مدارس اور علماء: کیا 1857 دہرانے کی تیاری ہے؟

510

سید جاوید انور

آزادی اور تقسیم ہند کے بعد دونوں طرف اصل مقتدر قوتوں کا ایک ہی ہدف رہا ہے؛ سدِ اسلام۔ آزاد پاکستان میں بھی انگریزوں کی تعلیمی پالیسی ویسی ہی چلتی رہی اور مدرسہ کا نظام اسی طرح مسجد سے مربوط ہو کر عوامی چندوں سے چلتا رہا۔ پہلا نظام تو مزید خراب سے خراب تر ہوا۔ اب بھی عوام کو جاہل رکھنا اور تعلیم کو مخصوص امیر طبقہ تک محدود رکھنا ہی ہماری قومی تعلیمی پالیسی ہے۔ اب تک ملک کی وزارت تعلیم پڑھے لکھے لیکن سب سے جاہل کے ہاتھ میں رہی ہے۔ علماء نے بھی اپنے تعلیمی نظام میں کوئی خاطر خواہ تبدیلی نہیں کی۔ تاہم معیار میں وہ سرکاری اسکولوں سے کہیں بہتر ہیں۔ ان میںکم ہی صحیح لیکن بعض خوشگوار تبدیلیاں آئی ہیں۔ جب سویت یونین نے 1979 میں افغانستان پر قبضہ کر لیا تو جہاد کے لیے شروع میں کابل یونیورسٹی کے چند طلبہ آگے آئے لیکن بعدازاں ان میں علماء بھی شامل ہوتے گئے۔ افغانستان سے سویت یونین کے انخلا کے بعد جب مجاہدین کے مابین تنازع کھڑا ہوا تو پاکستان کے مدارس میں زیر تعلیم اور بعض فارغ التحصیل افغان طلبہ نے نمایاں کردار ادا کیا جنہیں ہم طالبان کے نام سے جانتے ہیں۔ دینی علوم کے طلبہ یعنی طالبان نے 1996 میں اسلامی حکومت ’’افغانستان اسلامی امارات‘‘ قائم کی۔ جس پر 2001میں نائن الیون کے بعد اکتوبر میں امریکا نے بھاری فضائی بمباری کی اور طالبان کو کابل چھوڑ کر پہاڑوں پر چڑھنے پر مجبور کر دیا۔ چالیس سے زیادہ ممالک امریکا کی فوجی سرپرستی میں کابل میں ایک امریکی تابع حکومت کے ساتھ بیٹھ گئے۔ طالبان نے اٹھارہ سال تک ان سے جنگ کی اور بالآخراس متحدہ فوج کو شکست دے دی۔ اب صرف امریکا کے چند ہزار فوجی باقی رہ گئے ہیں۔ ان میں سے روز اوسطاً اکیس خود کشی کر رہے ہیں۔ افغانستان امریکا کا رستہ ہوا ناسور ہے۔ قطر کے شہر دوحہ میں طالبان کے امن مذاکرات براہ راست امریکا سے ہو رہے ہیں۔ امن روڈ میپ پر دستخط ہو چکے ہیں۔ طالبان کی پہلی شرط افغانستان سے امریکا کا مکمل انخلا ہے۔ امکان ہے کہ ستمبر سے قبل امریکا کے تمام فوجی نکل جائیں گے۔ بعد از امریکی قبضہ افغانستان میں جو امریکی سیٹ اپ ہے جس میں امریکا اپنی تابع حکومت اور نئے مغربی نصاب کے ساتھ قائم کردہ نئے اسکولوں کا تحفظ چاہتا ہے۔ اس کے لیے اسے پاکستان کی مدد چاہیے۔ پاکستان اور امریکا کے حالیہ مذاکرات اسی سلسلے کی کڑی تھی۔ علماء اور منتظمین مدارس کو چاہیے کہ سب سے پہلے وہ اپنے وزیر اعظم اور سپہ سالار سے آئی ایم ایف اور امریکا کی امدادی شرائط پوچھیں۔ مولانا طارق جمیل کے تو عمران خان سے خصوصی مراسم ہیں وہی پوچھ لیں۔ امریکا کی ایک ہی خواہش ہے کہ مدارس بند ہوں یا ان کا حلیہ بگاڑ دیا جائے کیوںکہ یہ مدارس حریت پسند مجاہد پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ میرے خیال میں امریکا کے احکامات میں یہی سر فہرست ہے۔
امریکا میں مذاکرات کے بعد جو وزارت اور جو شعبہ سب سے زیادہ متحرک ہوا ہے وہ تعلیم کی وزارت اور تعلیم کے شعبے ہیں۔ وزارت تعلیم ’’ایک قوم، ایک تعلیم‘‘ اور دینی مدارس کے رجسٹریشن کی بات پورے زور و شور سے کر رہی ہے۔ یہ وہی قرارداد ہے جو ہندوستانی قوم کے لیے انگریزگورنر جنرل لارڈ ولیم بنیٹنک نے 1835 میں پیش کی تھی۔ پاکستان میں علماء اور مدارس براہ راست نشانے پر آچکے ہیں۔ مولانا فضل الرحمان کی کوئٹہ ملین مارچ کی تقریر میں ان خدشات کا اظہار ہے۔ لیکن ان کی سب سے بڑی غلط فہمی یہ ہے کہ وہ سیکولر اور لبرل جماعتوں سے مل کر یہ جنگ جیت سکتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ تینوں بڑی سیاسی جماعتیں اور تمام ادارے علماء اور مدارس کے خلاف ایک ورق پر آجائیں گے اور سب آپس میں ایک دوسرے کے گناہ دھو دیں گے۔ ابھی ان کے درمیان جو جنگ ہے وہ ایک نورا کشتی ہے، وہ لوگ آپس میں مک مکا کر لیں گے۔ بعد میں علماء تنہا کھڑے ہوں گے۔ مولانا فضل الرحمان کسی سیاسی جماعت کو برسر اقتدار لا کر اور ان میں شامل ہو کر خود کو اور اس کاز کو تباہ کریں گے۔ دین اسلام کی یہ جنگ اب جمہوریت کے میدان میں اور بیلٹ بکسوں سے نہیں جیتی جا سکے گی۔ اس کے لیے علماء کا کامل اتحاد چاہیے۔ علماء کے اتحاد ہی سے عوام کا اتحاد بن سکتا ہے۔ علماء کھڑے ہو گئے تو عوام کھڑے ہو جائیں گے۔ اور جب عوام کھڑے ہوں گے تو پرامن انقلاب کی راہ نکل سکتی ہے۔ جدید زمانہ میں ایران کا انقلاب وہاں کے علماء کی اچھی، موثر، اور بہترین حکمت عملی کا نتیجہ ہے۔ پاکستانی علماء کے لیے ایران کے انقلاب کی حکمت عملی (strategy) میں کامیابی کا سبق موجود ہے۔