بھارت کی تقسیم کی شروعات

434

بھارت میں نریندر مودی حکومت آنے سے وہاں کے مسلمانوں اور دیگر امن پسند لوگوں کو جو خدشات تھے وہ پورے ہونے لگے۔ لیکن بھارت بھی ٹکڑے ٹکڑے ہونے لگا۔ نریندر مودی بھارتیا جنتا پارٹی کے رہنما تو ہیں وہ بھارت میں وزارت عظمٰی کے دوسرے دور کے لیے منتخب ہوچکے ہیں مگر انہیں بھارت سے باہر ہندو قوم پرست رہنما سے زیادہ ایک دہشت گرد کی حیثیت سے جانا جاتا ہے۔ اس کی وجہ سانحہ گجرات ہے۔ مودی نے بھارت کی سیکولر (لادین) قوم کو انتہا پسند ہندو بنانے کے لیے کوئی کسر نہیں چھوڑی نتیجے میں اب ایک بار پھر ہندو مسلم فسادات کے خدشات بھی بڑھتے جارہے ہیں۔ چوںکہ مسلمان ابھی صبر و تحمل سے کام لے رہے ہیں۔ لیکن دوسری طرف ہندو قوم پرست دہشت گرد مسلمانوں پر تشدد کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دے رہے۔ یہ دہشت گرد جو یقینا وزیر اعظم نریندر مودی کی انتہا پسند تحریک آر ایس ایس کے لوگ ہوںگے کسی بھی مسلمان چاہے وہ بوڑھا ہی کیوں نہ ہو رسیوں سے پول پر باندھ کر مارتے ہیں اور ان سے زبردستی ’’جے شری رام اور بھارت ماتا کی جے‘‘ جیسے نعرے لگواتے ہیں۔ جس سے بھارت کا امیج روز بروز بگڑتا جارہا ہے۔ بھارتی اب قوم کے بجائے ’’ہجوم‘‘ کہلانے لگے ہیں۔ اس ہجوم نے 25 جولائی کو صوبہ بہار کے شہر پٹنہ میں ایک کتے کے گائے کو کاٹ کر زخمی کرنے پر ہنگامہ آرائی شروع کردی اور مسلمانوں کو پکڑ کر زد وکوب کرنے لگے جس کی وجہ سے ہندو مسلم فسادات پھوٹ پڑنے کے خدشات واضح ہوگئے تھے۔ بھارتی میڈیا کے مطابق ہندوؤں کو معلوم ہوا تھا کہ ’’گائے کو کاٹنے والا کتا کسی مسلمان کا ہے‘‘۔ اس اطلاع پر ہندو شرپسند مختلف گلیوں میں ٹولیوں کی شکل میں پھیل کر مسلمانوں کو تشدد کا نشانہ بنانے لگے۔ ان واقعات کی اطلاع پر پولیس فورس کو متاثرہ علاقوں میں تعینات کردیا گیا۔ لیکن خوش قسمتی سے جیسے ہی یہ بات سامنے آئی کہ گائے کو کاٹنے والا کتا کسی مسلمان کا نہیں بلکہ ہندو کا ہے یہ بات عام ہوتے ہی تشدد کے واقعات ختم ہوگئے۔ گو کہ اب بھارت میں کسی مسلمان کے پالتو جانور کے کسی ہندو کے جانور کو کاٹ لینے کی اطلاع پر بھی ہنگامے پھوٹ سکتے ہیں۔
مودی حکومت نے آرٹیکل 370 منسوخ کرکے اپنے پاگل پن کا بڑا ثبوت دیا ہے۔ اس پاگل پن کا اندیشہ اس وقت سے تھا جب سے دوبارہ نریندر مودی منتخب ہوئے۔ مودی حکومت نے کشمیر کی متنازع حیثیت ختم کرکے اسے اپنے کنٹرول میں کرنے کے لیے آرٹیکل 370 کو منسوخ کردیا جس کے نتیجے میں کشمیر کی آئینی حیثیت ختم ہوگئی اور اسے وفاق کے کنٹرول میں کرلیا گیا۔ یہ فیصلہ مودی سیاست یا ہندو قوم پرستوں کی طرف سے بھارت میں ہندوؤں کا راج قائم کرنے اور اسے مستحکم کرنے کے لیے کیا گیا۔ اس فیصلے کو خود بھارت کے سمجھدار اور باشعور لوگ تسلیم کرنے سے انکار کرچکے ہیں۔ لیکن بھارتی حکومت کے اس اقدام سے سب بڑی بات یہ ہوئی کہ کشمیر کا مسئلہ 50 سال بعد اقوام متحدہ میں اٹھایا گیا۔ یہی نہیں اس عمل کو بھارت کے لاکھوں لوگ ماننے سے انکار کرکے سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔ مسلم علی گڑھ یونیورسٹی کے ہزاروں طالبعلم بھی کشمیر میں کرفیو نافذ کرکے نئے حکم پر عمل کرانے کے انڈین حکومت کے اقدام کے خلاف سڑکوں پر احتجاج کررہے ہیں۔
بھارت میں یہ تاثر بھی عام ہورہا ہے کہ مودی سرکار غلط اور ناقابل قبول فیصلے کرکے ملک کو توڑنا چاہتی ہے۔ بھارت کی دوسری بڑی اکثریت مسلمانوں کی ہے جنہیں یقین ہے کہ بھارت کے زیر کنٹرول مقبوضہ جموں و کشمیر کے کا مقدمہ تو پاکستان کامیابی کے ساتھ لڑ کر کشمیر کو پاکستان بنا ہی لے گا۔ مگر بھارت ٹکڑے ٹکڑے ہوجائے گا۔ جس کی شروعات ناگا لینڈ سے ہوچکی ہے۔ ناگا لینڈ 14 اگست کو بھارت سے علیحدگی کا اعلان کرچکا ہے۔ گو کہ ہندوستان کے مزید ٹکڑے ہونا شروع ہوچکے ہیں۔ خیال رہے کہ بھارت کے شمال مشرقی پہاڑی علاقے ناگا لینڈ نے بھارت سے علیحدگی اختیار کرتے ہوئے اپنا قومی پرچم اور ترانہ جاری کردیا جبکہ انہوں نے آئندہ برس سے چودہ اگست کو یوم آزادی کے طور پر منانے کا اعلان کردیا۔ اس موقع پر ناگا لینڈ کی حکومت نے اپنا قومی پرچم اور قومی ترانہ بھی جاری کردیا جبکہ ناگا لینڈ سے تعلق رکھنے والے شہریوں نے نئی دہلی میں آزادی کے حق اور بھارتی تسلط کو علاقے سے ختم کرنے کے لیے مظاہرہ بھی کیا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق ناگا لینڈ نے 14 اگست کو صرف اپنا یوم آزادی ہی نہیں منایا بلکہ پاکستان، کشمیریوں اور خالصتان کے عوام کی طرح بھارت کے یوم آزادی کو یوم سیاہ کے طور پربھی منایا۔ یہ بھی یاد رہے کہ ناگا لینڈ بھارت کے شمال مشرق میں واقع پہاڑی علاقہ ہے جہاں کے لوگ قدیم قبائلی رسم و رواج کے مطابق اپنی زندگیاں بسر کرتے ہیں۔ 1951 میں ہونے والے ریفرنڈم کے مطابق ناگا لینڈ کی 99 فی صد سے بھی زائد عوام نے بھارت سے علیحدگی کے حق میں ووٹ دیا تھا لیکن اس کے باوجود بھارت نے وہاں اپنی فورسز کو بھیج کر قبضہ کر لیا تھا۔