سلامتی کونسل سے تجھ کو امیدیں

426

کشمیر پر بھارتی قبضے کی صورتحال کاجائزہ لینے کے لیے سلامتی کونسل کا مشاورتی اجلاس بلا کسی نتیجے پر پہنچے ختم ہوگیا ۔ اصولی طور پر اس اجلاس میں ہونے والی بحث و تمحیص کے نتیجے کے بارے میں سیکوریٹی کونسل کے سربراہ کو ایک بیان جاری کرنا چاہیے تھا مگر ابھی تک ایسا کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے ۔کونسل کے مشاورتی اجلاس میں کیا کچھ ہوا ، اس کے بارے میں صرف اور صرف چین کے نمائندے نے لب کشائی کی ہے جبکہ بقیہ مستقل اور غیر مستقل ارکان نے اس بارے میں خاموش رہنا بہتر سمجھا ہے ۔ اقوام متحدہ کے ادارے کا قیام جب عمل میں لایا گیا تھا ، اس وقت ضرور پوری دنیا کواس سے اچھی امیدیں تھیں کہ اب جو بھی زیادتی کرے گا ، اس کو پوری دنیا مل کر غلط بھی کہے گی اور اسے بزور قوت روکے گی بھی ۔تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اب اس ادارے کے ساتھ امیدیں بدترین کے بھی نچلے درجے میں ہیں ۔ یہ ادارہ جنگیں روکنے میں تو اپنا کردارکیا ادا کرتا البتہ اس نے پوری دنیا کو جنگ میں دھکیلنے میں ضرور اپنا کردار ادا کیا ہے ۔ توقع کی جاتی تھی کہ اقوام متحدہ کی جنرل کونسل میں عمومی طور پر اور اس کی سیکوریٹی کونسل میں خصوصی طور پر جو قرارداد منظور ہوجائے ، اس کی خاص اہمیت ہے اور جو اس پر عملدرآمد نہیں کرے گا ، دنیا بھر کی اقوام اس پر عملدرآمد کے لیے اپنا اثر و رسوخ استعمال کریں گی اور جب تک ان قراردادوں پر عمل نہ ہوجائے ، مذکورہ ملک کی حیثیت عالمی برادری میں اچھوت جیسی ہوگی مگر اس ادارے کی سیکڑوں منظور کردہ قراردادوں کی بس اتنی ہی اہمیت ہے کہ وہ اب اقوام متحدہ کے ریکارڈ کا حصہ ہیں ۔ اس سب کے باوجود پاکستان کی حکومت نے اقوام متحدہ کے مشاورتی اجلاس سے بڑی امیدیں وابستہ کی ہوئی تھیں اور اسے پاکستان میں سرکاری سطح پر انتہائی اہمیت دی جارہی تھی ۔ سلامتی کونسل میں چینی مندوب نے جو کچھ مشاورتی اجلاس کی کارروائی کے بارے میں بتایا ہے ، وہ بھی کچھ حوصلہ افزا نہیں ہے ۔مثال کے طور پر انہوں نے بتایا ہے کہ اجلاس میں اس امر پر اتفاق پایا گیا کہ مقبوضہ وادی جموں و کشمیر بھارت کا اندرونی معاملہ نہیں ہے ۔ تاہم اجلا س میں بھارت پر زبانی بھی زور نہیں دیا گیا کہ وہ5 اگست سے قبل کی صورتحال کو بحال کرے ۔ مقبوضہ جموںو کشمیر میں استصواب کروانے کی بات کرنا اور اس کے لیے اقدامات کرنا تو بہت دور کی بات ہے ، کوئی یہ بھی کہنے کو تیار نہیں ہے کہ بھارت اپنے آئین کی شق 370 کو ریاست کے عوام کی مرضی کے بغیر ختم نہیں کرسکتا ۔ اس پر بھی پاکستانی وزارت خارجہ اور عمران نیازی خوشی کے شادیانے بجارہے ہیں اور اسے اپنی بڑی کامیابی قرار دے رہے ہیں ۔ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ دنیا میں صرف اور صرف طاقت کا سکہ چلتا ہے ۔اور تاریخ کا بھی یہی سبق ہے کہ ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات ۔ اس وقت بھارت نے پورے مقبوضہ جموں و کشمیر کو ایک بڑے جیل خانے میں تبدیل کردیا ہے ۔ مقبوضہ وادی کے باسیوں کو نہ تو عید کی نماز ادا کرنے کی اجازت دی گئی اور نہ ہی قربانی کی ۔ گزشتہ جمعہ کی نمازکے موقع پر بھی کشمیریوں کو گھر سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں تھی ۔ حقوق انسانی کی کون سی خلاف ورزی ہے جو مقبوضہ وادی میں نہیں کی جارہی ۔ ان کی خواتین کی آبروریزی کی جارہی ہے اور نوجوانوں کو عقوبت خانوں میں بدترین تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے ۔ ہر کچھ دن کے بعد ایک اجتماعی قبر کی نشاندہی ہوتی ہے جس سے ان سیکڑوں نوجوانوںکی لاشیں برآمد ہوتی ہیں جنہیں بھارتی فوج نے لاپتا کردیا تھا ۔ کشمیری یہ سارے مظالم صرف اس جرم کی پاداش میں برداشت کررہے ہیں کہ وہ بھارتی حکمرانی کو مسترد کرتے ہیں اور پاکستان کے ساتھ الحاق چاہتے ہیں ۔ اگر کشمیری بھارت میں رہنے کی حامی بھر لیں تو حیدرآباد اور دیگر ریاستوں کے مسلمانوں کی طرح انہیں بھی زندہ رہنے کا پروانہ مل جائے گا ۔ ہر طرح کے ظلم کے باوجود کشمیریوں میں حریت کی شمع نہ صرف روشن ہے بلکہ اس میں روز شدت ہی پیدا ہورہی ہے ۔ دوسری طرف پاکستان کا ردعمل ابھی تک انتہائی مایوس کن ہے ۔ ابھی تک پاکستان مسلمان ممالک ہی کی حمایت حاصل نہیں کرسکا ہے ۔ چین نے بھی شق 370 کے خاتمے کے بجائے محض لداخ کی بات کی ہے ۔ بھارت کا رویہ ہر سطح پر جارحانہ ہے ۔ وہ خارجہ پالیسی میں بھی جارحانہ رویہ اختیار کیے ہوئے ہے اور فوجی سطح پر بھی ۔ روز پاکستان کے اندر گولہ باری کر کے معصوم اور بے گناہ شہریوں کو شہید کردیتا ہے ۔اب تو ایٹمی حملے کی بھی دھمکیاں دی جارہی ہیں ۔ اس سب کے جواب میں پاکستان سے صرف ایک ہی نعرہ بلند ہوتا ہے اور وہ ہے جنگ اچھی چیز نہیں ہے ۔ یہ بالکل درست ہے کہ جنگ کبھی بھی اچھا آپشن نہیں رہا ہے مگر فلسطین اور کشمیر والوں کے پاس اس کے علاوہ اور کون سا آپشن باقی چھوڑا گیا ہے ۔ بہت سی جگہوں پر نہ چاہتے ہوئے بھی منہ توڑ جواب دینا ہی مسئلے کا واحد حل ہوتا ہے ۔ پلوامہ واقعے کے بعد بھارتی دراندازی کا اگر پاکستان بروقت جواب نہ دیتا تو کیا بھارتی مسلسل جارحیت سے رک سکتے تھے ۔ کچھ ایسی ہی صورتحال اب بھی ہے کہ بھارتی رکنے میں ہی نہیں آرہے ہیں ۔ بھارت نے سیاچین پر قبضہ کیا مگر دنیا نے کیا کرلیا سوائے طرفین کو تحمل کی تلقین کرنے کے ۔ اب بھی سب یہی بھاشن دے رہے ہیں کہ تحمل سے کام لیا جائے ۔ جب فاک لینڈ کے جزائر پر ارجنٹائن نے قبضہ کیا تھا تو اس وقت برطانیہ نے کیوں تحمل سے کام نہیں لیا اور بجائے ارجنٹائن پر حملہ کرنے کے مذاکرات کیوں نہ کیے ۔ جب روس متنازع جاپانی جزائر پر فوج اتارتا ہے تو وہاں پر کیوں تحمل کا مظاہری نہیں کیا جاتا اور مذکرات کا آپشن کیوں ختم ہوجاتا ہے ۔ عراق پر کیوں امریکا نے فوج کشی کی ، وہاں پر مذاکرات کیوں نہیں کیے گئے ۔بھارت نے کشمیر پر 72 برسوں سے قبضہ کیا ہوا ہے ، وہاں پر بہیمیت اور سفاکی کا بازار گرم کیا ہوا ہے ۔ اب اس قبضے کو اس نے مستقل حیثیت دے دی ہے اور کشمیر میں انسانی حقوق کی کون سی خلاف ورزی ہے جو آج کے جدید دور میں نہیں کی جارہی ۔ اس کے علاوہ پاکستان پر بلاجواز روز بمباری کی جاتی ہے اور پاکستانی شہریوں کو روز شہید کردیا جاتا ہے ۔ اس سب پر بھی پاکستان ہی کو تحمل اور برداشت کی تلقین کی جارہی ہے ۔ کوئی زبانی بھی یہ کہنے کو تیار نہیں ہے کہ بھارت نے زیادتی کی ہے اور کشمیر یوں کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کی آزادی دی جانی چاہیے ۔ دنیا جو کچھ بھی کہے اور کرے ، کم از کم پاکستانی حکومت کو تو اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے راست اقدام کرنا چاہیے۔ بھارتی حکومت نے 5 اگست کا فیصلہ اچانک نہیں کرلیا تھا ۔ اس کے لیے عرصے سے تیاریاں جاری تھیں جو سب کے علم میں تھیں مگر پاکستان کے ذمے دار کہیں پر سورہے تھے ۔ اب جب پانی سر سے گزر چکا ہے تو بھی مناسب ردعمل دینے کے بجائے آئیں ، بائیں اور شائیں کررہے ہیں ۔ اُس سلامتی کونسل سے کسی مثبت اقدام کی آس لگائی جارہی ہے جس کے کم از کم چار مستقل ارکان کھل کر بھارتی جارحیت کی حمایت کررہے ہیں ۔ پاکستان کم از کم دنیا کو اور خصوصی طور پر بھارت کو تو یہ بتائے کہ اگر جنگ سے سب کچھ جھلس جائے گا تو صرف پاکستان کا نقصان نہیں ہوگا ، پاکستان سے جتنا بڑا بھارت ہے ، نقصان بھی اتنا ہی زیادہ بھارت کا ہوگا ۔ اگر بھارت نے پاکستان پر جنگ مسلط کر ہی دی تو پاکستانی فوج بھی اس کا جواب دینا جانتی ہے ۔پاکستان کو بھارت پر ہر لحاظ سے برتری ہے ۔ سب سے پہلی برتری تو اخلاقی ہی ہے کہ بھارت کی حیثیت قابض کی ہے ۔ اس کے علاوہ پاکستانی فوج گزشتہ چالیس برسوں سے حالت جنگ میں ہے ۔ پاکستان کے تو بچے بھی اس ہنر میں ماہر ہیں کہ کس طرح سے کسی ٹینک کو اس کے عملے سمیت پکڑا جاسکتا ہے ۔ پاکستانیوں کا شوق شہادت اس کے بچوں سے لے کر بزرگوں تک میں برابر ہے ۔ نیوکرائسٹ چرچ نیوزی لینڈ میں جس طرح سے ایک 80 برس کے نہتے پاکستانی بزرگ نے حملہ آور کی مزاحمت کی تھی ، اسے تو سب جانتے ہیں ۔ پھر کیوں پاکستانی حکومت بھارت کے سامنے خم ٹھونک کر نہیں کہتی کہ ہم نہیں تو پھر کوئی اور بھی نہیں ۔ زندہ رہنا چاہتے ہو تو یہی حق سامنے والوں کو بھی دینا ہوگا ۔ بھارت جو کچھ بھی کرتا پھرے مگرعمران نیازی اور شاہ محمود قریشی کا منمناتا لہجے میں بھارتی گولہ باری کے جواب میں امن کے لیے گڑگڑانا پاکستانی قوم میں اشتعال پیدا کرنے کا سبب بن رہا ہے ۔ عمران نیازی سمجھ لیں کہ جس طرح سے آزادی طشتری میں رکھ کر پیش نہیں کی جاتی ، اسی طرح آزادی برقرار رکھنے کے لیے بھی جواں مردی کی ضرورت ہوتی ہے ۔