جج ارشد ملک کے کردار سے ججز کے سر شرم سے جھک گئے،چیف جسٹس

309

اسلام آباد(آن لائن) عدالت عظمیٰ میں جج ارشد ملک ویڈیو اسکینڈل کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس آصف سعید خان کھوسہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ ہمارا تعلق اپنے جج سے ہے،اس کے کردار پر بہت سے سوالیہ نشان آگئے ہیں، جج نے بہت سی چیزیں حلف نامے اور پریس ریلیز میں بتائیں،معلوم نہیں جج صاحب کو کس نے مشورہ دیا،ارشد ملک کی خدمات لاہور ہائیکورٹ کو واپس کیوں نہیںکی گئیں،ارشد ملک کو لاہور نہ بھجوا کر تحفظ دیا جا رہا ہے، وفاقی حکومت نے انہیں ابھی تک پاس کیوں رکھا ہوا ہے،کیا جج ایسا ہوتا ہے جو سزا دینے کے بعد مجرم کے پاس جائے،جج کے اس کردار سے دیانتدار ججز کے سر شرم سے جھْک گئے ہیں،حکومت اس معاملے کو ہلکا کیوں لے رہی ہے،جج خود مان رہا ہے کہ اس کے اس خاندان کے ساتھ تعلقات تھے۔ جج کے کردار کی حد تک معاملہ ہم دیکھ سکتے ہیں، حکومت ویڈیو کے معاملے کی تحقیقات کرائے فرانزک ہوسکتی ہے یا نہیں،سپریم کورٹ نے اس میں مزید کیا کرنا ہے ۔حکومت کو متحرک کرنا تھا وہ ہم کر چکے ۔جس شخص کے ملزمان سے تعلقات تھے اسی شخص کو ریفرنس سننے کے لیے جج لگایا گیا۔یہ تو پہلے ہی فیصلہ ہوگیا تھا کہ ریفرنسز احتساب عدالت میں جانے ہیں،پھر تعلق داری والے جج کو ریفرنسز سننے کے لیے بٹھا دیا گیا، احتساب عدالت کے دوسرے جج نے معصومیت کے باعث ان کے کیسز سننے سے انکار کر دیا،دوسرے جج کے پاس کیسز لگنے پر اعتراض اٹھایا گیا ،اس لیے وہ کیسز بھی جج ارشد ملک کے پاس چلے گئے،عدلیہ کی حد تک تو ہم نے یہ معاملات دیکھنے ہیں،حکومت کہتی ہے کہ ہم ویڈیو کا فرانزک ٹیسٹ ہی نہیں کروا سکتے،پنجاب فرانزک لیبارٹری تو فوٹو کاپی سے بھی دستاویزات کا جعلی ہونے کا پتہ چلا لیتی ہے،ہم اس میں کیا کرسکتے ہیں کرنا تو سب کچھ حکومت کو چاہیے، جج کو فارغ کرنا ہے یا واپس لگانا ہے یہ فیصلہ حکومت کو کرنا ہے،ہم حکومتی تحقیقات کو مانیٹر نہیں کر سکتے،اگر ضرورت ہوئی تو ہم عدالتی صلاحیت کے مطابق اس کی نگرانی کرسکتے ہیں، جمع کرائی گئی رپورٹ بھی روایتی ہے اس میں کچھ خاص نہیں، روایتی طریقوں سے سوالنامے بھیجے گئے، سائبر کرائم جانے اور آپ جانیں،ہماری غرض صرف جج کے متعلق ہے، جج نے خود تسلیم کیا کہ اس کے سیاسی تعلقات تھے، جن سے تعلقات تھے پھر کس بنیاد پر جج نے ان کے مقدمات سنے، اٹارنی جنرل کی معروضات سن لیں ،دو سے تین دن میں آج کی کارروائی کا حکمنامہ جاری کریں گے۔ کیس کی سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کی ۔جسٹس عظمت سعید نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ جج کی وڈیو کا فرانزک کیوں نہیں ہو سکا،جج ارشد ملک کی وڈیو سارے پاکستان کے پاس صرف ایف آئی اے کے پاس نہیں ، سارا پاکستان اور عدالت جس کا سوال کر رہی ہے اس کا فرانزک کیوں نہیں ہوا، اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ پہلی وڈیو اصل ہے۔دوران سماعت اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ تیرہ مارچ 2018 کو ارشد ملک کی تعیناتی ہوئی،ارشد ملک کی تعیناتی والا مبینہ شخص سامنے نہیں آیا، شہباز شریف اور لیگی قیادت نے وڈیوز سے لاتعلقی کا اظہار کیا ،مریم نواز نے بھی وڈیوز سے لاتعلقی کا اظہار کرنے کی کوشش کی،مریم نواز نے کہا کہ قابل اعتراض ویڈیو نہیں دیکھی، ارشد ملک کی نئی ویڈیو کا فرانزک نہیں ہو سکا، ناصر جنجوعہ اور مہر غلام جیلانی نے جج سے ملاقات کرکے 100 ملین روپے کی پیشکش کی،یہ پیشکش نواز شریف کے خلاف ریفرنسز میں رہائی سے متعلق فیصلے سے مشروط تھی، جج ارشد ملک فیصلے کے بعد دو بار عمرہ پر گئے،بعض معلومات کھلی عدالت میں نہیں دے سکتے، اس کیس میں دو اہم کردار ناصر بٹ اور سلیم اس وقت ملک میں نہیں ہیں ،ہمیں اس حوالے سے ابھی تک کوئی درخواست نہیں آئی،سب نے ہی اس کہانی سے جان چھڑالی ہے، اس ویڈیو کو اصل ثابت کرنا بہت مشکل کام ہوگا، ناصر بٹ اور سلیم دونوں ملک سے باہر ہیں جن سے تحقیقات ہونی ہیں، ناصر بٹ یوکے میں ہیں دوسرے کردار سلیم کو بھی ڈھونڈنے کی کوشش کی جا رہی ہے،وفاقی حکومت نے تحقیقات کی وجہ سے ارشد ملک کو روک رکھا ہے۔عدالت نے قرار دیا کہ اٹارنی جنرل کی معروضات سن لیں ،دو سے تین دن میں آج کی کارروائی کا حکمنامہ جاری کریں گے۔