ایک یوں ٹرن یوں بھی سہی

346

عنایت علی خان

یوں تو عمران خان صاحب کی واشنگٹن یاترا سے قبل ہی صدر امریکا ٹرمپ کی یاد آوری پر ہی اس طرح شادیانے بجنے شروع ہوگئے تھے جن کی گونج میں مرزا غالب کے اس شعر کی بازگشت سنائی دے رہی تھی۔
اسد خوشی سے مرے ہاتھ پائوں پھول گئے
کہا جو اس نے ذرا پائوں داب تو دے
یہ اور بات ہے کہ مرزا صاحب نے اپنے ایک مداح کو پائوں دابنے کی اجازت اس شرط پر دی تھی کہ وہ اس خدمت کی اجرت عطا فرمائیں گے لیکن جب یہ خدمت تکمیل کو پہنچی اور مداح (مولانا حالی) نے ایفائے وعدہ کے لیے عرض کیا تو جواب تھا میاں تم نے ہمارے پائوں دابے ہم نے تمہارے پیسے دابے۔ تو امریکی حکومت بھی مشرف دور میں نیاز مندانہ اطاعت کے صلے میں نہیں بلکہ افغانستان کی امت مسلمہ کے افراد کا اپنی دانست میں تارا پورا کرنے کے حوالے سے جو ہزاروں پاکستانی افراد کا جانی اور بھاری ٹینکوں اور فوجی گاڑیوں کی آمدورفت کے نتیجے، جو سڑکیں ادھڑ گئی تھیں ان کے معاوضے کے طور پر جو اشتراکی رقم ملنی تھی اُس سے زبان حال سے یہ کہہ کر نچنت ہوگئی کہ ’’وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہوگیا‘‘۔
اب پاکستانی حکومت لاکھ یاد دلاتی رہے کہ
وعدہ کرتے ہو وفا ہوتا نہیں
تم سے اپنا بھی کہا ہوتا نہیں
اور وہ بھی امریکا ہی ہے جس نے بھارت سے ہونے والی جارحیت کے موقع پر ایک طرف اپنا دیا ہوا اسلحہ استعمال کرنے پر یہ کہہ کر قدغن لگادی تھی کہ یہ اسلحہ صرف ناٹو کے معاہدے کے تحت روس کے خلاف استعمال ہوسکتا ہے۔ نیز یہ کہ جس ساتویں بحری بیڑے کی امداد کے لیے آمد آمد کی نوید سنائی گئی تھی اس معاملے میں بھی جواب یہی تھا کہ: وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہوگیا۔
اس کے علاوہ چین کے خلاف حفاظتی انحصار میں امریکا کے نزدیک اہمیت بھارت کی تھی اس
لیے اس کو سامان حرب سے لیس کرکے پاکستان کو معاشی اور عسکری طور پر اس کا تابع مہمل بنانے کا پورا پورا انتظام کیا پھر افغانستان میں بھارت کو داخل کرکے پاکستان میں تخریب کاری کا پورا پورا موقع فراہم کرکے پاکستان کی کلائی مروڑنے کی پوری پوری کوشش کی گئی۔ اس سے قبل پچاس سے متجاوز ملکوں کی مسلح فوج کے ذریعے افغانستان کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی کوشش کر دیکھی تھی، پھر جب اُن ملکوں کو احساس ہوا کہ مفادات تو امریکا بہادر کے پورے ہورہے ہیں اور انہیں تو قربانی کا بکرا بنایا جارہا ہے تو وہ ایک ایک کرکے یہ کہتے ہوئے شکست خوردہ اس مہم سے دست بردار ہوگئے کہ ’’یہی ٹھیری جو شرطِ وصل لیلیٰ۔ تو استعفا مرا باحسرت و یاس‘‘۔
لیکن امریکا چوں کہ سپر پاور ہونے کے نشے میں مبتلا تھا اس نے اپنی ریشہ دوانیوں کے ذریعے ملت افغاں کی روح حریت کو شکست دینی چاہی لیکن شکست نہ دے سکا اور ’’اے بسا آرزو کہ خاک شدہ‘‘ کہہ کر اپنی کٹھ پتلیوں کے منفی عمل سے مایوس ہوگیا۔ تو جن طالبان کو نیست و نابود کرکے ہفتوں کا الٹی میٹم دیا تھا اب اُن کے سامنے کان دبا کر رہی سہی عزت کے ساتھ واپسی میں اپنی خیر سمجھی اور چوں کہ یہ پسپائی بھی پاکستان کی مدد کے بغیر ناممکن تھی اس لیے اپنی مطلب برآری کے لیے مشہور کہاوت کے مصداق جس کو جو بنانا پڑے بنایا جاتا ہے، پاکستان پر التفات خسروانہ کا در وا کیا اور وزیراعظم پاکستان کو شرف ملاقات اور زبانی کلامی التفات سے نوازا۔ ساتھ ہی رسّی جل گئی لیکن بل نہیں گیا یا دوسری کہاوت کے مطابق کتے کی دم دس سال بعد بھی نلکی سے نکلی تو ٹیڑھی کی ٹیڑھی ہی تھی۔ مرتے ہوئے بھی ملہار الاپاکہ میں چاہوں تو افغانستان کو ایک ماہ میں نیست و نابود کردوں لیکن کروڑوں افراد کی موت اس اقدام میں مانع ہے۔ کوئی اسے یاد دلاتا کہ جس زمانے میں انگلستان کا سورج غروب نہیں ہوتا تھا اس زمانے میں انگلش امپائر کی بہادر افواج کی افغانوں نے چٹنی بنا کر ایک ڈاکٹر کو گدھے پر بٹھا کر فوج کے حشر کی اطلاع دینے ہندوستان واپس کیا تھا۔ رہی ایک کروڑ افراد سے ہمدردی تو اس انسانی ہمدردی کی روداد پڑھنے کے لیے ایک ’’روٹس‘‘ نامی کتاب کا مطالعہ کافی ہے کہ برطانیہ کے جرائم پیشہ افراد (Outclass) جب جلا وطن کرکے امریکا میں اتارے گئے تو انہوں نے وہاں کے اصلی رہائشی ریڈ انڈینز کی کس طرح نسل کشی کی اور کس طرح افریقا سے جہاز بھر بھر کر لوگوں کو لا کر جانوروں سے بدتر حالت میں رکھا اور اگر ان کے صدر ابراہم لنکن نے ان کی حمایت کی تو اس جرم میں اسے موت کے گھاٹ اتار دیا۔ اب اپنی پھنسی ہوئی گوٹ نکالنے کے لیے عمران خان کے بھی واری جارہے ہیں اور ایک کروڑ انسانوں کو موت کے گھاٹ اُتارنے کے زعم باطل کا بھی اظہار ہورہا ہے۔
جن عمران کی مشرف بہ التفات ٹرمپ واپسی پر ورلڈ کپ کی یاد تازہ کرکے بھنگڑا ڈالا جارہا ہے یہ وہی عمران خان ہیں جنہوں نے ببانگ دہل اعلان کیا تھا کہ وہ مسلمانوں کے قاتل امریکا کو پاکستان کے راستے اسلحہ لے جانے میں مزاحم ہوں گے۔ وہی اپنا روایتی یوٹرن لے کر امریکا کے مفاد کے لیے آلہ کار بن کر پھولے نہیں سما رہے۔ نیز یہ کہ امریکی چینل کے اینکر پرسن سے طالبان سے مفاہمت کا یہ نکتہ بیاں کرتے ہوئے بھی اشارہ فرمایا کہ اگر طالبان سے امریکی مصالحت کی بیل منڈھے نہیں چڑھتی ہے تو دولت اسلامی ملحقہ ممالک کے لیے بھی خطرہ بن جائے گی۔ لیجیے پاکستان میں ریاست مدینہ کا نظام لانے والے نہ صرف افغانستان بلکہ آس پڑوس کے ملکوں کی بھی عافیت اس میں بتلارہے ہیں کہ دولتِ اسلامی (داعش) کی تگ و دو کو ہر قیمت پر فتح کیا جائے۔ اگر انہوں نے دور رسالت مآب کا مطالعہ کیا ہوتا تو ان پر یہ حقیقت منکشف ہوتی کہ مدینے میں اسلامی حکومت قائم ہوتے ہی نبی اکرمؐ نے اپنے زمانے کی سپر پاورز کو ان الفاظ کی تحریر ارسال کی تھی کہ یا تو اسلام لا کر اپنی اور اپنی رعایا کی فلاح کا سامان کریں ورنہ خدا کی زمین پر خدا کا حکم نافذ کرنے میں مزاحمت کرکے کیفر کردار تک پہنچیں۔
ایک طرف قرآن یہ ہے جو اپنے نبی کی بعثت کا مقصد ہی یہ بتلاتا ہے کہ جس خدا نے پیدا کیا ہے جو رازق بھی ہے خالق بھی اور مدبر بھی زمین پر اس کا بھیجا ہوا نظام غالب آئے۔ اور ہر خدا پرست کی بھی یہی آرزو ہونی چاہیے کہ حتیٰ المقدور اس نظام کے قیام میں دامے، درمے، قدمے، سخنے حصہ لے لیکن ملک کو ریاست مدینہ کی نہج پر چلانے کا دعویدار اسلام دشمنوں کو یہ کہہ کر ڈرا رہا ہے کہ
یہ ٹوٹا ہوا تارا مہ کامل نہ بن جائے
گویا اس کا مشن کفر کی بقا کی فکر اور اسلام کے غلبے کا راستہ روکنا ہے۔ ہماری دلی خواہش اور عمران خان کی دنیاوی و اخروی فلاح بھی اس میں ہے کہ جہاں وہ اور معاملات میں یوٹرن لیتے رہے ہیں ایک یوٹرن ایسا بھی لے لیں جس کے نتیجے میں ان کا رُخ واشنگٹن سے منحرف ہو کر مدینے کی طرف ہوجائے۔ جیسا کہ ان کا دعویٰ ہے۔
ایں دعا از من و از جملہ جہاں آمین باد
یہ میری دعا ہے اور پورا عالم اس دعا پر آمین کہہ دے