افکار سید ابوالاعلی مودودیؒ

240

قرآن اور مختلف لہجے
عرب میں مختلف علاقوں اور قبیلوں کی بولیوں میں ویسے ہی فرق پائے جاتے تھے جیسے ہمارے ملک میں شہر شہر کی بولی اور ضلع ضلع کی بولی میں فرق ہے، حالانکہ زبان سب کی وہی ایک اْردو یا پنجابی یا بنگالی وغیرہ ہے۔ قرآن مجید اگرچہ نازل اْس زبان میں ہوا تھا جو مَکّہ میں قریش کے لوگ بولتے تھے، لیکن ابتدائً اس امر کی اجازت دے دی گئی تھی کہ دْوسرے علاقوں اور قبیلوں کے لوگ اپنے اپنے لہجے اور محاورے کے مطابق اسے پڑھ لیا کریں، کیونکہ اس طرح معنی میں کوئی فرق نہیں پڑتا تھا، صرف عبارت اْن کے لیے ملائم ہو جاتی تھی۔ لیکن رفتہ رفتہ جب اسلام پھیلا اور عرب کے لوگوں نے اپنے ریگستا ن سے نِکل کر دْنیا کے ایک بڑے حصّے کو فتح کر لیا، اور دْوسری قوموں کے لوگ بھی دائرۂِ اِسلام میں آنے لگے، اور بڑے پیمانے پر عرب و عجم کے اِختلاط سے عربی زبان متاثر ہونے لگی، تو یہ اندیشہ پیدا ہوا کہ اگر اب بھی دْوسرے لہجوں اور محاوروں کے مطابق قرآن پڑھنے کی اجازت باقی رہی تو اس سے طرح طرح کے فتنے کھڑے ہو جائیں گے۔
٭…٭…٭
زبان اور قرآن
مثلاً یہ کہ ایک شخص کسی دْوسرے شخص کو غیر مانوس طریقے پر کلام اللہ کی تلاوت کرتے ہوئے سْنے گا اور یہ سمجھ کر اس سے لڑ پڑے گا کہ وہ دانستہ کلامِ الہٰی میں تحریف کر رہا ہے۔ یا یہ کہ یہ لفظی اختلافات رفتہ رفتہ واقعی تحریفات کا دروازہ کھول دیں گے۔ یا یہ کہ عرب وعجم کے اختلاط سے جن لوگوں کی زبان بگڑے گی وہ اپنی بگڑی ہوئی زبان کے مطابق قرآن میں تصرّف کر کے اس کے حْسنِ کلام کو بغاڑ دیں گے۔
٭…٭…٭
عثمانؓ کا حکم
ان وجوہ سے سیدنا عثمانؓ نے صحابۂ کرام کے مشورے سے یہ طے کیا کہ تمام ممالکِ اسلامیہ میں صرف اْس معیاری نسخۂ قرآن کی نقلیں شائع کی جائیں جو سیدنا ابو بکرؓ کے حکم سے ضبطِ تحریر میں لایا گیا تھا، اور باقی تمام دْوسرے لہجوں اور محاوروں پر لکھے ہوئے مَصاحف کی اشاعت ممنْوع قرار دے دی جائے۔
٭…٭…٭
مصحف صدیقی
آج جو قرآن ہمارے ہاتھوں میں ہے، یہ ٹھیک ٹھیک اْسی مَصحَفِ صدّیقی کے مطابق ہے جس کی نقلیں سیدنا عثمانؓ نے سرکاری اہتمام سے تمام دیار وامصار میں بھجوائی تھیں۔ اِس وقت بھی دْنیا میں متعدّد مقامات پر قرآن کے وہ مستند نسخے موجود ہیں۔
٭…٭…٭
قرآن کی حفاظت
کسی کو اگر قرآن کی محفوظیّت میں ذرہ برابر بھی شک ہو تو وہ اپنا اطمینان اس طرح کر سکتا ہے کہ مغربی افریقہ میں کسی کتاب فروش سے قرآن کا ایک نسخہ خریدے، اور جاوا میں کسی حافظ سے زبانی قرآن سْن کر اس کا مقابلہ کرے، اور پھر دنیا کی بڑی بڑی لائبریریوں میں سیدنا عثمانؓ کے وقت سے لے کر آج تک مختلف صدیوں کے لکھے ہوئے جو مصاحف رکھے ہیں، ان سے اس کا تقابل کر لے۔ اگر کسی حرف یا شوشے کا فرق وہ پائے تو اس کا فرض ہے کہ دْنیا کو اس سب سے بڑے تاریخی انکشاف سے ضرور مطلع کرے۔
٭…٭…٭
قرآن میں شک
کوئی شک نواز قرآن کے مْنَزّل مِنَ اللہ ہونے میں شک کرنا چاہے تو کر سکتا ہے، لیکن یہ بات کہ جو قرآن ہمارے ہاتھ میں ہے یہ بلا کسی کمی بیشی کے ٹھیک وہی قرآن ہے جو محمدؐ نے دْنیا کے سامنے پیش کیا تھا، یہ تو ایک ایسی تاریخی حقیقت ہے جس میں کسی شک کی گنجائش ہی نہیں ہے۔ انسانی تاریخ میں کوئی دْوسری چیز ایسی نہیں پائی جاتی جو اس قدر قطعیِ الثّبوت ہو۔ اگر کوئی شخص اس کی صحت میں شک کرتا ہے تو وہ پھر اس میں بھی شک کر سکتا ہے کہ رومن امپائر نامی کوئی سلطنت دْنیا میں رہ چکی ہے، اور کبھی مغل ہندوستان پر حکومت کر چکے ہیں، اور ’’نپولین‘‘ نام کا کوئی شخص بھی دنیا میں پایا گیا ہے۔ ایسے ایسے تاریخی حقائق پر شکوک کا اظہار کرنا علم کا نہیں، جہالت کا ثبوت ہے۔ (مقدمہ، تفہیم القرآن)