کشمیر پر بھارتی قبضہ

427

مودی کے اقدام کے جواب میں پاکستان کے پاس چار آپشن تھے۔ بھارت پر بین الاقوامی دباؤ ڈالا جائے، بھارت کے ساتھ براہ راست مذاکرات کیے جائیں، جہادی تنظیموں کے ذریعے پراکسی وار لڑی جائے یا براہ راست بھارت پر حملہ کردیا جائے۔ پہلے آپشن بین الاقوامی دباؤ کی صورتحال سب کے سامنے ہے۔ اس کا نتیجہ ہے دو چار مذمتی بیانات اور اس کے بعد طرفین کو مشتعل ہونے سے گریز کا مشورہ۔ دوسرے آپشن کی صورتحال یہ ہے کہ بھارت پر کوئی دباؤ نہیں ہے اس لیے وہ مذاکرات کی میز پر پاکستان کے پاس موجود کشمیر کے لیے تو بات کرنا چاہتا ہے مگر بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر کے بارے میں لفظ بھی نہیں سننا چاہتا۔ جہادی تنظیموں کا تیسرا آپشن اب ختم ہوگیا ہے کہ بھارت کی سفارت کاری زیادہ مضبوط ہے اور اب ہر کوئی انتہا پسندی کے نام پر پاکستان کو اپنے گھر کی صفائی کا مشورہ دیتا ہے اور پاکستان اس مشورے پر خلوص دل کے ساتھ عمل پیرا بھی ہے۔ ایف اے ٹی ایف کو اس سلسلے میں پاکستان کے خلاف ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا اس لیے اب یہ آپشن بھی خارج از بحث ہوگیا۔ اب آخری آپشن بھارت پر حملہ ہی بچتا ہے۔
چونکہ یہی آپشن قابل تھا اس لیے اس پر پہلے ہی سے بھارت اور اسرائیل نے بھرپور کام کیا اور اس امر کو یقینی بنایا کہ بھارت پر حملے کے آپشن کو پاکستان کی کسی بھی قسم کی قیادت اپنے ذہن میں نہ رکھے۔ چونکہ کشمیر پر بھارت کے ساتھ فوجی آپشن پر پہلے سے یقین دہانی حاصل کرلی گئی تھی اس لیے پاکستان میں فوجی سطح پر 5 اگست کے بعد چلت پھرت بھی نظر نہیں آئی۔ حتیٰ کہ فوج میں عید پر دی گئی چھٹیاں بھی منسوخ نہیں کی گئیں اور نہ ہی حج پر جانے والے جوانوں اور افسران کو روکا گیا۔ اس کے بجائے پاکستان میں ایک منظم مہم سوشل میڈیا پر شروع کی گئی جس میں بتایا جارہا ہے کہ پاکستان اگر پنگاہ لینے کے بجائے سمجھداری سے کام لے تو جلد ہی ترقی یافتہ ممالک میں شامل ہوجائے گا۔ بتایا جارہا ہے کہ ٹرمپ کی ثالثی کی پیشکش کا حقیقی مطلب یہ تھا کہ 5 اگست کے بعد کی صورتحال میں بھارت اور پاکستان کو بٹھا کر مستقل سرحد بندی کردی جائے۔ اس پوری منظم مہم کا المیہ یہ ہے کہ یہ مہم ان گوشوں کی جانب سے لانچ کی گئی ہے جن سے قوم اس کے برعکس مہم کی امید رکھتی ہے۔ ان گوشوں کے ترجمان یا ملازم اینکر پرائیویٹ ریکارڈ کلپ میں اسی کی تبلیغ کررہے ہیں۔ میڈیا خصوصی طور پر الیکٹرونک میڈیا کو مسئلہ کشمیر پر دھیما انداز رکھنے کی تلقین کی گئی ہے۔
فوجی آپشن کو پہلے دن ہی سے خارج از بحث قرار دینے کے نتیجے میں کسی بھی ملکی یا غیر ملکی میڈیا نے اپنے کسی نمائندے کو کنٹرول لائن پر بھیجنے کی زحمت ہی نہیں کی۔ 5 اگست کا المیہ اتنا زیادہ scripted تھا کہ حکومت میں کسی بھی سطح پر حیرت یا اچانک ہونے کا شائبہ تک محسوس نہیں ہوا۔ ہر طرح کی قیادت اطمینان سے اپنے اپنے ڈائیلاگ کی ادائیگی کرتی رہی اور بس۔ اب سب کا ایک ہی ہدف ہے اور وہ ہے عوام کو اپنے اپنے دائرہ کار میں non issues میں الجھا کر رکھنا۔ اس کا آغاز سیاسی گرفتاریوں سے کیا گیا ہے۔ آئندہ مرحلے میں سندھ سمیت کسی بھی صوبے میں حکومت کی تبدیلی یا گورنر راج بھی ہوسکتا ہے۔ یہ عدالتی ایکٹوزم بھی ہوسکتا ہے اور دہشت گردی کی کوئی بڑی واردات بھی۔ عوام کو مہنگائی کے پے درپے شاک بھی دیے جاسکتے ہیں اور انہیں سیلاب میں بھی ڈبویا جاسکتا ہے۔ یکے بعد دیگرے کچھ بھی ہوسکتا ہے جس سے آئندہ چھ ماہ تک عوام کی توجہ کشمیر کی طرف نہ رہے۔ اس کے بعد بھول جانے کے قدرتی اصول کے تحت سب کچھ وقت کی دھول میں دب جائے گا اور لوگ عادی ہوجائیں گے۔ آخر لوگ سانحہ مشرقی پاکستان بھی بھول ہی گئے اور 72 برسوں تک مقبوضہ کشمیر پر بھی صبر ہی کیے رہے۔
اس سلسلے میں سمجھنے کی اہم ترین بات یہ ہے کہ مقبوضہ جموں و کشمیر پر بھارتی قبضہ بین الاقوامی سازش کی آخری کڑی نہیں ہے۔ یہ سلسلہ تو اب دوبارہ شروع کیا گیا ہے۔ 2005میں جاری کیے گے بین الاقوامی سازش کاروں کے نقشے پر دوبارہ سے نگاہ ڈالیں۔ اس کے مطابق پاکستانی بلوچستان اور ایرانی بلوچستان کو ملا کر ایک نیا ملک گریٹر بلوچستان کو تشکیل دیا گیا ہے۔ خیبر پختون خوا پر افغانستان کا قبضہ ہے اور پورے کشمیر پر بھارت کا۔ بقیہ پاکستان محض سندھ اور پنجاب پر مشتمل ہے۔ اگر اس سازش کو ناکام بنانا ہے تو پہلے دن ہی سے بھارت کو یہاں پر روکنا ہوگا۔ ابھی یا پھر کبھی نہیں کا ہی فارمولا کارگر ہوگا۔
بھارت بھر میں ہندو برہمن کے ظلم کی شکار اقلیتوں کی مدد اور تعاون کے ساتھ فوجی آپشن ہی واحد حل ہے جس کی مدد سے بھارت کے توسیع پسندانہ عزائم کو روکا جاسکتا ہے۔ جب پاکستانی فوج اپنے tactical ہتھیار بھارتی سرحد پر لے کر آئے گی تو ہی 5 اگست سے پہلے والی پوزیشن بحال ہوگی اور کشمیر میں استصواب رائے کی کوئی صورت بن سکتی ہے۔ اگر کوئی اس پروپیگنڈے کے اثر میں ہے کہ اقوام متحدہ کوئی کردار ادا کرسکے گا تو وہ اقوام متحدہ کے کردار کو فلسطین میں بھی دیکھ سکتا ہے اور انڈونیشیا میں مشرقی تیمور کے سقوط کو بھی۔ اقوام متحدہ کا کردار عراق پر حملے میں بھی ملاحظہ کیا جاسکتا ہے اور کریمیا میں بھی دیکھا جاسکتا ہے۔
جہاں تک ایف اے ٹی ایف کی جانب سے پاکستان کو بلیک لسٹ میں ڈالنے کا تعلق ہے تو اسے خواہ مخواہ کا ہوا بنایا ہوا ہے۔ پاکستان پہلے بھی بلیک لسٹ میں رہا ہے اور اگر دوبارہ سے چلا گیا تو کوئی قیامت نہیں آجائے گی مگر کشمیر بھارت کے تسلط میں جانے سے قیامت آجائے گی۔ ایف اے ٹی ایف پر تفصیلی گفتگو آئندہ آرٹیکل میں ان شاء اللہ تعالیٰ۔ ویسے بھی جب جنگ شروع ہوتی ہے تو بہت سارے معاملات طے کرنا آسان ہوتے ہیں جیسے اسٹیٹ بینک کو آئی ایم ایف کے چنگل سے نکال دوبارہ سے پاکستانی عملداری میں لانا وغیرہ وغیرہ۔ یہ وقت فیصلہ کرنے کا ہے کہ بتدریج موت کا شکار ہونا ہے اور پاکستان کو ٹوٹتے ہوئے دیکھنا ہے یا پھر مزاحمت کرکے آزادی کو برقرار رکھنا ہے۔
اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہیے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھیے۔ ہشیار باش۔