حکومت نے ملک کی 2 بڑی گیس فیلڈز سے پیداوار روک دی

270

اسلام آباد(کامرس ڈیسک)حکومت نے ملک کے 2 اہم گیس فیلڈز سے سستی گیس کی پیداوار روک دی اور تیسرے سے پیداوار کو کم کردیا تاکہ مہنگی لیکوئیفائیڈ نیچرل گیس (ایل این جی) کی وجہ سے دباؤ کا سامنا کرنے والے گیس نیٹ ورک میں بہاؤ ہموار رہے۔ سینئر پیٹرولیم حکام کا کہنا تھا کہ بلوچستان کے سب سے پرانے سوئی فیلڈ اور خیبر پختونخوا کے ناشپا فیلڈ سے گیس کی پیداوار مکمل طور پر روک دی گئی ہے جبکہ سندھ کے قادر پور فیلڈ سے پیداوار کو تقریباً آدھا کردیا گیا ہے۔ ‘توانائی کے شعبے کی جانب سے وعدے کے مطابق مقررہ مقدار میں گیس نہ لینے کے باعث مقامی ذرائع سے 327 ملین کیوبک فیٹ پر ڈے (ایم ایم سی ایف ڈی) کا شٹ ڈاؤن ناگزیر تھا’۔ مقامی گیس سپلائی میں کمی ایل این جی ٹرمینل ایک کو 690 ایم ایم سی ایف ڈی پر چلانے کے لیے بھی کیا گیا، سوئی اور ناشپا فیلڈ سے پیداوار کو بالترتیب 185 ایم ایم سی ایف ڈی اور 85 ایم ایم سی ایف ڈی سے صفر کردیا گیا جبکہ قادرپور فیلڈ سے پیداوار 145 ایم ایم سی ایف ڈی سے کم کرکے 88 ایم ایم سی ایف ڈی کردیا گیا۔کمی کے باوجود سوئی نادرن گیس پائپ لائنز لمیٹڈ (ایس این جی پی ایل) کے نیٹ ورک میں لائن پیک اب بھی 4800 ایم ایم سی ایف ڈی ہے اور توانائی کے شعبے میں آر ایل این جی کی 850 ایم ایم سی ایف ڈی کے ہدف کے مقابلے میں 650 ایم ایم سی ایف ڈی صرف ہورہی ہے۔حکام کا کہنا تھا کہ توانائی کا شعبہ گزشتہ 2 ماہ سے اپنے آرڈر سے تقریباً 150 ایم ایم سی ایف ڈی کم صرف کر رہا ہے۔ایس این جی پی ایل نے یہ آرڈرز ‘لو یا ادا کرو’ کی بنیاد پر لیے تھے مطلب اگر گیس کو استعمال نہ بھی کیا گیا تو اس کے پیسے ادا کرنے ہوں گے۔دوسری جانب پاکستان اسٹیٹ آئل (پی ایس او) گنوور سے اپنا آر ایل این جی کارگو ڈسچارج نہیں کر پارہا اور اسے 50 لاکھ ڈالر کا جرمانہ ‘لو یا ادا کرو’ کی بنیاد پر ہونے والا ہے۔مقامی گیس سپلائی کی لاگت 5 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو ہے جبکہ درآمد کی گئی ایل این جی کی لاگت اس سے دوگنی سے بھی زیادہ 11 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو ہے۔گیس کمپنیاں اور پی ایس او ان مسائل کو اعلیٰ سطح پر تقریباً 6 ہفتوں سے اٹھا رہے ہیں، حیران کن بات یہ ہے کہ توانائی اور پیٹرولیم ڈویڑنز، دونوں ہی وفاقی وزیر عمر ایوب اور وزیر اعظم کے معاون ندیم بابر کی قیادت میں وزارت توانائی کے انتظامی کنٹرول میں ہیں۔رواں ماہ کے آغاز میں پی ایس او اور ایس این جی پی ایل نے وزارت توانائی اور وزیر اعظم کے دفتر سے معاملے پر مداخلت کرنے اور گیس نیٹ ورک کی حفاظت، قومی خزانے سے ادائیگی اور بین الاقوامی جرمانے سے متعلق امور کو حل کرنے کا کہا تھا۔کمپنیوں نے توانائی کے شعبے کی جانب سے وعدے سے کم مقدار میں گیس کو لینے کے حوالے سے شکایت کی تھی اور سنگین نتائج کی دھمکی بھی دی تھی۔گیس کے صرف میں کمی سے نظام پر دباؤ میں اضافہ دیکھا گیا جو یکم اگست کو 4925 ایم ایم سی ایف ڈی ہوگیا تھا تاہم مقامی فیلڈز کی بندش سے یہ تھوڑا کم ہوا ہے۔گیس کمپنیوں نے دعویٰ کیا کہ 4 بڑے پاور پلانٹس، حویلی بہادر شاہ، بلوکی، بھکی اور کپکو اپنے آرڈر میں سے صرف 66 فیصد گیس لے رہے ہیں جبکہ پورا توانائی کا شعبہ الاٹ کیے گئے 830 ایم ایم سی ایف ڈی میں سے 630 ایم ایم سی ایف ڈی صرف کر رہا ہے۔ادھر پاور ڈویژن میں موجود ذرائع کا کہنا تھا کہ توانائی کے شعبے نے اگست کے مہینے میں 850 ایم ایم سی ایف ڈی کے وعدے میں سے 90 فیصد استعمال کرلیا ہے، آئل اینڈ گیس کمپنیوں میں بجلی کی مانگ میں کمی کی وجہ سے 10 سے 15 فیصد کے خلا کو سہنے کی صلاحیت ہونی چاہیے۔ان کا کہنا تھا کہ ہائیڈرو پاور جنریشن 7500 سے 8500 میگاواٹ پیداوار کی بلند ترین سطح کو چھو رہی ہیں جو سب سے سستی ہے اور حالیہ بارشوں کی وجہ سے اس کا استعمال ترک نہیں کیا جاسکتا۔