا کہ اس تبصرے کو نظر انداز کردینا قومی مفاد میں نہیں ہوگا۔
’’آئی ایس آئی‘‘ پاکستان کا ایک انتہائی ذمے دار اور حساس قومی مفادات کا محافظ ادارہ ہے۔ قوم کو ’آئی ایس آئی‘‘ پر بھرپور اعتماد اور اس کی کارکردگی پر مکمل اطمینان ہے۔ ’آئی ایس آئی‘‘ کی خدمات، قربانیوں اور کارناموں کی تفصیلات کو عام کرنا ملکی مفاد میں نہیں اس لیے اس حوالے سے بہت کچھ لکھا یا کہا نہیں جاسکتا تاہم اتنا بتانا ضروری ہوگا کہ ہمارے حکمران اور دیگر تمام ادارے مل کر پاکستان کے دفاع، سلامتی اور استحکام کے لیے جو کام کررہے ہیں ’آئی ایس آئی‘‘ اکیلا ان کے برابر خدمات انجام دے رہا ہے۔ ہم یہاں ایسی کوئی بات کہنا نہیں چاہتے جس پر مزید سوالات اُٹھیں مگر وزیراعظم کے مذکورہ انکشاف کے بعد چند سوالات کا اُٹھایا جانا بھی ضروری ہے۔
پہلا سوال تو یہ ہے کہ جب 2 مئی 2011ء کو ایبٹ آباد پر امریکی گن شپ ہیلی کاپٹر حملہ آور ہوئے اور اسامہ کو ان کے ایک بیٹے کے ساتھ قتل کردیا گیا، ایک گھنٹے تک آپریشن جاری رہا، اختتام پر شہدا کی لاشوں کو امریکی کمانڈوز اپنے ساتھ لے گئے، آپریشن کے خلاف سخت عوامی ردعمل آیا، سیاسی اور دینی قیادت نے بہت سے سوالات پوچھے، میڈیا بھی چیخ پڑا کہ امریکا نے پاکستان کی سلامتی اور خودمختاری پر حملہ کیا ہے تو اُس وقت کی ’’فوجی قیادت‘‘ آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی اور ڈی جی آئی ایس آئی جنرل شجاع پاشا میں سے کسی نے یہ نہیں کہا کہ اسامہ کی ایبٹ آباد میں موجودگی کی اطلاع ’’سی آئی اے‘‘ کو ’’آئی ایس آئی‘‘ نے دی تھی، جب کہ یہ بات بھی بہت اہم ہے کہ سابق صدر آصف زرداری اور سابق وزیراعظم نواز شریف جو آج کل قید ہیں اور اسٹیبلشمنٹ سے ناراض ہیں انہوں نے بھی ایسا کبھی نہیں کہا کہ جو
وزیراعظم عمران خان کہہ رہے ہیں۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ ایبٹ آباد میں امریکی آپریشن پاکستان کو بتائے بغیر کیا گیا تھا تو یہ بات پہلے انکشاف کے ساتھ میل نہیں کھاتی۔ دو میں سے ایک بات کو ماننا پڑے گا۔ اوّل یہ کہ اگر اُسامہ کی اطلاع ’’آئی ایس آئی‘‘ نے ’’سی آئی اے‘‘ کو دی تھی تو پھر یقینا ایبٹ آباد میں امریکی آپریشن کے وقت بھی اُس وقت کی ’’فوجی قیادت‘‘ کو پینٹاگان نے اعتماد میں لیا ہوگا اور دوم یہ کہ اگر ایبٹ آباد آپریشن کے وقت امریکا نے پاکستان کی ’’فوجی قیادت‘‘ کو اعتماد میں نہیں لیا تو پھر یقینا اسامہ کی اطلاع بھی ’’آئی ایس آئی‘‘ نے ’’سی آئی اے‘‘ کو نہیں دی ہوگی۔ مزید برآں ایک سوال یہ بھی ہے کہ اگر ’’آئی ایس آئی‘‘ پر وزیراعظم کے الزام کو درست مان لیا جائے تو پھر امریکی ایجنٹ ڈاکٹر شکیل آفریدی پر قائم غداری کا مقدمہ اور سزا بھی مشکوک ہوجاتے ہیں جس کا جواز اور جواب کس طرح سے دیا جائے گا۔ علاوہ ازیں وزیراعظم صاحب کے پاس ’’ایبٹ آباد کمیشن‘‘ کے حوالے سے بھی ایک تفصیلی رپورٹ موجود ہے اگر اس کو مکمل طور پر شائع کردیا جائے تو تمام سوالات اور اندازوں کا درست جواب مل جائے گا، تو کیا وزیراعظم صاحب ’’ایبٹ آباد کمیشن‘‘ کی رپورٹ قوم کے سامنے لانے کا ارادہ رکھتے ہیں؟۔
وزیراعظم عمران خان صاحب کے مذکورہ انکشاف کے بعد ضروری ہوگیا ہے کہ ریکارڈ کی درستی کے لیے اُن خبروں کو بھی سامنے لایا جائے جن کے بارے میں ہمارے پاس کوئی آفیشل تصدیق تو نہیں البتہ سینہ بہ سینہ خبر ضرور موجود ہے اور وہ یہ کہ جب جنرل مشرف نے (9 مارچ 2007ء) چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کو برطرف کرنے کا فیصلہ کیا تو اُس میں ’آئی ایس آئی‘‘ کی مرضی شامل نہیں تھی، اِسی طرح سے جب لال مسجد (جولائی 2007ء) اور ڈیرہ بگٹی (اگست2006ء) کے آپریشن کیے گئے تو ان کے اندر بھی ’آئی ایس آئی‘‘ ملوث نہیں تھی اور جب صدر جنرل مشرف نے ڈاکٹر قدیر خان کو امریکا کے حوالے کرنے کے لیے اُس وقت کے وزیراعظم میر ظفر اللہ خان جمالی پر دبائو ڈالا کہ وہ اپنے ایک آرڈر کے ذریعے ڈاکٹر قدیر خان کو امریکا کے حوالے کردیں (امریکی جہاز ڈاکٹر قدیر کو لے جانے کے لیے اسلام آباد ائر پورٹ پر پہنچ چکا تھا) تو اِس دوران ’آئی ایس آئی‘‘ ہی نے اپنے وزیراعظم جمالی کو مشورہ دیا کہ وہ قومی ہیرو ڈاکٹر قدیر خان کو امریکا کے حوالے کرنے سے انکار کردیں۔
’آئی ایس آئی‘‘ نے قومی مفاد میں کہاں کہاں رکاوٹ ڈالی، کہاں کہاں خاموشی اختیار کی اور کہاں کہاں آگے بڑھنے کا راستہ بنایا، کب کس کو کائونٹر کیا اور کب کس کی مدد کی، یہ سب کچھ ایک انٹیلی جنس ادارے کے فرائض منصبی میں شامل ہے۔ ہم وزیراعظم عمران خان سے یہ کہنا چاہیں گے کہ جب وہ غیر ملکی میڈیا کے سامنے جاتے ہیں تو احتیاط سے کام لیں، غیر ذمے دارانہ گفتگو سے اجتناب کریں اور ایسے انکشافات نہ کریں جو ’’قومی راز‘‘ کا درجہ رکھتے ہوں۔ قوم پاک فوج اور آئی ایس آئی سے بے پناہ محبت کرتی ہے، لہٰذا وزیراعظم صاحب کی بھی یہ کوشش ہونی چاہیے کہ قوم کے اس محبت اور اعتماد کو ٹھیس نہ پہنچے اور مزید یہ کہ پاکستان دشمن بیرونی طاقتوں اور غیر ملکی ایجنسیوں کو بھی یہ موقع نہ ملے کہ وہ ہماری مایہ ناز ایجنسی ’آئی ایس آئی‘‘ کے خلاف کوئی گمراہ کن پروپیگنڈا کرسکیں۔