نیپرا کی تحقیقات…چوکنا رہنے کی ضرورت

325

نیپرا نے کراچی میں بارش کے دوران کرنٹ لگنے سے 30 افراد کی ہلاکتوں کے معاملے پر تحقیقات شروع کردی۔ اس خبر سے عوام میں اطمینان کی لہر دوڑ گئی ہے کہ کسی معاملے پر تو شنوائی ہوئی ہے لیکن اس معاملے میں نہایت چوکنا رہنے کی ضرورت ہے۔ لوگ سمجھ رہے ہیں کہ کے۔الیکٹرک کے خلاف کوئی رپورٹ آئے گی، اسے ذمے دار قرار دیا جائے گا، کچھ لوگوں کو سزا ہوگی۔ وغیرہ وغیرہ… لیکن جو انداز کے۔الیکٹرک کی انتظامیہ اور ترجمانوں کا ہے۔ اعلیٰ سطح پر جو کچھ سوچا جارہا ہے اس سے تو ایسا لگتا ہے کہ نیپرا کے۔الیکٹرک کو بری کرنے کی تیاری کررہی ہے۔ کہیں کیبل کو ذمے دار قرار دیا جائے گا، کہیں کنڈے کو اور ترجمان نے تو کہہ ہی دیا ہے کہ جب بارش تھی تو لوگ بجلی کے کھمبوں کے قریب کیوں گئے۔ کے۔الیکٹرک نے 22 افراد کی ہلاکتوں کے بعد شہر میں مختلف مقامات پر بینرز بھی آویزاں کردیے تھے اور اخبارات کو اشتہارات بھی دیے کہ لوگ بارش میں کھمبوں اور درختوں کے نیچے نہ کھڑے ہوں۔ یہ احتیاطی اقدامات اور توجہ دلانے والے اشتہارات اپنی جگہ اہم ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ ڈیفنس جیسے علاقے میں گھر کے مین گیٹ کے سامنے کس کا کنڈا تھا جہاں تین نوجوان جان سے گئے۔ ایک عذر لنگ یہ پیش کیا جارہا ہے کہ گلی گلی میں ایک مافیا ہے جو کے۔الیکٹرک کے عملے کے ساتھ مل کر کنڈے لگا رہی ہے۔ اگر کے۔ الیکٹرک کی انتظامیہ کو اس کی خبر ہے اور یہ خبر اسے اچھی طرح ہے تو پھر اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ انتظامیہ خود بھی اس میں ملوث ہے۔ جس غیر قانونی کام کا انتظامیہ کے اعلیٰ ترین منصب پر فائز افراد کو بھی علم ہو تو اسے چند افراد کا عمل تو نہیں کیا جاسکتا یہ تو بہت واضح ہے کہ اعلیٰ انتظامیہ کنڈوں اور اپنے عملے کے ملوث ہونے سے واقف ہے۔ تو پھر نقصان کی وہ ذمے دار کیوں نہیں۔ سوال یہ نہیں ہے کہ قصور کس کا تھا اور کس کس کی غلطی تھی۔ مسئلہ یہ ہے کہ لوگ جان سے گئے ہیں جس کا نقصان ہوا ہے۔ اسے یا اس کے ورثا کو ہرجانہ تو ملنا چاہیے۔ ہاں اس کے بعد دیگر ذمے داران کا تعین بھی ہونا چاہیے۔ کے۔الیکٹرک کے ذمے داران کہہ رہے ہیں کہ ہلاکتیں کے۔الیکٹرک کی وجہ سے نہیں پانی کی وجہ سے ہوئیں اور پانی بلدیہ کی نااہلی کی وجہ سے کھڑا تھا۔ پانی کھڑا ہونے کا سبب نالوں کی صفائی نہ ہونا تھا اور نالوں میں کچرا تھا۔ اگر کے۔الیکٹرک کو بچانا مقصود ہوا تو رپورٹ میں ملبہ پانی، نالوں اور کچرے پر ڈالا جائے گا۔ لیکن اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ نقصان تو 30 جانوں کا ہوا ہے۔ اس کا ہرجانہ تو پورا ہی دیا جانا ہے۔ خواہ چار محکمے مل کر ادا کریں یا اکیلا کے۔الیکٹرک۔ یہ تو اچھا ہوا کہ میئر کراچی نے کے۔الیکٹرک کے خلاف مقدمہ درج کرا دیا ہے۔ یہ مقدمہ جلد شروع ہونا چاہیے۔ کیونکہ کے۔الیکٹرک بھی منتظر ہے اس کی جانب سے شہر میں جگہ جگہ ٹوٹی سڑکوں، پانی کی نکاسی نہ ہونے او رکچرے سے بھرے ہوئے نالوں کا موقف بھی موجود ہے۔ میئر کراچی نے کے۔الیکٹرک کے خلاف مقدمہ تو صحیح درج کرایا ہے لیکن اب وہ اور حکومت سندھ بھی کٹہرے میں آنے کی تیاری کرلیں۔ لیکن نیپرا اور کے۔الیکٹرک ساز باز کرکے 30 افراد کی ہلاکت کی ذمے داری کسی اور پر ڈالنے سے گریز کریں، تمام افراد کر ہرجانہ اور کے۔الیکٹرک کو جرمانہ لازماً ادا کرنا ہوگا۔ کے الیکٹرک کی نااہلی اور کیبلز مافیا سے ملی بھگت کا اس سے بڑا ثبوت کیا ہوگا کہ اب جبکہ کیبل کی ویڈیو سامنے آگئی ہے تو انہوں نے دو دن کے نوٹس پر بجلی کے کھمبوں سے کیبلز ہٹانے کا حکم جاری کردیا ہے۔ جبکہ یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ کیبل والے فی کھمبا پیسے ادا کرتے ہیںیہ پیسے کس کو ملتے ہیں اس کی بھی تحقیق ہونی چاہیے پہلے بلدیہ اور ٹائون کو ملتے تھے۔ کھموں سے کیبل ہٹانے کا حکم ان کی ملی بھگت کا ثبوت ہے۔ دوسری طرف پولیس بھی کے۔الیکٹرک سے خوفزدہ ہے یا وہ بھی ملی ہوئی ہے۔ جن لوگوں کے خلاف مقدمات ہیں پولیس نے ان کی گرفتاری میں ناکامی کا اعتراف کرلیا۔ حالانکہ وہ لوگ بڑے آرام سے دفتر اور اپنے گھروں کو جارہے ہیں۔ لیکن پولیس کوئی کارروائی نہیں کررہی ہے ورنہ کسی عام آدمی کے خلاف چوری کی رپورٹ ہو تو اسے گھر کے اندر سے گھسیٹ کر لے جاتے ہیں۔ معروف ادبی شخصیت عرفان صدیقی کو نہایت بے ہودہ مقدمے میں گرفتار کرلیا گیا۔ یہاں قتل کا مقدمہ ہے لیکن کہیں سے تو اشارہ ہے جو کسی کے خلاف کارروائی نہیں ہورہی۔ لہٰذا نیپرا پر بھی ہر پہلو سے دبائو رکھنا ہوگا تاکہ متاثرین کو کچھ تو انصاف ملے۔