سید عثمان ؓ

270

مولانا ابوالکلام آزادؒ

نبی اکرم محمد رسول اللہؐ سیدنا عثمانؓ کے تعلق پیش گوئی فرما چکے تھے۔ عام مسلمان سیدنا عثمانؓ کی خاموشی اور باغیوں کی تباہ کاریوں پر خون کے آنسو بہارہے تھے مگر عثمان بالکل چپ تھے اور رسول اللہؐ وصیت کی تکمیل کا انتظار فرما رہے تھے۔ ابھی جمعہ کا آفتاب طلوع نہ ہوا تھا کہ آپ نے روزے کی نیت فرمائی۔ اسی صبح خواب میں دیکھا کہ سیدنا محمدؐ تشریف لائے ہیں اور سیدنا صدیق اکبر اور عمر فاروقؓ آپ کے ہمرکاب ہیں۔ حضورؐ نے عثمانؓ سے فرمایا: عثمانؓ جلدی آؤ۔ ہم یہاں افطاری کے لیے تمہارے منتظر بیٹھے ہیں۔ آنکھ کھلی تو اہلیہ محترمہ سے فرمایا: میری شہادت کا وقت قریب آگیا ہے باغی ابھی مجھے قتل کر ڈالیں گے۔ انہوں نے دردمندانہ کہا: امیرالمومنین! ایسانہیں ہوسکتا۔ ارشاد فرمایا: میں یہ خواب دیکھ چکا ہوں۔ جب بستر سے اٹھے تو آپ نے وہ پاجامہ طلب فرمایا جس کو آپ نے کبھی نہیں پہنا تھا اور اسے زیب تن فرمایا۔ پھر بیس غلاموں کو آزاد کرکے کلام پاک کو کھولا اور یاد حق میں مصروف ہوگئے۔
یہ عثمانؓ کے حرم سرا کے اندرونی حالات تھے۔ ٹھیک اسی وقت محل سرا کے باہر محمد بن بوبکر نے تیر چلانے شروع کر دیے۔ ایک تیر سیدنا حسنؓ کو جو دروازے پر کھڑے تھے، لگا اور وہ زخمی ہوگئے۔ دوسرا تیر محل کے اندر مروان تک پہنچا۔ ایک تیر سے سیدنا علیؓ کے غلام قنبر کا سر زخمی ہوگیا۔ محمد بن بوبکر کو خوف پیدا ہوا کہ امام حسنؓ کا خون رنگ لائے بغیر نہیں رہے گا۔ یہ سوچ کر انہوں نے اپنے دوساتھیوں سے کہا اگر بنی ہاشم پہنچ گئے تو وہ حسنؓ کو زخمی دیکھ کر عثمانؓ کو بھول جائیں گے اور ہماری تمام کوشش ناکام ہوجائیں گی۔ اس لیے چند آدمی اسی وقت محل سرا میں کودیں۔ محمد بن بو بکر کے ساتھیوں نے اس تجویز کے ساتھ اتفاق کیا اور اسی وقت چند باغی دیوار پھاند کر محل سرا میں داخل ہوگئے۔ اس وقت جتنے بھی مسلمان محل سرا میں موجود تھے۔ اتفاق سے وہ سب اوپر کی منزل میں بیٹھے تھے اور سیدنا عثمانؓ نیچے کے مکان میں تن تنہا مصروف تلاوت تھے۔ محمد بن بو بکر نے قابل صد افسوس حرکت کا ثبوت دیا۔ آگے بڑے اور ہاتھ بڑھا کر عثمانؓ کی ریش مبارک پکڑ لی اور اسے زور زورسے کھینچنے لگے۔ عثمانؓ نے ارشاد فرمایا: بھتیجے! اگر آج صدیقؓ زندہ ہوتے تو اس منظر کو پسند نہ فرماتے۔ اب محمد بن بو بکر پشیمان ہوا اور پیچھے ہٹ گیا مگر کنانہ بن بشر نے پیشانی مبارک پر لوہے کی سلاخ سے ایک دردناک ضرب لگائی اور رسول اللہؐ کا یہ بزرگ ترین نائب فرش زمین پر گر پڑا اور فرمایا۔ بسم اللہ توکلت علی اللہ۔ دوسری ضرب سودان بن حمران نے ماری جس سے خون کا فوارہ چل نکلا۔ عمرو بن حمق کو یہ سفاہیت ناکافی معلوم ہوئی۔ یہ ذلیل ترین بدوی نے سیدنا عثمانؓ کے سینے پر کھڑا ہوگیا اور جسم مبارک و اطہر کو نیزے سے چھید نے لگا۔ اسی وقت ایک اور بے رحم نے تلوار چلائی اور سیدہ نائلہؓ نے ہاتھ سے روکا تو ان کی تین انگلیاں کٹ کر گر گئیں۔ اسی کشمکش کے دوران امیرالمومنینؓ بے دم ہو رہے تھے کہ مرغ روح قفس عنصری سے پرواز کر گیا۔
انا للہ وہ انا الیہ راجعون۔
جلادی اور بہیمت کا یہ دردناک واقعہ صرف نائلہؓ کی غم نصیب آنکھوں کے سامنے ہوا۔ انہوں نے سیدنا عثمانؓ کو ذبح ہوتے دیکھا تو آپ کوٹھے پر چڑھ کر چیخنے لگیں :امیرالمومنین شہید ہوگئے۔ امیرالمومنین کے دوست دوڑتے ہوئے نیچے آئے تو عثمانؓ فرش خاک پر کٹے پڑے تھے جب یہ مصیبت انگیز خبر مدینہ میں پھیلی تو لوگوں کے ہوش اڑ گئے اور مدہوشانہ دوڑتے ہوئے محل سراکی طرف آئے مگر اب یہاں کیا رکھا تھا۔ سیدنا علیؓ نے امام حسنؓ کو ایک طمانچہ مارا، ایک مُکہ امام حسینؓ کو چھاتی پر دیا مگر اب یہ سب کچھ بعد از وقت تھا۔ عثمانؓ محل سراکے اندر خون میں ڈوبے پڑے تھے مگر محاصرہ اب بھی جاری تھا۔ دو دن تک نعش مبارک وہیں بے گور و کفن پڑی رہی۔ تیسرے دن چند خوش قسمت مسلمانوں نے اس خونی لباس میت کو کندھا دیا۔
صرف سترہ مسلمانوں نے نماز جنازہ پڑھی اور کتاب اللہ کے سب سے بڑے خادم اور سنت رسول اللہ کے سب سے بڑے عاشق کو جنت البقیع کے گوشے میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے سلادیا گیا۔
چونکہ سیدنا عثمانؓ اس وقت تلاوت فرما رہے تھے اور قرآن مجید سامنے کھلا تھا، اس لیے خون ناحق نے جس آیت پاک کو رنگین فرمایا، وہ یہ تھی۔ ترجمہ: ’’خدا کی ذات تم کو کافی ہے، وہ علیم ہے اور حکیم ہے‘‘۔
جمعہ کے دن عصر کے وقت شہادت ہوئی۔ زبیر بن مطعمؓ نے نماز جنازہ پڑھائی۔ علیؓ نے دونوں ہاتھ اٹھا کر فرمایا: ’’میں عثمانؓ کے خون سے بری ہوں‘‘۔ سعید بن زیدؓ نے کہا: لوگو! واجب ہے کہ اس بداعمالی پر کوہ احد پھٹے اور تم پر گرے۔ انسؓ نے فرمایا: عثمانؓ جب تک زندہ تھے، خدا کی تلوار نیام میں تھی، آج اس شہادت کے بعد یہ تلوار نیام سے نکلے گی اور قیامت تک کھلی رہے گی۔ ابن عباسؓ نے فرمایا: اگر عثمانؓ کے خون کا مطالبہ نہ کیا جاتا تو لوگوں پر آسمان سے پتھر برستے۔
سمرہؓ نے کہا: قتل عثمانؓ کا رخنہ قیامت تک بند نہیں ہوگا اور خلافت اسلامی مدینہ سے اس طرح نکلے گی کہ وہ قیامت تک کبھی مدینہ میں واپس نہیں آئے گی۔
کعب بن مالکؓ نے شہادت کی خبر سنی تو ان کی زبان سے بے اختیارانہ چند دردناک اشعار نکلے، جن کا ترجمہ یہ ہے:
ترجمہ: آپ نے اپنے دونوں ہاتھ باندھ لیے اور اپنا دروازہ بند کر لیا اور اپنے دل سے کہا: اللہ تعالیٰ سب کچھ جانتا ہے۔ آپ نے اپنے ساتھیوں سے کہا۔ دشمنوں کے ساتھ لڑائی مت کرو۔ آج جو شخص میرے لیے جنگ نہ کرے، وہ خدا کی امان میں رہے۔ اے دیکھنے والے! عثمانؓ کی شہادت سے آپس کا میل محبت کس طرح ختم ہوا اور اللہ نے اس کی جگہ بغض وعداوت مسلط کر دی۔ عثمانؓ کے بعد بھلائی مسلمانوں سے اس طرح دور نکلے گی جس طرح تیز آندھیاں آتی ہیں اور چلی جاتی ہیں‘‘۔
اسلام کی تقدیر پلٹ گئی
شہادت عثمانؓ کی خبر آناً فاناً تمام ملک میں پھیل گئی۔ اس وقت حذیفہؓ نے ایک ایسا جملہ ارشاد فرمایا کہ بعد کے تمام واقعات صرف اسی ایک جملے کی تفصیل ہیں۔ آپ نے ارشاد فرمایا: ’’عثمانؓ کے قتل سے اسلام میں ایک ایسا رخنہ پڑ گیا ہے کہ اب وہ قیامت تک بند نہیں ہوگا۔ عثمانؓ کا خون آلود کرتہ اور نائلہؓ کی کٹی ہوئی انگلیاں امیر معاویہؓ گورنر شام کو جو بنی امیہ کے ممتاز ترین فرد تھے، بھیج دی گئیں جب یہ کُرتہ مجمع میں کھولا گیا تو حشر برپا ہوگیا اور انتقام انتقام کی صداؤں سے فضا گونج اٹھی۔ بنی امیہ کے تمام اراکین امیر معاویہؓ کے گرد جمع ہوگئے۔ یہاں یہ نکتہ ذہین نشین کر لینا چاہیے کہ علیؓ کی خلافت سے لے کر امام حسینؓ کی شہادت بلکہ امیر معاویہؓ کے بعد امیوں اور عباسیوں کی خلافت کے آخر تک جس قدر بھی واقعات پیش آئے، ان میں ہر جگہ سیدنا عثمانؓ کے خون کا اثر موجود ہے۔ یہ ایک ایسا واقعہ ہے۔ جس سے تاریخ اسلام کا رخ پلٹ گیا۔ جو کچھ جنگ جمل میں ہوا، وہ بھی یہی تھا اور جو کچھ کربلا میں پیش آیا، وہ بھی یہی تھا اور جو کچھ اس کے بعد امیوں اور عباسیوں نے کیا وہ اسی ایک ظلم یا گمراہی کے لازمی اور منطقی نتائج تھے۔ شہادت عثمانؓ کے بعد بنی امیہ اور بنی ہاشم کی خاندانی رقابتوں کی آگ دوبارہ بھڑک اٹھی اور اسلام کے قدموں نے جو بجلی کی رفتارسے کائنات عالم کی اصلاح کے لیے اٹھ رہے تھے، ایک ایسی ٹھوکر کھائی کہ وہ بگڑے ہوئے حالات پھردرست نہ ہو سکے۔