خارجہ پالیسی یا بزدلی کا اعلان

380

اسے کہتے ہیں مقابلہ کرنے سے پہلے ہی ہار مان لینا۔ کیا اسے بزدلی کہا جائے، مایوس افراد کی طرف سے مایوسی پھیلانے کی کوشش یا یہ بھی یوٹرن کی ایک اور مثال ہے ؟ پاکستان کے آزمودہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کشمیریوں کی حوصلہ افزائی کے لیے مظفر آباد پہنچے تھے جہاں انہوں نے کشمیریوں کو پیغام دیا کہ ’’ ماحول سازگار نہیں ہے، کشمیریوں کو نئی جدوجہد کا آغاز کرنا ہوگا، سلامتی کونسل میں کوئی آپ کے لیے ہار لیے ہوئے نہیں کھڑا ہوگا، مستقل ارکان میں سے کوئی بھی پاکستان کی کشمیر کے حوالے سے کوششوں میں رکاوٹ بن سکتا‘‘۔ کیا اس کا یہ مطلب لیا جائے کہ کوشش ہی نہ کی جائے اور معاملہ سلامتی کونسل میں نہ لے جایا جائے ورنہ ناکامی ہوگی۔ اس کا خطرہ اور خدشہ تو ضرور ہے لیکن یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ ناکامی کا ادراک ہونے کے باوجود بھارت کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو کشمیر کا معاملہ خود اقوام متحدہ میں لے گئے تھے جہاں فیصلہ ان کے خلاف ہوا اور سلامتی کونسل کی متفقہ قرارداد اب تک ریکارڈ پر ہے کہ اہل کشمیر کو یہ فیصلہ کرنے کا حق ہے کہ وہ بھارت سے الحاق کریں یا پاکستان سے۔ اسے استصواب رائے کہا گیا اور اس کے مطابق کشمیریوں کے پاس یہی دو راستے تھے، کسی تیسرے راستے کا اختیار نہیں دیا گیا تھا۔ اس پر پنڈت نہرو کی یہ تقریر ریکارڈ پر ہے کہ ہمیں معلوم ہے کشمیریوں کا فیصلہ کیا ہوگا لیکن ہم انہیں یہ حق دیں گے۔ پنڈت جی برہمن تھے اور برہمنی چالوں کے ماہر۔ چنانچہ وہ پوری زندگی آئیں ، بائیں، شائیں کر کے معاملہ ٹالتے رہے اور مقبوضہ کشمیر کے غداروں کی مدد سے قبضہ جمائے رکھا۔ دوستی کے نام پر شیخ عبداللہ کو کشمیر کا وزیر اعظم بنایا اور جلد ہی آنکھیں پھیر کر انہیں جیل میں ڈال دیا۔ غاصب مہاراجا ہری سنگھ نے کشمیریوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے 1927ء میں معاہدے میں یہ شق شامل کروائی تھی کہ کشمیر میں کوئی غیر کشمیری نہ تو جائداد خرید سکے گا نہ ہی مستقل ملازمت حاصل کرسکے گا۔ اس شق کو بھارت کے آئین میں شامل کرلیا گیا جسے ایک اور برہمن نریندر مودی نے ساقط کروا دیا اور اب ہندوئوں کے منہ میں پانی آرہا ہے کہ کشمیر کی گوری لڑکیوں سے شادی کریں گے۔ لیکن کشمیری بے غیرت نہیں ہیں۔ بی جے پی نے لاکھوں کی فوج مسلط کر کے زمین پر قبضہ کیا ہے، کشمیریوں کو فتح نہیں کیا۔ شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ کشمیریوں کو نئی جدوجہد کا آغاز کرنا ہوگا لیکن ان کی جدوجہد پرانی کب ہوئی ہے۔طویل عرصے بعد مایوس ہو کر 1980ء میں کشمیریوں نے مسلح جدوجہد کا آغاز کیا۔ جس میں اب تک ایک لاکھ سے زاید کشمیری شہید ہو چکے ہیں اور ہزاروں خواتین بھارتی درندوں کی وحشت کا شکار ہوئی ہیں۔ کشمیری مجاہدین تو روز اپنے خون سے جدوجہد کی نئی تاریخ رقم کررہے ہیں۔ نوجوان کیا، ابھی تو بوڑھے سیدعلی گیلانی بھی نہیں تھکے اور قید و بند کی صعوبتوں کے باوجود بھارت سے نجات حاصل کرنے کی راہ پر پوری استقامت سے گام زن ہیں البتہ پاکستانی حکمران اپنا موقف بدلتے رہے ہیں اور اقوام متحدہ کی قرار دادوں پر عمل کروانے کے مطالبے سے گریزاں رہے ہیں۔ جنرل پرویز مشرف نے تو بہت پہلے تقسیم کا فارمولا پیش کردیا تھا جس پر بھارتی حکومت نے طنز کیا تھا کہ پاکستان اقوام متحدہ کی قرار دادوں سے خود دستبردار ہوگیا۔ بوڑھے سیدعلی گیلانی نے کہا تھا کہ جانیں تو ہم قربان کررہے ہیں، ہر طرح کے مصائب ہم برداشت کررہے ہیں، پاکستان کم از کم اپنے موقف پر تو قائم رہے۔ اب وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی ڈرا رہے ہیں کہ ماحول سازگار نہیں۔ کشمیر میں ماحول کب سازگار تھا۔ ماحول تو افغانستان میں بھی سازگار نہیں اور مقبوضہ فلسطین میں بھی نہیں۔ پھر کیا افغان مجاہدین یا فلسطینی جانباز اپنی جدوجہد سے پیچھے ہٹ گئے۔ یہاں تو یہ عالم ہے کہ عالمی سطح کے دھوکے باز امریکا کا صدر یہ کہہ دے کہ میں ثالثی کروائوںگا تو پاکستانی حکمران شادیانے بجانے لگتے ہیں کہ بس اب کشمیر کا مسئلہ حل ہوگیا۔ عمران خان اور ان کے حواریوں نے ایک لمحے کے لیے نہیں سوچا کہ ڈونلڈ ٹرمپ مقبوضہ فلسطین میں کیا کررہا ہے۔ اس کا یہودی داماد اپنی قوم کے ساتھ ہے اور ٹرمپ اپنے داماد کے ساتھ۔ اسی یہودی داماد کے ذریعے سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے عمران خان کی ٹرمپ سے ملاقات کی راہ ہموار کی۔ شاہ محمودقریشی کو تو سلامتی کونسل میں اس کی متفقہ قرارداد یاد دلانی چاہیے نہ کہ پہلے ہی سے بزدلی کا اظہار کیا جائے۔ ان کا یہ کہنا صحیح ہے کہ مسلم امہ کے محافظوں نے بھارت میں سرمایہ لگا رکھا ہے اور ان کے مفادات بھارت سے وابستہ ہیں۔ ان میں امریکا بھی شامل ہے جس کے لیے بھارت اس کی تمام مصنوعات کے لیے ایک بڑی منڈی ہے۔ مسلم ممالک کے حکمران اگر اسلامی غیرت کا مظاہرہ کریں توبھارت گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوجائے گا۔ لیکن اپنے مفادات کے سامنے کشمیریوں، فلسطینیوں اور میانمر کے مسلمانوں کے خون کی کوئی حقیقت نہیں۔ بھارت کو بھی مسلم ممالک کی بے غیرتی کا خوب اندازہ ہے۔ قبلہ اول مسجد اقصیٰ کے دروازے مسلمانوں پر بند ہیں اور مقبوضہ کشمیر میں عید الاضحی پر بھی مرکزی مساجد بند رہیں، پوری وادی میں مسلسل کرفیو ہے۔ شہری گھروں میں محصور ہیں قربانی کرنے کا تو کیا سوال کہ کھانے پینے اور دوائوں تک کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ پاکستان کا 73واں یوم آزادی کشمیریوں کے نام رہا لیکن مسئلہ کشمیر عمل کا متقاضی ہے۔ امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق نے یوم آزادی پر اپنے پیغام میں کہا ہے کہ کشمیر زندگی اور موت کا مسئلہ ہے، اسے آزاد کرانا ہوگا۔ یہ مسئلہ اب حل نہیں کیا تو تاریخ ہمیں معاف نہیں کرے گی۔ پاک فوج کے سربراہ جنرل باجوہ نے بھی کہا ہے کہ کشمیریوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں، کتنا بھی وقت لگے اور کوششیں کرنی پڑیں ہر چیلنج کا بھرپور مقابلہ کریں گے، بھارت کو اس کے جرائم پر پردہ ڈالنے کا موقع نہیں دیں گے۔ اور شاہ محمودقریشی کہہ رہے ہیں کہ پاکستانیوں اور کشمیریوں کو خام خیالی میں نہیں رہنا چاہیے، سلامتی کونسل میں کوئی آپ کا منتظر نہیں۔ شاہ محمود قریشی گھر بیٹھیں، انہیں کہیں جانے کی ضرورت نہیں۔ چند پیسے ہی بچیں گے۔ یہ یاد رہے کہ کشمیری بغیر کسی بیرونی امداد کے جدوجہد کرتے رہے ہیں اور وہ مزید تیز ہوگی۔