کیا پاکستان اقلیتوں کے لیے غیر محفوظ ہے؟

655

صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے اقلیتوں کے عالمی دن کے موقع پر ایوان صدر اسلام آباد میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ عمران خان ایک ضدی وزیراعظم ہیں، وہ ملک کو اقلیتوں کے لیے محفوظ بنا کر رہیں گے۔ جب کہ اسی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے فرمایا کہ اسلام میں جبر نہیں ہے جو لوگ زبردستی غیر مسلموں کو مسلمان کرتے ہیں وہ نہ اسلام کو جانتے ہیں نہ اسلام کی تاریخ کو۔ وزیراعظم نے اس بات پر تعجب کا اظہار کیا کہ ہم کیسے لوگوں کو مسلمان کرنے کا معاملہ اپنے ہاتھ میں لے لیتے ہیں۔ انہوں نے اقلیتوں کو مکمل تحفظ کی یقین دہانی کراتے ہوئے کہا کہ ہم اس سلسلے میں اپنی قوم کے ذہن کو بدلیں گے۔ زعمائے اقتدار کے اِن بیانات نے قومی سطح پر کئی سوالات کھڑے کردیے ہیں۔ پہلا سوال تو یہی ہے کہ کیا پاکستان اقلیتوں کے لیے غیر محفوظ ہے جو وزیراعظم عمران خان اسے اقلیتوں کے لیے محفوظ بنانے کا عزم رکھتے ہیں۔ بقول صدر مملکت چوں کہ وہ ایک ضدی شخصیت کے مالک ہیں اس لیے وہ یہ کام کرکے رہیں گے۔ اب اِن دونوں حضرات سے یہ پوچھا جاسکتا ہے کہ پاکستان کس اعتبار سے اقلیتوں کے لیے غیر محفوظ ہے۔ کیا پاکستان میں ان کی جان و مال اور عزت و آبرو کو خطرات لاحق ہیں؟ کیا منتخب اداروں میں انہیں آبادی کے اعتبار سے نمائندگی حاصل نہیں؟ کیا سرکاری ملازمتوں میں انہیں کوٹے کے مطابق ان کا حق نہیں دیا جارہا؟ کیا ان کی آبادیوں پر آئے دن حملے ہوتے رہتے ہیں اور اکثریت نے ان کا جینا حرام کر رکھا ہے؟۔، ہمارا دعویٰ ہے کہ ان میں سے کسی سوال کا جواب بھی اثبات میں نہیں دیا جاسکتا۔ پاکستان میں ہندو، عیسائی اور سکھ تین بڑی اقلیتیں ہیں جو نہایت آرام و سکون سے زندگی گزار رہی ہیں اور مسلمانوں کا ان کے ساتھ رویہ نہایت مثالی اور قابل تعریف ہے۔ اسمبلیوں میں بھی انہیں نمائندگی حاصل ہے اور سرکاری ملازمتوں میں بھی انہیں ان کے حق سے زیادہ مل رہا ہے۔ قادیانی بھی غیر مسلم اقلیت ہیں لیکن وہ بدبخت خود کو اقلیت تسلیم ہی نہیں کرتے اور مسلم امہ خاص طور پر ملت ِ اسلامیہ پاکستان کا حصہ بننے پر مُصر ہیں۔ اس سے بھی بڑھ کر ستم ظریفی یہ ہے کہ وہ اپنے سوا دوسروں کو مسلمان بھی نہیں سمجھتے۔ پاکستان کی پارلیمنٹ نے بلاتفاق انہیں غیر مسلم قرارا دیا ہے۔ پاکستان کا آئین انہیں غیر مسلم کہتا ہے لیکن اس کے باوجود وہ پاکستان میں مسلمانوں کے لبادے میں اپنے اقلیتی حق سے کہیں زیادہ وصول کررہے ہیں۔ وہ فوج اور سول ملازمتوں میں بھرے ہوئے ہیں اور ان کی شناخت کا کوئی قابل اعتبار ذریعہ ہمارے نظام میں موجود نہیں ہے۔ پاکستان کے خلاف ان کی ریشہ دوانیاں بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ پچھلے دنوں وزیراعظم عمران خان امریکا کے دورے پر گئے تو قادیانیوں کا ایک وفد ان سے پہلے ہی واشنگٹن پہنچا ہوا تھا جہاں اس نے صدر ٹرمپ سے ملاقات کرکے پاکستان کے خلاف شکایات کا ڈھیر لگادیا۔ قادیانی پاکستان کا آئین تبدیل کروانا چاہتے ہیں اور اس کے لیے وہ عالمی سطح پر سازشیں کررہے ہیں لیکن اِن تمام پاکستان دشمن سرگرمیوں کے باوجود وہ پاکستان میں محفوظ ہیں اور بلاخوف و خطر زندگی گزار رہے ہیں۔ اس لیے یہ کہنا کہ پاکستان میں اقلیتیں غیر محفوظ ہیں اور پاکستان کو اقلیتوں کے لیے محفوظ بنایا جائے گا انتہائی مغالطہ انگیز اور گمراہ کن بیان ہے جس پر صدر عارف علوی کو پوری قوم سے معافی مانگنا چاہیے۔
دراصل اقلیتوں کے غیر محفوظ ہونے کا تصور اس پروپیگنڈے کی بنیاد پر گھڑا گیا ہے کہ انہیں زبردستی مسلمان بنایا جارہا ہے۔ یہی بات وزیراعظم عمران خان نے اپنے خطاب میں کہی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انہیں اس معاملے میں مِس گائیڈ کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ کچھ لوگ پاکستان میں غیر مسلموں کو زبردستی مسلمان بنانے کی مہم چلارہے ہیں۔ حالاں کہ ایسا ہرگز نہیں ہے، یہ کام تو بھارت میں ڈنکے کی چوٹ پر ہورہا ہے جہاں مسلمانوں کو جبراً ہندو بنایا جارہا ہے اور برملا کہا جارہا ہے کہ اگر مسلمان بھارت میں رہنا چاہتے ہیں تو انہیں ہندو بن کر رہنا ہوگا، ورنہ پاکستان چلے جائیں۔ کیا پاکستان میں بھی ایسی کوئی مہم چل رہی ہے جو وزیراعظم کو یہ بات کہنے کی ضرورت پیش آئی ہے؟۔ پاکستان کیا پورے برصغیر کی تاریخ گواہ ہے کہ اس خطے میں غیر مسلموں کو مسلمان بنانے کی کبھی کوئی تحریک نہیں چلائی گئی۔ مسلمانوں نے کم و بیش ایک ہزار سال تک اس خطے پر حکمرانی کی، یہاں جو بھی اسلام پھیلا بزرگان دین اور صوفیائے عظام کی تبلیغ اور ان کے حُسنِ اخلاق سے پھیلا۔ اس میں مسلمان حکمرانوں کی کوششوں کا کوئی عمل دخل نہ تھا۔ حالاں کہ یہ ان کا مذہبی فریضہ تھا کہ وہ اشاعت اسلام میں دلچسپی لیتے اور غیر مسلموں کو مسلمان ہونے کی ترغیب دیتے اگر وہ ایسا کرتے تو آج پورا برصغیر مسلمان ہوتا اور اس کے بٹوارے کی نوبت نہ آتی۔ پاکستان کے مسلمان تو یوں بھی بہت آزاد خیال واقع ہوئے ہیں وہ خود بھی اسلام پر عمل کرنے میں زیادہ دلچسپی نہیں رکھتے دوسروں کو کیا مسلمان کریں گے۔ رہی تبلیغی جماعت تو وہ بے عمل مسلمانوں کی اصلاح پر توجہ دے رہی ہے، غیر مسلموں میں اسلام کی تبلیغ فی الحال اس کے مشن میں شامل نہیں ہے۔ سندھ میں جو اِکا دُکا ہندو لڑکیاں یا ہندو لڑکے مسلمان ہوتے ہیں یا کبھی کبھار کوئی پورا ہندو خاندان مسلمان ہوجاتا ہے تو ایسا کسی زور زبردستی سے نہیں ہوتا بلکہ یہ لوگ اپنے ہمسایہ مسلمانوں کے ساتھ میل ملاپ اور طرزِ معاشرت سے متاثر ہو کر اسلام قبول کرتے ہیں اور اس پر سیکولر میڈیا میں شور مچ جاتا ہے، تاثر یہ دیا جاتا ہے کہ انہیں جبراً مسلمان بنایا جارہا، حالاں کہ عدالتیں ان معاملات میں چھان بین کے بعد یہ فیصلہ دے چکی ہیں کہ ہندوئوں کے قبول اسلام میں کسی زور زبردستی کا دخل نہیں ہے۔
اندریں حالات ہم صدر اور وزیراعظم کے بیانات پر اس کے سوا اور کیا تبصرہ کرسکتے ہیں۔
ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو