کراچی کو بھکاری بنانے والے

557

دنیا نے غریبوں کو بھکاری بنتے ہوئے تو اکثر دیکھا ہے مگر ایک کھرب پتی کو وہ بھکاری بنتے ہوئے پہلی بار دیکھ رہی ہے۔ کراچی ملک کی مجموعی آمدنی کا 70 فی صد فراہم کرتا ہے۔ مجموعی قومی پیداوار میں کراچی کا حصہ 55 فی صد سے زیادہ ہے۔ ان حقائق کو ٹھوس اعداد و شمار کی روشنی میں سمجھتا ہو تو کہا جائے گا کہ اگر ملک کی سالانہ آمدنی 100 روپے ہے تو کراچی ملک کو 70 روپے فراہم کرتا ہے۔ ملک کی مجموعی قومی پیداوار یا جی ڈی پی اگر 100 روپے ہے تو کراچی ملک کو 55 روپے مہیا کرتا ہے۔ ایف بی آر نے رواں مالی سال میں محصولات کا ہدف 5 ہزار 500 ارب روپے رکھا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق اگر ایف بی آر نے یہ ہدف حاصل کرلیا تو کراچی تن تنہا ملک کو 3000 ارب روپے ’’عطا‘‘ کرے گا۔ اس کے باوجود آدھا کراچی کچی آبادیوں پر مشتمل ہے۔ آدھے کراچی کو پانی کی بدترین قلت کا سامنا ہے۔ شہر میں نہ سرکلر ریلوے ہے، نہ میٹرو یہاں تک کہ بڑی بسوں کی سواری بھی اہل کراچی کو میسر نہیں۔ حد یہ ہے کہ کراچی گزشتہ پانچ سال سے کچرے کے ڈھیر کا منظر پیش کررہا ہے۔ رہی سہی کسر ایم کیو ایم کی بلدیاتی حکومت، پیپلز پارٹی پر مشتمل سندھ کی صوبائی حکومت اور تحریک انصاف کی وفاقی حکومت نے پوری کردی ہے۔ ان تینوں نے کراچی کی خدمت کی یہ صورت نکالی ہے کہ پورے ملک کو 40 سال سے پالنے والے کھرب پتی کراچی کو بھکاری بنا کر کھڑا کردیا ہے۔
تحریک انصاف کے رہنما اور وفاقی وزیر علی زیدی نے نہ جانے کس کے کہنے پر کراچی میں صفائی مہم شروع کی تو ایم کیو ایم کی بلدیہ اور پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت نے بھی اس مہم میں شرکت کا اعلان کردیا۔ یہاں تک سب خیریت تھی۔ مسئلہ اس وقت پیدا ہوا جب مہم چلانے والوں نے افراد اور اداروں سے عطیات مانگنے شروع کیے اور شہریوں سے اپیل کی کہ وہ کراچی کو صاف کرنے کی مہم میں رضا کارانہ طور پر شریک ہوں۔ فوجی اسٹیبلشمنٹ یا وقت کے حکمران کسی خیال کی پشت پناہی کرنی شروع کردیتے ہیں تو ذرائع ابلاغ بھی اس سلسلے میں متحرک ہوجاتے ہیں۔ چناں چہ اے آر وائی اور جیو نیوز کی توجہ بھی کراچی کی صفائی پر مرکوز ہوگئی اور انہوں نے اس سلسلے میں خصوصی نشریات کا اہتمام فرمایا۔ ان اداروں سے پوچھا جانا چاہیے کہ کراچی تو برسوں سے سسک اور بلک رہا ہے مگر انہیں اس سے پہلے کبھی کراچی کے لیے خصوصی نشریات کی توفیق کیوں نہ ہوئی؟ لیکن اصل مسئلہ یہ نہیں ہے اصل مسئلہ کراچی کو بھکاری بنانے کا ہے۔
ارے بھئی جو شہر ملک کو سالانہ 3000 ارب روپے کما کر دیتا ہے اس کو کچرے سے پاک کرنے کے لیے افراد اور اداروں سے چندا کیوں مانگا جارہا ہے؟ ریاست کے اندھے حکمران خزانہ سے کراچی کے لیے رقم کیوں مہیا نہیں کررہے؟ کراچی کے نالے صاف نہیں ہیں اور کراچی ایک بڑی کچرا کنڈی کا منظر پیش کررہا ہے تو حکمرانوں اور ریاست کی ناکامی ہے۔ اس کی سزا عوام اور اداروں کو کیوں دی جارہی ہے۔ کیا اداروں اور کراچی کے عوام نے کراچی کو کچرا کنڈی میں ڈھالا ہے؟ ملک کے لیے رضا کارانہ طور پر کام کرنا کیا ملک کے لیے جان دینا بھی معمولی بات ہے مگر عام شہری وہاں رضا کار بنیں گے جہاں ریاست سارے وسائل صرف کرنے کے باوجود کامیاب نہ ہوپارہی ہو۔ مگر کراچی میں تو کسی ریاست کا کوئی وجود ہی نہیں۔ کہیں کہیں ریاست موجود نظر بھی آتی ہے تو اس کی موجودگی علامتی ہے۔ کراچی کو صاف رکھنے کی ذمے داری بلدیہ، صوبائی اور وفاقی حکومت اور ملک کی ’’سپر پاور‘‘ اسٹیبلشمنٹ کی ہے۔ لیکن کراچی میں نہ کہیں ایم کیو ایم کی بلدیہ موجود ہے، نہ پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت، نہ تحریک انصاف کی وفاقی حکومت نہ ہی مشہور زمانہ ’’سپر پاور‘‘ کراچی میں کہیں نظر آتی ہے۔ تو پھر عام شہریوں کو رضا کار بننے پر کیوں مائل یا مجبور کیا جارہا ہے۔ کیا ایم کیو ایم، پیپلز پارٹی، تحریک انصاف اور اسٹیبلشمنٹ بنیادی انسانی اخلاق سے بھی عاری ہیں؟ غور کیا جائے تو پاکستان کے حکمران طبقے میں کراچی کے حوالے سے ’’سیاسی بے حیائی‘‘ بھی موجود ہے۔ ’’معاشی بے حیائی‘‘ دستیاب ہے اور ’’اخلاقی بے حیائی‘‘ بھی فراوانی سے میسر ہے۔
کراچی کے حوالے سے ایم کیو ایم، پیپلز پارٹی، تحریک انصاف اور اسٹیبلشمنٹ کا ایک ظلم یہ ہے کہ ملک ریاض جیسے جرائم پیشہ شخص کو کراچی سے متعلق مہم کا حصہ بنالیا گیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق ملک ریاض نے وعدہ کیا ہے کہ پورے ضلع کورنگی کی صفائی کا کام وہ خود کریں گے۔ ملک ریاض ایک ’’اقراری مجرم‘‘ ہے۔ وہ سپریم کورٹ کے روبرو تسلیم کرچکا ہے کہ اس نے کراچی کی قیمتی زمین کو اونے پونے داموں خریدا ہے۔ اس جرم کی پاداش میں سپریم کورٹ نے ملک ریاض پر 500 ارب روپے جرمانہ کیا اور ملک ریاض 460 ارب دینے پر آمادہ ہوا۔ مگر اب اس جرائم پیشہ شخص کو کراچی پر ’’احسان فرمانے‘‘ کا موقع فراہم کیا جارہا ہے۔ اگر ملک ریاض سے کراچی کو صاف کرنے کا کام لیا جارہا ہے تو پاکستان کی جیلوں میں موجود ہزاروں چوروں، ڈاکوئوں، زانیوں اور اسمگلروں کو بھی کراچی کی خدمت کا موقع دیا جانا چاہیے۔ ہمیں یقین ہے کہ ان میں سے کئی لوگ کراچی کے نالوں، علاقوں، گلیوں اور محلوں کو ’’گود‘‘ لینے والے مل جائیں گے۔ بلکہ ہمارا مشورہ تو یہ بھی ہے کہ کراچی کی صفائی کی مہم میں بھارت، افغانستان، امریکا اور یورپ کو بھی شریک کرنے کے لیے مہم چلائی جائے۔ ہمیں یقین ہے کہ بھارت کراچی کی ’’صفائی‘‘ میں خصوصی دلچسپی کا مظاہرہ کرے گا۔ دوسرے ممالک کو کراچی کی مہم میں شریک کرکے ہم کراچی کے مسائل کو عالمگیر سطح پر ’’اجاگر‘‘ کرسکیں گے۔ ہمارا حکمران طبقہ آج تک مسئلہ کشمیر کو تو ’’Internationalize‘‘ نہیں کرسکا۔ چناں چہ کراچی کی صفائی ’’Internationalize‘‘ ہوگئی تو اس طرح کشمیر کے سلسلے میں ہماری نالائقیوں کا کچھ نہ کچھ ازالہ ہوجائے گا۔ یہاں ہمیں یاد آیا کہ عمران خان کے نفس امارہ فواد چودھری کی نظر تو چاند اور مریخ وغیرہ پر بھی ہے۔ چناں چہ ہمیں کراچی کی صفائی مہم کو چاند اور مریخ تک لے جانا چاہیے۔ کیا خبر کوئی ’’خلائی مخلوق‘‘ بھی کراچی کو کچرے سے پاک کرنے کی مہم میں شرکت کرنے کے لیے آجائے۔ ایسا ہوا تو کراچی کی مہم ’’خلا گیر‘‘ ہوجائے گی۔
ریاست کا بنیادی فرض یہ ہے کہ وہ اپنے شہریوں کی جان و مال کا تحفظ کرے۔ انہیں تعلیم اور صحت کی سہولتیں فراہم کرے۔ مگر بدقسمتی سے ہمارے حکمران قوم کی جان و مال کے تحفظ میں بری طرح ناکام ہوگئے۔ اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ کراچی میں گزشتہ 35 سال کے دوران 92 ہزار افراد مارے گئے۔ یہ صرف بار بار اقتدار میں آنے والی ایم کیو ایم، پیپلز پارٹی اور نواز لیگ کی ناکامی نہیں ہے یہ اسٹیبلشمنٹ کی بھی ناکامی ہے۔ پاکستان کے حکمران طبقے نے نائن الیون کے بعد پورا ملک امریکا کے حوالے کرکے بتادیا کہ ملک ہمارا نہیں امریکا کا ہے۔ مزید ظلم یہ ہوا کہ ملک میں حکمرانوں کی حماقتوں سے شروع ہونے والی دہشت گردی کی لہر 70 ہزار افراد کو نگل گئی اور عمران خان کے بقول ہمارا 150 ارب ڈالر کا نقصان ہوگیا۔ یہ عوام کے جان و مال کے تحفظ میں ناکامی کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔ بدقسمتی سے ریاست نے قوم کو مفت تعلیم فراہم کرنے سے بھی انکار کردیا ہے۔ چناں چہ تعلیم کا پورا شعبہ نجی شعبے کے حوالے ہوگیا ہے۔ ریاست نے قوم کو صحت کی سہولتیں مہیا کرنے سے بھی انکار کر دیا ہے۔ چناں چہ صحت کا شعبہ بھی نجی شعبے کے قبضے میں چلا گیا ہے۔ یہاں تک افغانستان اور کشمیر میں جہاد بھی نجی شعبے میں ہوا۔ اب کراچی میں صفائی کی مہم کو بھی نجی شعبے کے حوالے کیا جارہا ہے۔ صاحب اگر سب کچھ ہی نجی شعبے کو کرنا ہے تو پھر ملک و قوم کو کسی ایم کیو ایم، کسی پیپلز پارٹی، کسی نواز لیگ، کسی تحریک انصاف اور کسی اسٹیبلشمنٹ کی کوئی ضرورت نہیں۔ چناں چہ عوام ان تمام سے اقتدار چھین لیں۔ جب سب کچھ عوام کو کرنا ہے تو حکومت بھی عوام ہی کے ہاتھ میں ہونی چاہیے۔