ایک کروڑ نوکریاں اور 50لاکھ گھر کہاں ہیں

511

امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق نے سوال کیا ہے کہ ایک کروڑ نوکریاں اور 50 لاکھ گھر کہاں گئے ۔ انہوں نے پی ٹی آئی حکومت کی ایک سالہ کارکردگی کے بارے میں کہا ہے کہ یہ ناکامیوں کا مجموعہ ہے ۔ یہ درست ہے کہ خرابیوں کی تعداد اور انبار کے سامنے ایک سال کچھ نہیں لیکن حکومت کا راستہ ہی الٹاہو تو کامیابی کہاں سے آئے گی ۔ سراج صاحب نے تو بہت مختصر تبصرہ کیا ہے کہ ایک کروڑ نوکریاں اور 50 لاکھ گھر کہاں گئے ۔ تحریک انصاف کے سربراہ نے اعلان کیا تھا کہ آئی ایم ایف کے پاس نہیں جائیں گے ۔ اس کے پاس جانے سے بہتر ہے خود کشی کر لوں ۔ انہوں نے خود کشی تو نہیں کی قوم کو خود کشی پر مجبور کر دیا ۔ انہوں نے پیٹرول اور گیس کو سستا کرنے کا دعویٰ کیا تھا ۔ دونوں کو آسمان پر لے گئے ۔ عمران خان نے ہر ایک کے لیے انصاف کا وعدہ اور دعویٰ کیا تھا ۔ بلکہ دو روز قبل بھی یہی بتا رہے تھے کہ مدینے کی ریاست میں سب کو انصاف ملتا تھا سب برابر تھے ۔ وہ بتا دیں کہ کیاپاکستان میں سب کو انصاف مل رہا ہے ۔ سانحہ ساہیوال ، سانحہ بلدیہ ٹائون ،12مئی،9 اپریل ، سانحہ طاہر پلازہ کے مجرم دندناتے پھر رہے ہیں ۔ ان ہی کے دور میں چار سو افراد کا قاتل رائو انوار رہا ہو کر آزاد گھوم رہا ہے ۔ عمران خان معیشت بہترکرنے کے چکرمیں ٹیکس پر ٹیکس لگا رہے ہیں ۔ عوام کی کمر توڑ دی تاجر خوفزدہ ہیں ۔ امپورٹرز نے ہاتھ روک رکھا ہے ۔ ایکسپورٹرز کو کسی قسم کی سہولت حاصل نہیں ۔ عالمی بینک اور او آئی سی کی ٹیم ملک چلا رہی ہے ۔ وزیر اعظم اور ان کی ٹیم سے سوالات تو بہت سارے کیے جا سکتے ہیں لیکن سراج الحق صاحب کے سوال کا جواب ہی نہیں مل سکا ۔ یہ کیسی ریاست مدینہ ہے جہاں عوام دبائو میں ہیں صرف اپوزیشن کا احتساب ہو رہا ہے ۔ ’’ قادیانیوں کی سر پرستی ہو رہی ہے ۔ قربانی کرنے والوں پر علی زیدی برستے ہیں ۔ مدارس کے خلاف ہرزہ سرائی ہوتی ہے ۔ حاجیوں کے لیے حج مہنگا اور مزید مشکل بنایا جا رہا ہے ۔ کشمیر پر بھارتی قبضے کے بعد بھارتی گلو کار 14 رکنی طائفہ لے کر پاکستان آتا ہے اور ڈیڑھ لاکھ ڈالر پاکستان سے لے کر چلا جاتا ہے۔ وزیر اعظم کچھ بھی کریں کم از کم ریاست مدینہ کا نام نہ لیں ۔ ریاست مدینہ میں ایسے کام نہیں ہوتے تھے ۔ وہاں تو حکمران قوم کا خادم ہوتا تھا وی آئی پی نہیں ۔ ایک سال میں مہنگائی نے آسمان کو چھو لیا ہے ۔ عوام خود کشی پرمجبور ہیں اور حکمران کامیابی کے دعوے کر رہے ہیں ایک سالہ کارکردگی کسی طور بھی قابل ذکر اور قابل فخر نہیں ۔