پاکستانی حاجیوں کی کسمپرسی

545

حج کااختتام ہوگیا ہے اور حجاج کی واپسی شروع ہوگئی ہے ۔ مقامات مقدسہ سے آنے والی اطلاعات اور وڈیوز کے مطابق نئے پاکستان میں حجاج کے لیے کیے گئے انتظامات کہیں سے بھی اس قابل نہیں تھے کہ حجاج اطمینان قلب کے ساتھ مناسک حج ادا کرسکتے ۔مکہ مکرمہ اور مدینہ میں ہونے والی بدانتظامی تو پھر بھی نظر انداز کی جاسکتی ہے کہ وہاں پر حجاج اپنے طور پر معاملات کو کسی نہ کسی طرح حل کرکے قابل قبول کی سطح تک لے آتے ہیں ۔ اگر انہیں کھانا نہ ملے تو وہ باہر سے خرید لیتے ہیں یا اگر رہائش زیادہ دور ہو تو ٹرانسپورٹ وغیر ہ کا خود انتظام کرلیتے ہیں ۔ اس صورتحال میں زیادہ سے زیادہ یہ ہوتا ہے کہ انہیں مالی طور پر زیر بار ہونا پڑتا ہے مگر منیٰ اور عرفات میں ہونے والی بدانتظامی کا کوئی مداوا نہیں ہے ۔ پہلے دن سے منیٰ سے پاکستان میں وڈیو موصول ہورہی تھیں کہ پاکستانی حجاج کے لیے مختص خیموں میں پانی جیسی بنیادی ضرورت کی چیز ہی عنقا ہے ۔ غسل خانوںکی حالت انتہائی ابتر تھی جبکہ شدید گرمی میں پاکستانیوں کے لیے مختص خیموں کے ائرکنڈیشن یونٹ کام ہی نہیں کررہے تھے ۔ حجاج نے وڈیو میں دکھایا کہ ائرکینڈیشن یونٹوں کے کنکشن ہی نہیںلگے ہوئے تھے ۔ اسی طرح ان خیموں میں سیوریج کا نظام بھی خراب تھا۔ وڈیو کلپ میں دیکھا جاسکتا ہے کہ سیوریج کا گندا پانی خیموں کی اندرونی گزرگاہوں میں بہ رہا ہے ۔کئی مقامات پر خواتین وحضرات کے خیمے بھی مشترک تھے ۔ اب کی مرتبہ خیموں میں سہ منزلہ بیڈ لگے ہوئے تھے جں میں حجاج نے نیچے کے بسترخواتین اور بچوں کو دے دیے تھے ۔ تاہم اس میں خواتین شدید اضطراب کی کیفیت میں رہیں کہ انہیں بار بار بے پردگی کی مشکل کا سامنا تھا ۔ بارش کے بعد صورتحال تو اور بھی ابتر ہوگئی ۔اس مرتبہ پاکستانی حج مشن نے کھانے کا انتظام بھی ایک بھارتی فرم کے حوالے کردیا تھا اور پاکستانی حجاج اس فرم سے بھی نالاں رہے۔ ایسے میںیہ ممکن ہی نہیں تھا کہ حجاج صمیم قلب کے ساتھ عبادت کرسکیں یا مناسک کی ادائیگی پوری توجہ کے ساتھ کرسکیں ۔ جب تک حجاج کا انتظام محترم عاکف سعید کے سپر درہا ، پاکستانی حجاج ہمیشہ خوش رہے اور منتظمین کے لیے دعائیں بھی کرتے رہے ۔ حجاج کو زیادہ تر شکایتیں جدہ ائرپورٹ پر پی آئی اے یا دیگر فضائی کمپنیوں سے ہوتی تھیں کہ پروازیں بروقت آپریٹ نہیں ہوپاتی تھیں ۔ بعض اوقات تو یہ پروازیں بارہ بارہ گھنٹے بھی تاخیر کا شکا ر ہوئی ہیں ۔ بعض مرتبہ سرکاری حج کرنے والے تو انتہائی مطمئن ہوتے تھے جبکہ پرائیویٹ کوٹے پرجانے والوں کے پاس شکایتوں کی طویل فہرست ہوتی تھی ۔مگر اب کی مرتبہ تو حد ہی ہوگئی ۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ پاکستان سے تعلق رکھنے والے حجاج کا کوئی والی وارث ہی نہیں ہے ۔ یہ بھی اپنی جگہ حقیقت ہے کہ پاکستانی حجاج اس مرتبہ گزشتہ کے مقابلے میں تقریبا دگنی مالیت کی ادائیگی کے بعد حج کی سعادت حاصل کرپائے ۔ اس کے باوجود جس طرح سے حجاج کو منیٰ اور عرفات میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ، اس کے بعد اصولی طور پر وزیر حج سمیت پورے پاکستانی حج مشن کو فارغ کرکے ان کے خلاف تادیبی کارروائی کی جانی چاہیے ۔ اتنا سب ہوجانے کے بعد وزیر حج نورالحق قادری صاحب نے محض یہ بیان دینے پر اکتفا کیا ہے کہ جن پانچ مکاتب کو پاکستانی حجاج کی خدمت سونپی گئی تھی ، ان کے خلاف تحقیقات کی جائیں گی ۔ حج کا انتظام کوئی ایک مرتبہ کا کام نہیں ہے کہ غلطی سے ایسا ہوگیا ہے ۔ جب پاکستانی حج مشن کو اچھی طرح سے معلوم ہے کہ کون سے مکاتب ہیں جو بہتر انتظام کرتے ہیں تو پھر ان ہی کے ساتھ کیوں معاملات نہیں کیے گئے ۔ یہ خبریں عام ہیں کہ اس مرتبہ حجاج کی خدمت کے بجائے زیادہ سے زیادہ کمیشن پاکستانی حج کمیشن کی پہلی ترجیح تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستانی حجاج کو منیٰ اور عرفات میں شدید پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا ۔یہ تو وہ اطلاعات ہیں جو سوشل میڈیا کے ذریعے وطن میں ان کے رشتہ داروں تک پہنچیں ۔ آج سنیچر کے دن سے قومی فضائی کمپنی پی آئی اے حجاج کرام کی وطن واپسی کا مشن شروع کررہی ہے ۔ جب یہ حجاج کرام وطن واپس پہنچیں گے تو مزید تفصیلات سامنے آئیں گی کہ سرکار نے ان سے مکہ مکرمہ میں کتنی دور رہائش کا معاہدہ کیا تھا اور عملی طور پرانہیں رہائش کہاں پر فراہم کی گئی یا ہوٹل میں ان سے کیا سلوک کیا گیا ۔ حجاج کے ساتھ بدسلوکی کوئی ایسا معاملہ نہیں ہے کہ اسے یوں نظر انداز کردیا جائے ۔ حج اتنا اہم معاملہ ہے کہ اس کے لیے ایک وزیر الگ سے مقرر کیا جاتا ہے اور عوام کے ٹیکسوں سے اس وزارت کاکروڑوں روپے سالانہ کا بجٹ مختص کیا جاتا ہے ۔ اگر ا س وزارت کے تحت کام کرنے والے سیکریٹری اور دیگر افسران اور خود وزیر محترم اپنے ذمے لگایا گیا صرف یہ ایک کام بھی بہتر طور پر سرانجام نہیں دے سکتے کہ پاکستانی حجاج کے لیے مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں حرمین سے قریب بہترین رہائش گاہوں کا انتظام کرسکیں اور منیٰ اور عرفات میں مناسک حج کی ادائیگی کے لیے بہتر مکاتب سے معاملات کرسکیں تو بہتر ہوگا کہ اس وزارت کو ختم کردیا جائے یا کم از کم اس پوری وزارت میں کام کرنے والے ذمے داران اور ان کے سرپرست وزیر حج کے خلاف ایسی مثالی کارروائی کی جائے کہ آئندہ کسی کو یوں پاکستانی حجاج کو پریشان کرنے کی ہمت ہی نہ ہوسکے ۔ اگر ایک دفعہ بھی اس خوفناک بدترین بد انتظامی کے ذمے داران کے خلاف کارروائی عمل میں لے آئی گئی تو پھر آئندہ سب کے لیے سبق ہو جائے گا۔