روداد سفر اور جماعت اسلامی پاکستان کا اجتماع عام ۱۹۵۷ء(باب دہم)

315

سیاسی خلفشار میں جماعت اسلامی کا کردار
سیاسی وفاداریاں بدلنا‘ اور لالچ اور سودے بازیوں کے ذریعے پارٹیاں بدلنا اور کئی پارٹیاں بنانا ایک سیاسی کلچر بن کر رہ گیا تھا۔
۱۹۵۶ء میں آئین ساز وزیر اعظم چودھری محمد علی کے استعفے کے بعد اقتدار اور جوڑ توڑ کی جو جنگ ملک کے دونوں حصوں اور مرکز میں جاری تھی‘ اس میں تیزی آگئی۔ اس کے ڈانڈے ایوان صدر‘ گورنر ہاؤس اور وزرائے اعلیٰ کے ایوانوں سے ملتے تھے۔ ۱۸ ؍جون ۱۹۵۸ء کو مشرقی پاکستان کی عوامی لیگ کی مخلوط حکومت کو صوبائی اسمبلی میں ۱۲۶ کے مقابلے میں ۱۳۸ ووٹوں سے شکست ہوگئی۔ وزیر اعلیٰ عطاء الرحمن نے شکست کے بعد رات کے ۹بجے اپنا اور کابینہ کا استعفا گورنر مشرقی پاکستان کو پیش کردیا۔ ۲۱ ماہ کی مسلسل جدوجہد کے بعد مشرقی پاکستان کی حزب اختلاف کی جماعتوں نے عوامی لیگ کو شکست دی۔ گورنر مسٹر سلطان الدین احمد نے حزب اختلاف کے قائد مسٹر ابوحسین سرکار کو وزارت بنانے کی دعوت دے دی۔ تاہم یہ وزارت بھی چند دنوں سے زیادہ قائم نہ رہ سکی۔ ۲۳؍ جون کو عوامی لیگ کے سیکرٹری جنرل شیخ مجیب الرحمن نے ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی۔ یہ وزارت ۱۴ ووٹوں سے شکست کھا گئی۔ ۱۴۲ حکومت کے حق میں اور ۱۵۶ اس کے خلاف آئے۔ نیشنل عوامی پارٹی نے ایک بار پھر قلابازی کھائی اور اس کے ۲۸ ارکان نے عوامی لیگ کا ساتھ دیا۔ ۲۵؍ جون کو مرکزی کابینہ کے فیصلے کی تائید میں مشرقی پاکستان میں دو ماہ کے لیے صدر راج نافذ کردیا گیا۔
جماعت اسلامی اس بدعنوان سیاسی کلچر‘ سیاسی انتشار اور خلفشار کا گہری نظر سے مطالعہ کررہی تھی اور اس کو بڑی تشویش کی نگاہ سے دیکھ رہی تھی۔ ’’قرارداد مقاصد‘‘ آئین کا حصہ بن چکی تھی۔ لیکن صدر اسکندر مرزا ہر قیمت پر ’’قرارداد مقاصد‘‘ پر مبنی آئین کے نفاذ کی راہ کو روکنا اور آئین کا خاتمہ چاہتے تھے۔ اسی لیے انہوں نے ۱۹۵۶ء کے آئین کے نفاذ کے بعد ایسا سیاسی خلفشار پیدا کیاکہ چودھری محمد علی کوو زارت عظمیٰ سے استعفا دینا پڑا‘ کیوںکہ اگر ان کو سیاسی استحکام مل جاتا تو اسلامی دستور بن جاتا۔ اسکندر مرزا کو یہ معلوم تھا کہ چودھری صاحب اسلامی ذہن رکھتے ہیں اور نظریہ پاکستان کے حامی ہیں‘ اس لیے وہ ان کے شدید مخالف ہوگئے تھے۔ انہوں نے مسلم لیگ کے اراکین کو ہارس ٹریڈنگ کے ذریعے توڑا۔ راتوں رات ڈاکٹر خان کے ذریعے ایک نئی سیاسی پارٹی ری پبلکن پارٹی بنوادی اور مسلم لیگی دھڑا دھڑ اس میں شامل ہوگئے۔ چودھری محمد علی صاحب کے بعد عوامی لیگ اور ری پبلکن کی مخلوط حکومت بنائی‘ جس سے اسکندر مرزا کو کوئی خطرہ نہ تھا کہ وہ اسلامی نظام کے قریب بھی پھٹکیں گے۔
جماعت اسلامی جس نے قیام پاکستان کے بعد اسلامی آئین کے نفاذ کے لیے بڑی طویل اور صبر آزما جدوجہد کی تھی۔ اسی’’جرم‘‘ میں پابندیوں اور بڑی قید و بند کی تکلیفیں برداشت کی تھیں۔ کردار کشی‘ سازشوں‘ الزام‘ بہتان تراشیوں‘ انتخابات میں دھاندلیوں‘ گرفتاریوں‘ پریس پر بندشوں اور اثاثوں کی ضبطیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ ان تمام مشکلات کو جماعت اسلامی نے محض اللہ کی راہ کی خاطر برداشت کیا تھا۔ پہلے آئین کو ۱۹۵۴ء کی دستور ساز اسمبلی نے منظور کرلیا تھا اور جس کے نفاذ کا اعلان اس وقت کے وزیراعظم محمد علی بوگرہ نے قائداعظم کی سالگرہ کے تحفے کے طور پر دینے کا وعدہ کیا تھا‘ نفاذ سے پہلے ہی دستور ساز اسمبلی کو توڑ دیا گیا۔ دوسرے آئین کے نفاذ کو بھی خطرات لاحق تھے اور جماعت اسلامی کو اس کا بخوبی ادراک تھا۔ بڑی حد تک اسلامی آئین کی پارلیمنٹ سے منظوری اور نفاذ کا سنگ میل عبور ہوچکا تھا۔
اب ملک میں اسلامی انقلاب برپا کرنے کے لیے ایک طویل‘ منظم اور دانش مندانہ منصوبہ بندی کی ضرورت تھی۔ جون ۱۹۵۸ء میں جماعت اسلامی نے اپنا ’انتخابی منشور‘ شائع کیا‘ جس میں کہا گیا تھا کہ: ’’سب سے پہلے تبدیلی‘ مملکت کے مقصد کی تبدیلی ہے۔ مملکت ایک ایسا ادارہ ہے جو انسانوں کی خدمت کے لیے وجود میں آیا ہے‘ اور جس کی غایت نہ صرف ملک کو اندرونی خلفشار اور بیرونی خطرات سے بچانا ہے‘ بلکہ ان بھلائیوں کو فروغ دینا ہے‘ جنہیں اسلام دنیا میں پھیلانا چاہتا ہے اور ان برائیوں کو مٹاتا ہے‘ جنہیں اسلام دنیا سے ناپید کرنے کا حکم دیتا ہے‘‘۔
کل جماعتی انتخابی کانفرنس
۱۹ ؍جولائی ۱۹۵۸ء کو وزیراعظم ملک فیروز خان نون نے ایک کل جماعتی انتخابی کانفرنس منعقد کی‘ جس کا مقصد انتخابات کی تاریخ مقرر کرنا اور ملک کے دونوں حصوں میں بیک وقت یا الگ الگ اوقات میں انتخابات منعقد کرنے کے بارے میں فیصلہ کرنا تھا۔ اس کانفرنس میں جماعت اسلامی کے امیر مولانا سیّد ابوالاعلیٰ مودودیؒ بھی شریک تھے۔ انتخابات کے انعقاد کے لیے آخری حد‘ ۱۵ ؍فروری ۱۹۵۹ء مقرر کی گئی۔
(جاری ہے)