عمرانی حکومت کا ایک سال

610

حسن افضال

عمران خان اور پی ٹی آئی کے دیگر رہنمائوں نے 2018ء کی انتخابی مہم کے دوران میں اور اُس سے قبل ملک میں جاری فرسودہ اور استحصالی نظام کو بدل کر عوامی مفاد میں انقلابی اقدامات کرنے کے جو بلند بانگ دعوے بڑے تیقن کے ساتھ کیے تھے ان کے نتیجے میں گزشتہ حکومتوں سے چوٹ کھاتے ہوئے بیزار عوام میں اُمید کی ایک لہر دوڑی کہ شاید خدا کو اُن پر رحم آگیا ہے اور عمران خان کی صورت میں اُن کا نجات دہندہ اُن کے دیرینہ مسائل و مصائب سے نجات دلانے کے لیے میدان عمل میں آگیا ہے۔ اُمید کی یہ کرن کراچی کے اُن باسیوں کے دلوں میں بھی ٹمٹمائی جو ایم کیو ایم کے زخم خوردہ تھے اور برسوں سے اِس تنظیم کے ہاتھوں یرغمال بنے ہوئے تھے بلکہ پورا شہر ہی یرغمال بنا ہوا تھا۔ 2018ء کے انتخابات کا مجموعی نتیجہ حسب توقع آیا اور پی ٹی آئی نہ صرف وفاق، پنجاب اور پختونخوا میں حکومت بنانے میں کامیاب ہوگئی بلکہ کراچی کے اُن علاقوں میں بھی اُس نے جھنڈے گاڑدیے جو ایم کیو ایم کا گڑھ تھے۔ یہ تبدیلی زیادہ حیران کُن نا تھی کیونکہ انتخابات سے قبل ہی رینجرز ایم کیو ایم کو لگام ڈال چکی تھی اور کراچی کے باسیوں کو ایک طویل عرصے بعد جبر کے ماحول سے نکل کر کھلی فضا میں سانس لینے کا موقع ملا تھا، اور انہوں نے اپنا حقِ رائے دہی آزادی کے ساتھ استعمال کیا۔ عمران خان کے مسند اقتدار پر آنے کے بعد مسائل کی چکّی میں پسی ہوئی قوم پُرامید تھی کہ اب مثبت تبدیلی کے دن آگئے ہیں اور جلد ہی اُن کے حالات میں خوشگوار تبدیلی آئے گی، صد افسوس کہ ایک سال گزرنے کے باوجود قوم کو جو سُہانے خواب دکھائے گئے تھے وہ شرمندہ تعبیر نہ ہوسکے بلکہ ناگفتہ بہ حالات کی ستائی ہوئی قوم پر مزید عذاب ہوشربا مہنگائی، ظالمانہ محصولات کی بھرمار، بیروزگاری کی شرح میں اضافے اور بدامنی کی شکل میں مسلط کردیے گئے اور قوم شدید صدمے سے دو چار ہے کہ کیا یہ ہے اُس کے خوابوں کی تعبیر!!! مہنگائی کے سونامی نے غریب اور متوسط طبقے کے لیے زندگی ایک مسلسل سزا بنادی ہے۔ عوام کو سستا اور فوری انصاف فراہم کرنے کے دعوے کرنے والے، اُن سے روزگار کے بے پناہ مواقع کے دلفریب وعدے کرنے والے آج کہاں ہیں؟ سرکاری اداروں سے کرپشن کا ناسور
ختم کرنے کا عزم’’صمیم‘‘ ظاہر کرنے والے کرپشن تو ختم نہ کرسکے البتہ اُنہوں نے رشوت کے ریٹ ضرور بڑھادیے۔ تمام سرکاری اور نیم سرکاری اداروں بشمول عدالتی عملے میں آج بھی رشوت کا بول بالا ہے، جو کام پہلے ہزار روپے میں ہوتا تھا اب دوہزار میں ہوتا ہے۔ عام آدمی کے لیے نہ پہلے روزگار کے مواقع تھے نہ آج ہیں۔ کے الیکٹرک کی معاشی بد معاشی کل کی طرح آج بھی جاری ہے بلکہ اُس میں مزید شدت آگئی ہے۔ اس ادارے کو باقاعدہ لائسنس دیدیاگیا ہے کہ وہ کراچی کے عوام کو مختلف حیلوں بہانوں سے دونوں ہاتھوں سے لُوٹے اور اربوں روپے کا ناجائز منافع ہر ماہ کمائے۔ اس کا ایک ثبوت پیک آورز کے دوران میں اضافی نرخ کا اطلاق ہے ’’جومرے کو مارے شاہ مدار‘‘ کے مترادف ہے، یہ صورت حال تادیر جاری رہی تو اہل کراچی کے صبر کا پیمانہ چھلک جائے گا اور پھر جو کچھ بھی ہوگا اس کی ذمے داری حکومت میں موجود اُن مفاد پرستوں پر ہوگی جن کی ایماء پر یہ ادارہ شتر بے مُہار بنا ہوا ہے۔ سرکاری عمال کے کردار کا جائزہ لیا جائے تونہ وہ کل عوام کو جوابدہ تھے نہ آج ہیں۔ پولیس کی بدمعاشیاں کل بھی عروج پر تھیں آج بھی پولیس کا عوام کے ساتھ وہی حاکمانہ، جابرانہ اور تضحیک آمیز رویہ برقرار ہے۔ سرکاری اسپتالوں میں کل کی طرح آج بھی قابل اور تجربے کار طبی عملے اور دوائوں کا فقدان ہے جبکہ نجی شعبے میں چلنے والے اسپتالوں کو عوام کو لوٹنے کی کھلی چھوٹ آج بھی اُسی طرح حاصل ہے جس طرح کل تھی۔ پاکستان کا سب سے بڑا اور دُنیا کا ساتواں بڑا شہر کراچی جو پاکستان کا معاشی حب ہے حکمرانوں کی عدم توجہی بلکہ نفرت انگیز بے حسی اور نالائقی کے سبب دُنیا کے غلیظ ترین شہروں میں شمار ہوتا ہے اور اگر یہی صورتحال برقرار رہی تو ہوسکتا ہے کہ چند سال بعد کراچی کی معاشی سرگرمیاں ماند پڑجائیں اور کاروباری طبقہ دوسرے شہروں کا رُخ کرلے۔ پورے ملک میں عوام کے جان و مال کے تحفظ کی صورتحال انتہائی ابتر ہے جو جب چاہے جہاں چاہے جسے چاہے لوٹ لے یا کسی کی جان لے لے۔
یہ بات ڈنکے کی چوٹ پر کہی جاسکتی ہے کہ عمران حکومت نے ایک سال کی قلیل مُدت میں عوامی مسائل میں بے پناہ اضافہ کردیا ہے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ زرداری اور نوازشریف کی حکومتوں کی لُوٹ مار کی سزا عوام کو دی جارہی ہے۔ حکومت نے محصولات کی وصولی کے سلسلے میں جو پالیسی وضع کی ہے اُس کا طریقہ کار انتہائی نامناسب ہے۔ محصولات کے دائرے میں ہر اُس شخص کو لانا ضروری ہے جو اُس کا متحمل ہولیکن غریب اور سفید پوش طبقے پر اُس کا اُتنا ہی بوجھ ڈالنا چاہیے جسے وہ برداشت کرسکے۔ گزشتہ ماہ راقم الحروف نے اپنی اہلیہ کے لیے ایک سیل فون خریدا جس کی مالیت بارہ سو روپے تھی، فون خریدے ہوئے چند ہی دن گزرے تھے کہ فون پر پی ٹی اے کی طرف سے ایک ایس ایم ایس موصول ہوا جس میں درج تھا کہ فون پر ڈھائی ہزار کا ٹیکس واجب الادا ہے اور ٹیکس کی ادائیگی کے بعد ہی فون Activateکیا جائیگا۔ بارہ سو روپے کے معمولی فون پر ڈھائی ہزار روپے ٹیکس ایک ظالمانہ اقدام ہے اس کی جتنی بھی مذمّت کی جائے کم ہے۔ حکومت کے اسی نوعیت کے اقدامات کی وجہ سے عوام میں بددلی پھیل رہی ہے اور حزب اختلاف کی جماعتوں کو متحد ہوکر حکومت کے خلاف منظم تحریک چلانے کا موقع مل رہا ہے۔اگر عمران خان مندرجہ ذیل نکات کو عملی جامہ پہنانے پر توجہ دیں تو مثبت تبدیلی کا آغاز ہوسکتا ہے۔
مہنگائی اور منافع خوری کا سدباب کرنے کی سمت ہنگامی طور پر ضروری اقدامات کیے جائیں اور اِس ضمن میں ہر ضلع کے ڈپٹی کمشنر کو سخت ہدایات جاری کی جائیں کہ وہ منافع خوروں کو لگام ڈالے اس کے باوجود بھی اگر صورتحال میں بہتری نہ آئے تو متعلقہ ضلع کے ڈپٹی کمشنر کو ذمے دار قرار دیا جائے اور اُس کے خلاف تادیبی کاروائی کی جائے۔
کے الیکٹرک کو فوری طور پر قومی تحویل میں لیا جائے تاکہ اہلِ کراچی کو ہر ماہ کی معاشی دہشت گردی سے نجات ملے۔
سیاستدانوں اور اشرافیہ کے غیر ممالک میں موجود بینک اکائونٹس اور دیگر اثاثہ جات کا سُراغ لگایا جائے اور بینکوں میں موجود رقوم کی پاکستان مُنتقلی یقینی بنائی جائے جبکہ دیگر اثاثہ جات نیلام کرکے اُن سے حاصل شدہ رقوم بھی قومی خزانے میں جمع کرائی جائیں۔
کرپشن کے ناسور کو جڑ سے اُکھاڑ پھینکنے کے لیے بلا کسی تخصیص کے ’’زیروٹالرنس‘‘ کی پالیسی اختیار کی جائے اور اس ضمن میں ضروری قانون سازی کی جائے۔
صنعت اور زراعت کے شعبوں میں ترقی کے لیے ضروری اقدامات عمل میں لائے جائیں۔
تمام وزراء قومی اور صوبائی اسمبلیوں اور ایوانِ بالا کے اراکین کی مراعات نصف کی جائیں۔
بے روزگار تعلیم یافتہ نوجوانوں کو معقول وظیفہ دیا جائے۔
گداگری اور چندہ خوری کی لعنت کو جڑ سے ختم کیا جائے۔
سرکاری اور نیم سرکاری اداروں میں انسداد رشوت ستانی کی با اختیار کمیٹیاں تشکیل دی جائیں جو کسی بھی صورت میں بروقت اقدام کرنے کی مجاز ہوں۔