بیانات کی گولہ باری

328

پاکستانی حکمران اس وقت جو کچھ کررہے ہیں وہ نہایت قابل شرم ہے۔ گلی محلوں میں عورتیں لڑائی کے دوران جو رویہ اختیار کرتی ہیں ان کا رویہ وہی ہے۔ جس سے لڑائی ہوتی ہے کبھی کبھار اس کا نام لیے بغیر باتیں کی جاتی ہیں۔ یہی رویہ کشمیر کے حوالے سے بھارت کے ساتھ پاکستان کی جنگ کا ہے۔ بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں آرٹیکل 370اور 35اے ختم کر کے ریاست پر غیر قانونی قبضہ کرلیا ہے اس کے بعد سے پاکستانی حکمرانوں کے بیانات کے نشانے پر ہے۔ بھارت کو قیمت چکانا ہوگی، سنگین نتائج ہوں گے، بھارت کو حساب دینا ہوگا۔ اب صدر مملکت نے کہہ دیا ہے کہ جنگ مسلط کی گئی تو دنیا اس کے اثرات محسوس کرے گی۔ بھارت ہماری امن پسندی کو کمزوری نہ سمجھے۔ اب بھی بھارتی حکمرانوں سے کہتے ہیں کہ ہوش کے ناخن لیں۔ حالات کو اس نہج پر نہ لائیں جہاں سے واپسی ممکن نہ ہو۔ پاک فوج کے سربراہ نے بھی صاف صاف کہہ دیا کہ کشمیر پر کبھی کوئی سمجھوتا نہیں ہوسکتا۔ نتائج کی پروا کیے بغیر ظلم کے خلاف کھڑے ہوں گے۔ لیکن سب سے بڑے یعنی وزیر اعظم کی بڑی بڑی باتیں واقعی بڑی ہیں۔ انہوں نے اطلاع دی ہے کہ مودی نے آزاد کشمیر پر حملے کا منصوبہ بنایا ہے۔ اس کے اندازے غلط ہیں ہم پوری طرح تیار ہیں سبق سکھانے کا وقت آگیا ہے۔ اینٹ کا جواب پتھر سے دیں گے۔ دکھا دیں گے کہ پاکستان کیا کرسکتا ہے۔ عمران خان نے یہ بھی بتایا کہ بھارتی وزیر اعظم نے آرٹیکل 370 ختم کرکے بہت بڑی غلطی کی ہے جو انہیں مہنگی پڑے گی۔ خصوصی معاون برائے اطلاعات فردوش عاشق اعوان نے تو حد کردی۔ کہنے لگیں کہ وزیر اعظم عمران خان کی تقریر سن کر مودی کی نیند اڑ گئی ۔ ارے بھئی مودی وزیر اعظم عمران خان کی تقریر کیوں سنے گا۔ پاکستانی وزیر خارجہ تو الٹی سیدھی ہانکنے لگے ہیں لیکن مجموعی طور پر پوری قومی قیادت اور حکمران صرف بیان بازی میں مصروف ہیں۔ اب دیکھیں بھارت کیا کررہا ہے اور ہم کیا کررہے ہیں۔ بھارت نے آرٹیکل 370 ختم کردیا پاکستان کے وزیر اعظم کہہ رہے ہیں کہ ہم دکھا دیں گے کہ ہم کیا کرسکتے ہیں۔ کب دکھائیں گے اس کا پتا نہیں ۔ وزیر اعظم عمران خان بتا رہے ہیں کہ مودی نے آزاد کشمیر پر حملے کا منصوبہ بنایا ہے لیکن آپ نے کیا منصوبہ بنایا ہے اس کے بارے میں پوچھنے کی ضرورت نہیں۔ پھر نئے سرے سے بیانات ہوں گے اور ہمارے حکمران۔ نئے ہوں گے یا یہی والے کسی اور پارٹی میں ہوں گے۔ صدر مملکت کا بیان خوب ہے۔ کہتے ہیں کہ جنگ مسلط کی گئی تو دنیا اس کے اثرات محسوس کرے گی۔ بالکل بجا ہے۔ لیکن جناب بھارتی مظالم کے اثرات اور بھارتی اقدامات کے اثرات دنیا کیوں محسوس نہیں کررہی۔یہ بیان اتنا گھسا پٹا ہے کہ ہماری امن پسندی کو کمزوری نہ سمجھا جائے، کہ اس بیان کو خوفزدہ، ڈرپوک اور بے حمیت لوگوں کا ٹریڈ مارک قرار دیا جانا چاہیے۔ آرمی چیف نے کہہ دیا کہ کشمیر پر کوئی سمجھوتا نہیں ہوسکتا۔ نتائج کی پروا کیے بغیر ظلم کے خلاف کھڑے ہوں گے ۔لیکن کب اس کا کسی کو پتا نہیں ۔ پاک فوج نے کسی وزیر اعظم کے حکم کے بغیر اکتوبر 1958ء میں اقتدار پر قبضہ کیا، جولائی 1977ء میں جولائی میں جنرل ضیاء الحق نے کسی پارلیمنٹ کے حکم پر نہیں بلکہ قوم کے بہترین مفاد میں اقتدار سنبھال لیا تھا۔پھر جنرل پرویز مشرف نے اکتوبر99ء میں قومی مفاد پر سمجھوتا نہ کرتے ہوئے سیاسی حکومت کو اٹھا کر پھینک دیا تھا۔ بس اب کسی پارلیمنٹ، کسی وزیر اعظم کے حکم اور حکومت کے اعلان کی ضرورت نہیں۔ فوج آگے بڑھے کشمیر میں داخل ہو جائے پاکستانی قوم پیچھے پیچھے آئے گی۔ ایک دفعہ ایسا بھی کر کے دیکھ لیں۔ نتائج کی ہرگز پروا نہ کریں ۔ اور وزیر اعظم صاحب نے بڑی آسانی سے بھارت کے ساتھ جنگ کا ذمے دار عالمی برادری کو قرار دے دیا۔ ارے مودی نے جو کیا اس کے ردعمل کا وہی ذمے دار ہے۔ وزیر اعظم کی حیثیت سے عمران خان کی ذمے داری ہے کہ وہ جنگ کا حکم دیں۔ اور خدارا بڑھکیں مارنے کا سلسلہ بند کردیا جائے۔ اخبارات بھی اب بڑھکوں کو سنگل کالم سے زیادہ جگہ نہ دیں۔مثال کے طور پر وزیر اعظم عمران خان کہتے ہیں کہ اینٹ کا جواب پتھر سے دیں گے۔ بتائیں کتنے پتھر مارے ہیں بھارت کو آپ تو اب بھی کرتارپور کا راستہ قادیانیوں کے لیے کھولنے پر مصر ہیں۔ وزیر اعظم آزاد کشمیر نے بھی حد کردی۔ کہتے ہیں کہ اب پاکستان کا نقشہ پھیلے اور بھارت کا سمٹے گا۔ لیکن فی الحال تو بھارت نے کشمیر کو شامل کر کے اپنا نقشہ پھیلا لیا ہے۔ ایک طرف بڑھک ماری اور دوسری طرف کشمیر کی آزادی کا سفر پانچ سو سال پر محیط کررہے ہیں۔ بھارت نے 370 کی اینٹ مار دی ۔ اب وزیر اعظم کوئی پتھر ماریں۔ کشمیر پر اس سے بڑا سمجھوتا اور کیا ہوگا کہ بھارت کشمیر کو ہڑپ کرگیا۔ بھارت نے کشمیریوں پر عید کی نماز بھی بند کردی۔ ان کو خوراک سے محروم کردیا لیکن ہم نے پتھر تک نہیں مارا۔ کوئی اقدام تو کیا ہوتا جس کے اثرات دنیا محسوس کرتی۔ ہماری طرف سے کہا جارہا ہے کہ بھارت کو قیمت ادا کرنی پڑے گی ، مہنگا پڑے گا وغیرہ وغیرہ لیکن قیمت تو کشمیری چکا رہے ہیں۔ جس قسم کی بکواس بھارتی ریاستوں کے ذمے داران کررہے ہیں کہ کشمیر سے لڑکیاں لائیں گے اس کے بعد بھی ہمارے حکمران بیانات کی گھسی پٹی تکرار کرتے رہیں گے۔