اصل مسئلہ قبضہ ہے کرفیو نہیں

471

تنظیم اسلامی کانفرنس جو مسلم ممالک کی سب سے بڑی مگر ناکارہ اور مجہول تنظیم ہے ۔ اس نے بھارت سے مطالبہ کر دیا ہے کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں نافذ کرفیو اٹھا لے ۔ اور اگر اس نے حکم نہ مانا تو کیا ہوگا؟ کیا بات صرف اتنی سی ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی سورمائوں نے کرفیو لگا رکھا ہے؟ کشمیر کے ایک حصے پر تو بھارت نے 1948ء سے قبضہ کر رکھا تھا مگر اب اپنے ہی آئین کو توڑ کر متنازع علاقے کو عملاً اپنا اٹوٹ انگ بنا لیا ہے اس پر اسلامی سربراہ کانفرنس یا او آئی سی نے کچھ نہیں کہا گویا سارا مسئلہ صرف کرفیو لگانے کا ہے ۔ یہ ہے مسلم ممالک کی ’’ اقوام متحدہ‘‘ ۔ پاکستان کے مایوس وزیر خارجہ اس پر بھی خوش ہیں اور فرمایا ہے کہ ’’ اسلامی سربراہ تنظیم کا کرفیو اٹھانے کا بیان سفارتی میدان میں پاکستان کی ایک اور ترقی کامیابی ہے ‘‘۔ بس ایسی ہی کامیابیاں سمیٹتے رہیے اور اپنے آپ کو خوش کرتے رہیے ۔ کبھی امریکا کی آس ، کبھی او آئی سی سے امیدیں اور اب اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے توقعات ۔ یہ سب بیکار ہیں ۔ کوئی مدد کو نہیں آئے گا ۔ جو کچھ کرنا ہے خود پاکستان کو کرنا ہے ۔ تنظیم اسلامی کانفرنس کے رکن ممالک کے بھارت سے گہرے تجارتی اور کاروباری تعلقات ہیں جن کو یہ مسلم ممالک محض کشمیر یا مجبور و مقہور مسلمانوں کی خاطر نظر انداز نہیں کر سکتے خواہ کفار بے دریغ ان کا خون بہاتے رہیں ۔ بس ان کے معاشی و تجارتی مفادات پورے ہوتے رہیں ۔او آئی سی نے اب تک مقبوضہ فلسطین اور قبلہ اول کے لیے کیا کر لیا ، میانمر اور افغانستان پر صلیبی قوتوں کے خلاف کون سا قدم اٹھا لیا ۔ آپ کہتے رہیں کہ بحرانوں سے نکلنے کے لیے اتحاد عالمی نا گزیر ہے ۔ یقیناً ایسا ہے مگر یہ اتحاد ہے کہاں ۔ صورتحال تو یہ ہے کہ عالم اسلام میںمسلمان مسلمان کو مار رہے ہیں اور کفر ملت واحدہ بنا ہوا بغلیں بجا رہا ہے ۔ مسلم ممالک اور بھارت کے تجارتی تعلقات کا مختصر سا جائزہ یہ ہے کہ گزشتہ سال بھارت سے سعودی عرب کی تجارت 27.48 بلین ڈالر کی تھی جس میں اس سال مزید اضافہ ہوا ہے ۔ سعودی ولی عہد نے اعلان کیا ہے کہ 2023ء تک بھارت میں سرمایہ کاری 100 ارب ڈالر تک پہنچ جائے گی ۔ اس کے مقابلے میں پاکستان اور سعودی عرب کی باہم تجارت 3.6 بلین ڈالر سالانہ ہے بھارت اور ملائیشیا کی تجارت کا تخمینہ 16.83 بلین ڈالر ہے اور پاکستان کے ساتھ 1.27 بلین ڈالر ۔ یہ ممالک بھارت کے خلاف اپنے مسلمان بھائیوں کا ساتھ کیوں دیں گے ۔ کشمیریوں کے حق میں بیان دینے پر مسلم ملک ملائیشیا معالمی شہرت یافتہ اسلامی اسکالر ڈاکٹر ذاکر نائیک کو اپنے ملک سے نکالنے پر تل گیا ہے کہ کہیں بھارت ناراض نہ ہو جائے ۔ ذاکر نائیک پر جب بھارتی متعصب حکومت نے عرصہ حیات تنگ کر دیا تھا تو ملائیشیا نے انہیں اپنے ملک کی شہریت دے دی تھی ۔ مسلم ریاست بحرین میں بھارت کے خلاف احتجاج کرنے والوں کو گرفتار کر لیا گیا ہے ۔ یہ مسلم ممالک کشمیری مسلمانوں کے حق میں کیا خاک آواز بلند کریں گے۔ بس ہلکے پھلکے بیانات ہی دیے جاتے رہیں گے کہ کرفیو اٹھا لیا جائے۔ بھارت نے اقوام متحدہ کی قرار دادوں اور خود اپنے آئین کی صریح خلاف ورزی کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر کی متنازع حیثیت ختم کر دی اس پر بیشتر مسلم ممالک خاموش ہیں ۔اس سے بہترتو سابق امریکی نائب وزیر خارجہ رچرڈ بائوچر کا بیان ہے کہ بھارتی اقدام بد ترین ہے ۔ گو کہ امریکا کا یہ رد عمل افغان امن کوششوں کو بچانے کے لیے ہے ۔ پاکستان کم از کم اتنا تو کرے کہ امریکا اور طالبان کو آپس میں نمٹنے دے اور اسے اپنی جنگ کہنا چھوڑ دے ۔پاکستان اور بھارت کو یک طرفہ اقدامات سے گریز کرنے کی ہدایت دی جا رہی ہے لیکن بھارت تو یہ کام کر چکا ، اس پر کوئی گرفت نہیں ۔ سلامتی کونسل کی طرف سے ہفتہ کو جاری کردہ پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ کشمیر کا تصفیہ اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق ہو گا ۔ اقوام متحدہ اب تک کہاں تھی؟ یہ قرار دادیں تو 1948ء میں بھارت ہی کے مطالبے پرمنظور کر لی گئی تھیں لیکن سب پر سکوت طاری تھا ۔ اس کے ساتھ ہی پوری دنیا میں شعوری طور پر کوشش کی جارہی ہے کہ مسئلہ کشمیر کو کسی طرح دوسرا رنگ دیا جائے ۔ کشمیر کے ساتھ چین کے ایغور مسلمانوں کا مسئلہ نتھی کیا جارہا ہے ۔ اقوام متحدہ میں پاکستان کی مستقل مندوب ڈاکٹر ملیحہ لودھی نے درست کہا ہے کہ کشمیر کا مسئلہ اس لحاظ سے جداگانہ ہے کہ بھارت نے اس علاقے کو خود متنازعہ علاقہ تسلیم کیا ہوا تھا اور اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل کی قراردادوں پر دستخط کیے ہیں جس میں کشمیر میں استصواب رائے کا کہا گیا ہے ۔ مقبوضہ جموں و کشمیر پر قبضہ کرکے بھارت نے شملہ معاہدے سمیت تمام ہی معاہدوں کو یکطرفہ طور پر منسوخ کردیا ہے ۔ اگر بھارت کی منطق کو درست مان لیا جائے تو دنیا کا کوئی بھی ملک اٹھ کر کسی بھی حصے کو اپنے ملک کا حصہ قرار دے کر اس پر قبضہ کرلے اور بقیہ سارے ممالک منہ دیکھتے رہیں ۔ اس پوری صورتحال میں یورپی یونین کا رویہ انتہائی منافقانہ ہے ۔ بھارت نے ایک کروڑ 40 لاکھ کشمیریوں کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم کیا ہوا ہے مگر یورپی یونین جو کتے اور بلی کے حقوق کے لیے بھی کھڑی ہوجاتی ہے اسے یہ ڈیڑھ کروڑ افراد نظر نہیں آرہے ہیں جن کی خواتین کی روز آبروریزی کی جاتی ہے اور نوجوانوں کو لاپتا کرکے قتل کردیا جاتا ہے ۔ دنیا میں صرف ایک ہی قانون چلتا ہے اور وہ ہے طاقت کا قانون ۔ مگر کیا کہیے کہ لائن آف کنٹرول کے دونوں طرف کے عوام پاکستان میں جن قوتوں کی طرف اپنا حق حاصل کرنے کے لیے دیکھ رہے ہیں ان کا کہنا ہے کہ جنگ کسی آپشن میں ہی نہیں ہے ۔ بھارت اگر التجاؤں اور درخواستوں سے نہیں مانا تو اللہ کے حضور دعاؤں کا آپشن اپنی جگہ تو موجود ہی ہے اور کئی مقامات پر تو آیت کریمہ کا ختم شروع بھی کردیا گیا ہے ۔