روداد سفر اور جماعت اسلامی پاکستان کا اجتماع عام ۱۹۵۷ء(باب دہم)

908

۲۵ ؍اپریل کو مولانا مودودیؒ نے پریس کو ایک بیان جاری کیا جس میں کہا گیا کہ: ’’بے ضمیر‘ بے سیرت اور بے اصول لوگوں نے رائے عامّہ کو ٹھکرا کر مخلوط انتخاب کو مغربی پاکستان پر مسلط کیا گیا ہے‘‘۔ ۲؍مئی ۱۹۵۷ء کو ملک بھر میں عیدالفطر کے تہوار پر یوم احتجاج منایا گیا۔
جداگانہ انتخاب مسلمانوں کی جداگانہ قومیت کا سنگ بنیاد تھا۔ مولانا مودودی نے ترجمان القرآن میں مخلوط انتخاب کی مخالفت میں ایک مدلل مضمون بھی لکھا تھا۔ انہوں نے ۱۹۵۵ء اور ۱۹۵۸ء کے درمیان جو تقریریں کیں ان میں زیادہ تر مخلوط انتخاب کی مخالفت اور جداگانہ طریق انتخاب کے حق میں تھیں۔ یہ تقریریں مولانا کی سیاسی بصیرت اور ذہانت کا بہترین نمونہ ہیں۔
انہوں نے دلائل کا اس طرح بے لاگ تجزیہ کیا جیسا کہ ۱۹۴۷ء سے قبل مسلمانوں کی جداگانہ قومیت کے حق میں مدلل مضامین لکھے تھے اور دوٹوک الفاظ میں کہہ دیا تھا کہ اگر مخلوط طریق انتخاب نافذ کیا گیا تو پھر پاکستان کی خیر نہیں۔ مشرقی پاکستان میں بنگالی قومیت کا زہر پھیل جائے گا اور ایک دن مشرقی پاکستان‘ مغربی پاکستان سے علیحدہ ہو جائے گا اور تاریخ شاہد ہے کہ ایسا ہی ہوا۔
۱۹ سے ۲۷؍مئی ۱۹۵۷ء تک جماعت اسلامی کی مرکزی مجلس شوریٰ کا اجلاس نواح لاہور میں منعقد ہوا‘ جس میں حکومت کی روش کی مذمت کرتے ہوئے یہ خدشہ ظاہر کیا گیا کہ: جداگانہ طریق انتخابات نہ اپنایا گیا تو مشرقی اور پھر مغربی پاکستان روز بروز ایک دوسرے سے دور ہوتے جائیں گے‘ جبکہ پہلے ہی سے وہاں ہندوؤں اور عوامی لیگ کے کرتا دھرتا قوم پرستی اور علیحدگی کے رجحانات کا پرچار کرتے رہے ہیں۔
جماعت کی مرکزی مجلس شوریٰ کا ایک اور اجلاس ۲۴ تا ۳۰؍ دسمبر ۱۹۵۷ء کو لاہور میں ہوا‘ جس میں عام انتخابات سے پہلے طریق انتخابات کا مسئلہ طے کرنے کے لیے ملک میں ریفرنڈم کرانے کا مطالبہ کیا گیا۔ بعد میں جماعت نے ریفرنڈم کی اہمیت پر ایک قرطاس ابیض بھی شائع کیا۔
حکومت کی بار بار تبدیلیاں اور سیاسی قلابازیاں
۱۵ ؍جولائی ۱۹۵۷ء کو مغربی پاکستان میں صدر راج ختم کردیا گیا۔ نئے گٹھ جوڑ کے بعد سردار عبدالرشید کو ڈاکٹر خان صاحب کی جگہ مغربی پاکستان کا وزیراعلیٰ بنایا گیا۔ سردار عبدالحمید دستی‘ میر علی احمد تالپور‘ مظفر علی قزلباش‘ سید عابد حسین‘ مخدوم حسن محمود‘نواب افتخار حسین ممدوٹ اور پیرزادہ عبدالستار ان کی کابینہ میں شامل کیے گئے۔ ۵؍اگست ۱۹۵۷ء کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے فیصلہ دیا کہ:’’ گورنر کو آئین کی دفعہ ۵ کے تحت قائم کردہ صوبائی اسمبلی کو توڑنے کا کوئی اختیار نہیں‘‘۔
۲۷ ؍اگست ۱۹۵۷ء کو مغربی پاکستان کے گورنر مسٹر مشتاق احمد گورمانی اچانک اپنے عہدے سے مستعفی ہوگئے‘ اور ان کی جگہ اختر حسین مغربی پاکستان کے گورنر مقرر ہوئے۔ ۱۱؍اکتوبر ۱۹۵۷ء کو حسین شہید سہروردی نے وزارت عظمیٰ سے استعفادے دیا۔ کیوںکہ عوامی لیگ اور ری پبلکن پارٹی کے اتحاد کے بارے میں ان کی صدر اسکندر مرزا سے ان بن ہوگئی تھی‘ اور پارلیمنٹ کا اجلا س بلانے کے بارے میں صدر اسکندر مرزا نے ان کی درخواست مسترد کردی تھی اور اس کے بجائے ان سے استعفا طلب کرلیا۔ چنانچہ حسین شہید سہروردی نے کٹھ پتلی وزیراعظم رہنے کے بجائے بطور احتجاج اپنا استعفا پیش کردیا۔
(جاری ہے)