روداد سفر اور جماعت اسلامی پاکستان کا اجتماع عام ۱۹۵۷ء(باب دہم)

435

۱۷؍اکتوبر ۱۹۵۷ء کو اسکندر مرزا نے مسٹر ابراہیم اسماعیل چندریگر کو وزارت بنانے کی دعوت دی۔ یہ ایک مخلوط حکومت تھی‘ جس میں مسلم لیگ‘ ری پبلکن پارٹی‘ کرشک سرامک پارٹی اور نظام اسلام پارٹی شامل تھیں۔ ری پبلکن پارٹی نے مسلم لیگ سے سودے بازی کرکے مخلوط انتخابات کی شرط منوالی تھی‘ مگر اس کے باوجود ان میں آپس میں نہ بن سکی۔
طریق انتخاب پر مسلم لیگ اور ری پبلکن پارٹی میں مکمل اتفاق رائے نہ ہوسکا۔ اختلافات حد سے زیادہ بڑھنے پر صدر اسکندر مرزا نے‘ جنھوںنے مسلم لیگ اور اسلامی دستور کے حامی ارکان کا زور توڑنے کے لیے راتوں رات ری پبلکن پارٹی بنائی تھی‘ بات چیت کے لیے دونوں پارٹیوں کے رہنماؤں کا اجلاس ۲۵؍ نومبر ۱۹۵۷ء کو کراچی میں طلب کرلیا۔ مذاکرات میں دونوں پارٹیوں کے مابین کوئی مفاہمت نہ ہوسکی۔ اسی دوران میں اس مسئلے پر قومی اسمبلی کا بھی اجلاس جاری تھا۔لیکن ۳۰؍ نومبر کو کسی فیصلے پر پہنچے بغیر یہ اجلاس ۱۱ ؍دسمبر تک ملتوی کردیا گیا۔
طریق انتخاب کے بارے میں مشرقی پاکستان کے عوام کی رائے معلوم کرنے کے لیے ری پبلکن پارٹی کے رہنماؤں کے ایک وفد نے دسمبر کے شروع میں مشرقی پاکستان کا دورہ کیا۔ حقائق معلوم کرنے والی اس کمیٹی نے یہ رپورٹ دی کہ مشرقی پاکستان کے اسلام پسند عوام نے مخلوط طریق انتخاب کو قطعی طور پر مسترد کردیا تھا۔ ری پبلکن پارٹی نے کمیٹی کی رپورٹ پر غور کیا اور ڈاکٹر خان کو فیصلے کا اختیار دے دیا۔ ڈاکٹر خان نے ایوان صدر پہنچ کر حقائق کے برخلاف اور کمیٹی کی سفارشات کو نظرانداز کرتے ہوئے قلابازی کھائی اور مخلوط طریق انتخاب کے حق میں فیصلہ دے دیا۔ ڈاکٹر خان کی اس منافقانہ روش پر مسلم لیگ کے رہنما اور وزیراعظم آئی آئی چند ریگر نے ۱۱؍ دسمبر ۱۹۵۷ء کو اپنے عہدے سے استعفا دے دیا۔ صدر اسکندر مرزا جو اس اکھاڑ پچھاڑ کے کھلاڑی بن چکے تھے‘ ملک فیروز خان نون کو وزارت بنانے کی دعوت دی‘ جو آئی آئی چندریگر کی کابینہ میں وزیرخارجہ تھے۔
نئے وزیراعظم ملک فیروز خان نون نے پہلا کام یہ کیا کہ جداگانہ انتخاب کی بنیاد پر تیار ہونے والی رائے دہندگان کی فہرستوں کی چھپائی کے کام کوفوراً روک دیا جس کی چھپائی وزیراعظم چندریگر کے حکم پر شروع ہوچکی تھی۔ دسمبر کے آخر میں مرکزی کابینہ کے ایک اجلاس میں سیکورٹی آرڈی نینس کو بحال رکھنے کا فیصلہ کیا۔ جنوری ۱۹۵۸ء کے آخر میں الیکشن کمیشن کو رائے دہندگان کی فہرست کو مخلوط طریق انتخاب کے تحت ترتیب دینے کی ہدایت کی گئی۔
مارچ ۱۹۵۸ء میں ری پبلکن پارٹی میں پھوٹ پڑگئی۔ مغربی پاکستان کے وزیراعلیٰ سردار عبدالرشید مستعفی ہوگئے۔ ان کی جگہ نواب مظفر علی قزلباش کو صوبے کا نیا وزیراعلیٰ بنایا گیا۔ مشرقی پاکستان میں بھی ٹوٹ پھوٹ اور گٹھ جوڑ کا عمل جاری رہا۔یکم؍ اپریل ۱۹۵۸ء کو مسٹر حامد علی نے گورنر مشرقی پاکستان کی حیثیت سے اپنے عہدے کا حلف اٹھایا۔ اس سے پہلے۳۱ ؍مارچ کو صدر اسکندرمرزا نے مشرقی پاکستان کے گورنر فضل الحق کو برطرف کردیا تھا۔ حسین شہید سہروردی کی عوامی لیگ پارٹی کے وزیراعلیٰ مسٹر عطاء الرحمن کی وزارت ٹوٹ گئی۔ ابوحسین سرکار کو نیا وزیراعلیٰ بنایا گیا‘ لیکن دنیا کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایسا ہوا کہ کسی صوبے کے وزیراعلیٰ کو حلف اٹھانے کے صرف ۱۲ گھنٹے بعد برخاست کردیا گیا۔ یکم؍ اپریل کو مسٹر عطاء الرحمن کی وزارت بحال کردی گئی۔ ۲۶ ؍اپریل ۱۹۵۸ء کو پھر ڈرامائی طور پر گورنر حامد علی کو ان کے عہدے سے ہٹادیا گیا اور مسٹر سلطان الدین احمد نئے گورنر مقرر کردیے گئے۔ وزیراعظم ملک فیروز خاں نون نے مرکزی کابینہ میں رد وبدل کیا۔ انہوں نے مسلم لیگ کے مسٹر ایوب کھوڑو کو وزیر دفاع کی حیثیت سے لے لیا‘ جس پر مسٹر کھوڑو کو مسلم لیگ سے نکال دیا گیا۔
بلدیہ کراچی کے انتخابات اور جماعت اسلامی
کراچی شہر متحدہ پاکستان کا وفاقی دار الحکومت تھا۔اپریل ۱۹۵۸ء کے آخری عشرے میں بلدیہ کراچی کے انتخابات ہوئے۔ حکام کی کھلی اور شرمناک دھاندلیوں کے باوجود جماعت اسلامی کے امیدوار بھاری اکثریت سے کامیاب ہوگئے۔ جماعت اسلامی نے ۲۳ نشستوں پر اپنے امیدوار کھڑے کیے تھے جن میں سے ۱۹ پر انہیں کامیابی ملی۔ جماعت اسلامی کی اس غیر معمولی کامیابی پر ایوان اقتدار میں فی الحقیقت زلزلہ آگیا اور حکمراں بوکھلا اٹھے۔
۹ ؍مئی ۱۹۵۸ء کو ری پبلکن پارٹی کے بانی ۷۶ سالہ ڈاکٹر خان کو‘ ایک معطل پٹواری عطا محمد نے ایک ذاتی جھگڑے کی بنا پر لاہور میں ان کی قیام گاہ پر قتل کردیا۔ شہید ملت لیاقت علی خان کے بعد ملک کا یہ دوسرا بڑا سیاسی قتل تھا۔ ۱۶ ؍جون کو مرحوم ڈاکٹر خان کے صاحبزادے خان سعداللہ خان کو صوبائی وزیر بنادیا گیا‘ جو اس وقت بطور ڈپٹی سیکریٹری مواصلات کام کررہے تھے۔
(جاری ہے)