کچھ بھی کریں، بس کراچی کو بہتر کریں

347

کراچی کے میئر وسیم اختر اختیارات اور وسائل نہ ہونے کا رونا رو رہے ہیں، حکومت سندھ کے وزراء اختیارات رکھنے کے باوجود کچھ کرنے کے بجائے میئر کے بیانات پر اپنے ردعمل کا اظہار کررہے ہیں جبکہ تقریباً شہر کے تین کروڑ افراد بارش کے بعد ہونے والی گندگی اور غلاظت سے سڑنے والے کراچی کا اظہار اپنی ناک اور منہ پر کپڑا لگاکر کررہے ہیں۔ اس صورتحال پر بلدیہ عظمیٰ سمیت شہر کے 8 بلدیاتی اداروں، صوبائی محکمہ بلدیات، ایک سندھ سولڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ (ایس ایس ڈبلیو ایم بی)، ایک کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ (کے ڈبلیو اینڈ ایس بی) شہر کے مختلف علاقوں میں موجود 6 کنٹونمنٹ بورڈز اور ایک ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی (ڈی ایچ اے) کے حکام کو شہر کے سڑنے اور تعفن پھیلانے پر شرم نہیں آرہی۔ ہوسکتا ہے کہ ان کی ’’ضمیر‘‘ کے ساتھ شرم بھی ڈوب مرگئی ہو۔ ان تمام اداروں کے افسران اور ذمے دار شخصیات کے رہن سہن کا جائزہ لیا جائے تو یہ کہیں سے ’’سرکار سے جڑے ہوئے لوگ نہیں لگتے بلکہ کروڑ پتی تاجر اور صنعت کار لگتے ہیں۔ انہیں دیکھ کر یہ گمان ہوتا ہے کہ متعلقہ اداروں کا پورا بجٹ صرف ان کی ذات پر ہی خرچ کیا جارہا ہے جبکہ ایسا نہیں ہے، یہ لوگ اپنا بنائو سنگھار تو اپنے اختیارات سے حاصل قانونی اور غیر قانونی وسائل سے کرتے ہیں۔ گو کہ کراچی صرف ملک کی 72 فی صد ریکارڈ آمدنی کا ذریعہ ہی نہیں بلکہ غیر قانونی آمدنی کا بھی بڑا ذریعہ ہے۔ یہاں صرف تجاوزات قائم کرنے کے عوض مجموعی طور پر یومیہ کم و بیش 60 کروڑ روپے بھتا متعلقہ لوگ وصول کرلیتے ہیں۔ اس بھتے کی حدود ملیر ندی اور لیاری ندی سے ریتی بجری سے شروع ہوکر براستہ تجاوزات، مختلف اشیاء میں ملاوٹ، ٹرانسپورٹ کے پھیلے ہوئے بدنظمی پر مشتمل نظام، زائد قیمت دودھ، ادویات دیگر اشیاء کی فروخت، غیر قانونی اشتہارات، ٹینکر اور ہائینڈرنٹ مافیا کے دو نمبر کاروبار تک پہنچ جاتی ہے۔ جب اس قدر بھتے کی وصولی ہوگی تو برسوں میں ہونے والی بارش کے پانی اور یومیہ پیدا ہونے والے 13 ہزار ٹن کچرے سے صرف شہر میں سڑاند پیدا ہونا کوئی انہونی بات نہیں۔ سچ تو یہ بھی ہے کہ کراچی کے مختلف سرکاری اداروں اور محکموں سے وابستہ بے شمار افراد بھی جسمانی طور پر گل سڑ رہے ہیں، متعدد سرکاری افسران شوگر، بلڈ پریشر اور امراض قلب سمیت کئی نظر نہ آنے والی بیماریوں میں مبتلا ہوچکے ہیں۔ دعا ہے کہ ان سب کو ان بیماریوں سے نجات ملے ساتھ ہی ان سب کو حرام آمدنی سے محفوظ رہنے کی توفیق عطا ہو آمین۔
کراچی کیوں نہیں سڑے گا؟ جب یہاں گزشتہ گیارہ سال سے پیپلز پارٹی کی حکمرانی ہے جس کے شریک چیئرمین آصف زرداری اور بہن فریال تالپور اور اس کے ’’دوسرے درجے‘‘ یا ’’نمبر دو لیڈر‘‘ احتسابی قانون کے شکنجے میں جکڑے جانے کے بعد جیل کی سلاخوں یا ضمانتوں پر ہوں۔ سندھ کے ’’حکمرانوں کے حکمراں‘‘ نیب زدہ ہوچکے ہیں تو اس کی بڑی وجہ کراچی میں کی جانے والی لوٹ مار اور کررپشن ہی تو ہے۔ سندھ حکومت نے 11 سال میں بہترین نظام حکومت پر توجہ دینے کے بجائے ’’بہتر کرپشن‘‘ کے نظام کو فروغ دینے پر توجہ دی۔ ایسا کرتے ہوئے وہ نہ صرف کراچی کے وسائل کو چھینتے رہے بلکہ کراچی کے اداروں پر براہ راست حکم چلانے کے لیے اس پر کنٹرول بھی کرتے رہے۔
کسی بھی ملک کے بنیادی نظام یعنی پینے کے پانی کی فراہمی، سیوریج کے پانی کی نکاسی، کوڑا کرکٹ اٹھانے اور ٹھکانے لگانے، عمارتوں کی تعمیر و دیکھ بھال، کھانے پینے کی اشیاء کے معیار کی چیکنگ مقامی حکومتوں کی ذمے داری ہوتی ہے مگر کراچی میں ایسا نہیں ہے۔ یہاں پانی کی فراہمی و نکاسی آب کا ادارہ بلدیہ عظمٰی سے لیا جاچکا ہے اب کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کا تعلق براہ راست حکومت سندھ سے ہے، اسی طرح عمارتوں کی تعمیرات کی اجازت اور دیکھ بھال کرنے والا ادارہ کراچی بلڈنگز کنٹرول اتھارٹی (کے بی سی اے)؛ کراچی سے چھین کر اسے سندھ بلڈنگز کنٹرول اتھارٹی (ایس بی سی اے) میں تبدیل کیا گیا بعدازاں اس پر صوبائی حکومت نے قبضہ کرلیا ہے۔ صفائی ستھرائی اور کچرا اٹھاکر ٹھکانے لگانے کی بنیادی ذمے داری بھی بلدیہ کراچی اور یہاں کی ڈی ایم سیز سے لے کر سندھ حکومت کو دے دی گئی۔ اس مقصد کے لیے سندھ سولڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ قائم کردیا گیا یہ 2013 کی بات ہے جب سندھ حکومت نے کچرا اٹھانے کے لیے اس ادارے کو تخلیق کیا مقصد یہ تھا کہ بلدیہ عظمی کراچی اور دیگر بلدیاتی اداروں سے بہتر انداز میں صفائی ستھرائی کرائی جاسکے۔ مگر اربوں روپے کے اضافی اخراجات کے باوجود یہ ادارہ 5 سال بعد بھی اپنی موجودگی کا ثبوت تک نہیں دے پارہا۔ کیسے دے گا، ایس ایس ڈبلیو ایم بی اپنے ہیڈ افس کی عمارت کی دیکھ بھال تک نہیں کرسکا، جس کے نتیجے میں ٹیپو سلطان روڈ پر واقع اس کے دفتر کی چھت بارشوں میں ٹپکنے لگی۔ یہ ادارہ 5 سال گزرنے کے باوجود اپنے لیے مرکزی دفتر تک نہیں بناسکا وہ بھلا شہر کی صفائی ستھرائی کا نظام کیسے سنبھال سکتا ہے۔ اس ادارے کو ڈی ایم سی وسطی اور ڈی ایم سی کورنگی پہلے ہی مسترد کرچکی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے اس ادارے کے پاس شہر کی چار ڈی ایم سیز کے علاقوں کا کچرا اٹھاکر ٹھکانے لگانے اور انہیں صاف ستھرا رکھنے کی ذمے داری ہے مگر وہ یہ بھی پوری نہیں کرپارہا وجہ اس کی یہ ہے کہ اس ادارے کو چلانے کے لیے بھی صوبائی وزیر بلدیات ناصر شاہ اور صوبائی وزیر محنت سعید غنی کے درمیان مبینہ طور پر اختلافات بھی ہیں۔ سعید غنی خود کچرا اٹھانے کی ذمے داری سنبھالے ہوئے ہیں کاش کہ وہ یہ کام اپنے دور وزارت بلدیات میں کرلیتے۔
سندھ کی موجودہ حکومت کے دور میں بلدیہ عظمٰی کراچی سمیت شہر کے سرکاری ادارے اور ان کا نظام جس تیزی سے تباہی کی طرف بڑھا ہے اس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی۔ اس لیے اب ضرورت اس بات کی ہے کہ وفاقی حکومت صوبائی حکومت کی مشاورت کے ساتھ کراچی کے مسائل کے سدباب کے لیے انقلابی اقدامات کرے۔ اس مقصد کے لیے فوج کی بھی خدمات حاصل کی جاسکتی ہے۔ بلدیاتی نظام کے ساتھ کراچی کے بجلی کے نظام کی بہتری کے لیے فوج کی مدد ناگزیر ہے۔ ماضی میں کے ای ایس ایس سی کو فوج کے سپرد کیا جاچکا تھا جس کے بہتر نتائج نکلے تھے جبکہ کے ایم سی کے ایڈمنسٹریٹر کی حیثیت سے ریٹائرڈ برگیڈیر عبدالحق نے بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا تھا۔ میں تو صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ کچھ بھی کریں کراچی کو بہتر کریں، اسے اہمیت دیں اور اسے عزت دیں۔ مگر موجودہ ذمے داروں سے جان چھڑالیں۔ کیوںکہ یہ کبھی بھی کراچی کو اس کا حق نہیں دیں گے۔