پشاور کی نکاسی آب اور صفائی

382

خیبر پختون خوا کے وزیر خزانہ تیمور سلیم جھگڑا کی زیر صدارت پشاور شہر کے جامع ترقیاتی پلان اور درپیش مسائل کے حل کے لیے وزیر اعلیٰ خیبر پختون خوا کی ہدایات کی روشنی میں پشاور سے تعلق رکھنے والے ارکان قومی و صوبائی اسمبلی پر مشتمل سب کمیٹی کے اجلاس میں پشاور شہر کے مجموعی ترقیاتی پلان کے لیے ایمرجنسی بنیادوں پر ایک ٹھوس و جامع ترقیاتی حکمت عملی مرتب کرنے اور درپیش مسائل کے فوری اور دیرپا حل کے لیے پانچ شعبوں کی نشاندہی اور ان شعبوں کی ترقی اور ان سے متعلق مسائل کے حل کے لیے تجاویز پیش کرنے اور ترقیاتی پلان کے تحت کام کی نگرانی کے لیے ارکان قومی اور صوبائی اسمبلی اور متعلقہ محکموں کے اعلیٰ حکام پر مشتمل ورکنگ گروپس کے قیام کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ یہ ورکنگ گروپس پشاور کے عوام کی توقعات اور خواہشات کو مدنظر رکھتے ہوئے مجموعی ترقیاتی پلان کے لیے اپنی تجاویز پیش کریں گے جسے حتمی منظوری کے لیے وزیراعلیٰ خیبر پختون خوا کو پیش کیا جائے گا۔
یہ ایک برسرزمین حقیقت ہے کہ پشاور خطے کا تاریخی اور جغرافیائی اعتبار سے انتہائی اہمیت کا حامل شہر ہونے کے علاوہ صوبے کا مرکزی شہر بھی ہے لیکن گزشتہ کئی دہائیوں سے یہ شہر اور یہاں کے عوام مرکزی اور صوبائی دونوں حکومتوں کی عدم توجہی کا شکار رہے ہیں۔ پچھلے 72 سال میں یہاں سے کئی وفاقی اور صوبائی وزراء منتخب ہوتے رہے ہیں لیکن اس عظیم شہر کی حقیقی ترقی اور یہاں کے عوام کی فلاح و بہبود اور ان کے مسائل کے حل پر کسی نے بھی توجہ نہیں دی۔ پشاور کی ایک اور بدقسمتی یہ رہی ہے کہ 1985 کے غیرجماعتی انتخابات کے نتیجے میں مختصر عرصے کے لیے اس شہر سے ارباب جہانگیر خان خلیل کے وزیر اعلیٰ منتخب ہونے کے علاوہ پچھلی سات دہائیوں سے یہاں سے کوئی وزیر اعلیٰ منتخب نہیں ہوسکا ہے یہ الگ بات ہے کہ اب تک خیبر پختون خوا کے جتنے بھی وزراء اعلیٰ گزرے ہیں نہ صرف ان کی رہائش گاہیں پشاور میں ہیں بلکہ ان میں سے اکثر کے کاروبار بھی یہاں ہیں اور ان کی اولادیں بھی یہیں سے تعلیم حاصل کرتی رہی ہیں لیکن انہیں اپنی اپنی حکمرانی میں پشاور کی ترقی کا ذرا بھی خیال نہیں آیا جس کا خمیازہ پشاور کے باسی مختلف مسائل اور مشکلات کی شکل میں بھگتے رہے ہیں۔ ہم یہاں تیمور سلیم جھگڑا کے جذبات کی قدر کرتے ہوئے اتنا ضرور کہنا چاہیں گے کہ پشاور شہر کی جدید بنیادوں پر دیرپا ترقی کے لیے صرف منصوبوں اور اجلاسوں سے کام نہیں چلے گا بلکہ اس ضمن میں عملی اور فوری اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ وزیر خزانہ کا یہ کہنا بجا ہے کہ صوبائی حکومت نے امسال سالانہ بجٹ میں پشاور کی ترقی کے لیے دس ارب سے زائد کی رقم مختص کی ہے اور ضرورت پڑی تو مزید فنڈ بھی مختص کیے جائیں گے لیکن سوال یہ ہے کہ یہ دس ارب روپے جو اصل میں اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر بھی نہیں ہیں سے وہ پشاور کی ٹیڑھی ہر کل کو کس طرح سیدھا کریں گے۔ کالم کی تنگ دامنی اجازت نہیں دیتی ورنہ میں ایک ایک کرکے جب پشاور کے بھڑکتے اور سلگتے مسائل ان کے گوش گزار کرتا تو تب انہیں اندازہ ہوتا کہ واقعی یہ بوجھ دس ارب روپے سے اٹھائے جانے کے قابل نہیں ہے۔
یاد رہے کہ وزیراعلیٰ خیبر پختون خوا محمود خان بھی ان دنوں پشاور پر مہربان دکھائی دیتے ہیں جنہوں نے گزشتہ دنوں وزیر اعلیٰ ہائوس میں پشاور میں نکاسی آب کی صورتحال کے حوالے سے ایک اعلیٰ سطحی اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کارخانو بازار میں صفائی کی ناقص صورت حال پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے متعلقہ محکموں کو کارخانو بازار کی صفائی اور ستھرائی جلد ممکن بنانے کی ہدایت کی ہے۔ اس موقع پر ان کا کہنا تھا کہ ایک ہفتہ بعد وہ کارخانو بازار کا خود دورہ کریں گے اور صفائی و ستھرائی کی صورت حال کا جائزہ لیںگے۔ وزیراعلیٰ کا کہنا تھا کہ پشاور شہر صوبے کا دارالحکومت ہونے کے ناتے صوبائی حکومت کے لیے خصوصی توجہ کا حامل ہے جبکہ اس کی خوبصورتی، صفائی اور نکاسی آب کے مسائل حل کرنا موجودہ حکومت کی اولین ترجیحات میں شامل ہے۔
پشاور میں پچھلے دنوں دو گھنٹوں کی مسلسل بارش کے بعد یونیورسٹی روڈ، سورے پل، ورسک روڈ، چارسدہ روڈ، سرکلر روڈ، گلبہار، حیات آباد اور صوبائی اسمبلی کے سامنے سڑک تالاب کا منظر پیش کررہے تھے۔ سڑکوں پر پانی کھڑا ہونے کی وجہ سے بدترین ٹریفک جام سے شہریوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا جب کہ رہی سہی کسر بی آرٹی ٹریک کے انڈر پاسز میں جمع ہونے والے پانی جو تالابوں کا منظر پیش کر رہے تھے نے پوری کردی تھی شاید یہی صورتحال وزیر اعلیٰ کے فوری نوٹس لینے کا باعث بنی ہے حالاںکہ انہوں نے متعلقہ محکموں کو نکاسی آب اور صفائی کے حوالے سے جو ہدایات جاری کیں ہیں ان کا نوٹس لینا وزیر اعلیٰ کے بجائے ان متعلقہ اداروں کی ذمے داری ہے جو ان ہی فرائض کی انجام دہی کے لیے بھاری بھرکم قومی وسائل کی فراہمی کی بنیادپر وجود میں لائے گئے ہیں۔
واضح رہے کہ پبلک ہیلتھ اور سیوریج ماہرین کے مطابق پشاور شہر میں نکاسی آب کے 20 بڑے اور 10 چھوٹے ایسے مقامات جہاں پر نکاسی آب اور صفائی کا مسئلہ زیادہ گمبھیر ہے جس سے پورے شہر کی صفائی، ٹریفک کی روانی اور عمومی زندگی متاثر ہورہی ہے لہٰذا اگر ان مقامات کی نکاسی آب اور صفائی کے نظام کی بہتری پر خصوصی توجہ دی جائے تو اس سنگین مسئلے پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ لہٰذا توقع ہے کہ کمشنر پشاور وزیراعلیٰ خیبر پختون خوا کی ہدایات کی روشنی میں پشاور شہر میں نکاسی آب کا پیچیدہ اور پرانا مسئلہ مستقل بنیادوں پر حل کرنے میں تمام متعلقہ محکموں کی شمولیت کے ذریعے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کریں گے۔