پاکستان منزل نہیں منزلِ مقصود کا وسیلہ

341

سمیع اللہ ملک
ہم اس معجزے سے کس طرح انکارکرسکتے ہیں کہ پاکستان،نزولِ قرآن،لیلتہ القدر کی بابرکت ساعتوں میں27 رمضان المبارک 1366ھ بمطابق 14/اگست 1947ء کووجودمیں آیااوریقیناًیہ اللہ تبارک وتعالیٰ کامسلمانانِ برِعظیم کیلئے ایک عظیم تحفہ سے کم نہیں،یوں یہ مملکتِ خداداکہلائی۔ریاست مدینہ کے بعد یہ دوسری اسلامی نظریاتی مملکت معرضِ وجودمیں آئی۔قائداعظم محمد علی جناح نے 25 جنوری 1948ء کوکراچی بارایسوسی ایشن کی سیرت کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے فرمایاکہ”میری سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ شر انگیزی کیوں کی جارہی ہے اوریہ پروپیگنڈہ کیوں ہورہاہے کہ پاکستان کاآئین شریعت پر مبنی نہیں ہو گا۔پاکستان میں اسلامی اصول اس طرح نافذالعمل ہیں جیسے 1300سال قبل نافذہوئے تھے ۔”بانی پاکستان کا اشارہ واضح طور پر ریاستِ مدینہ کی طرف ہے ۔
قیامِ پاکستان کا پس منظر ہندو کانگریس اور برطانوی سامراج کی مسلم دشمنی کا برِعظیم میں ایک ناپاک گٹھ جوڑ اور بھیانک و سیاہ باب پر مبنی ہے ۔ 1946ئمیں لندن کانفرنس کے دوران ہی ایک بڑی سازش کے تحت جواہرلال نہروکے دیرینہ دوست لارڈمائونٹ بیٹن کا گورنرجنرل مقررہونا،اس سازش میں شریک کرشنامینن ایک شدت پسند کیمونسٹ لیڈرجس نے بسترِمرگ سے اس سازش کا انکشاف کیا۔ اس نے ”فریڈم ایٹ مڈنائٹ” کے ایک مصنف کے سامنے یہ رازبھی افشاء کیاکہ ماؤنٹ بیٹن کوگورنرجنرل مقررکرانے کی جوکامیاب کاوش ہوئی،اس میں یہ بھی طے پایا تھا کہ یہ راز مسلمانانِ برِعظیم کو معلوم نہ ہونے پائے ،ورنہ ماؤنٹ بیٹن کی افادیت ختم ہو جائے گی۔واقعی راز فاش نہ ہوا، قائد اعظم اور لیاقت علی خان کانفرنس کے سلسلے میں وہاں موجود تھے ،انہیں بھی اس ناپاک سازش کی بھنک تک نہ پڑی۔
ماؤنٹ بیٹن نے ایٹلی وزیر اعظم کی ہدائت کے مطابق پہلے سرتوڑ کوشش کی کہ برِعظیم تقسیم نہ ہونے پائے ۔مسلم لیگ کا سربراہ اور مسلمانانِ برِعظیم کاقائداعظم محمد علی جناح متحدہ برِعظیم کے فلسفے کے خلاف ہمت،شجاعت،حوصلہ اورعزم کی چٹان بن گیااوردونوں مسلم دشمن سامراجیوں کوجھکناپڑا۔تقسیم کافیصلہ ہوالیکن اس کے پردے میں وہ سب کچھ کیاجوبقول قائداعظم محمدعلی جناح ”دشمن چاہتاہے کہ پاکستان بنتے ہی گائب(غائب)ہو جائے ”۔قائد اعظم محمدعلی جناح کے اس وجدان کاثبوت راقم نے لندن میں دارلعوام کی ڈیبٹ رجسٹرمیں دیکھاجس میں وزیراعظم برطانیہ ایٹلی نے ”انڈیا انڈی پینڈنٹ بل”پرتقریرمیں یوں کہاکہ”برعظیم کودوممالک میں تقسیم کرنا ایک عارضی عمل ہے ،بہت جلددونوں”دو نیشن ”ایک بڑی ڈومینئن میں متحدہوکر”کامن ویلتھ”میں شریک ہو جائیں گی۔”(کالم 1246) اس وقت کے حزبِ اختلاف کے رہنمائمیکڈونلڈنے بھی غیرمعمولی طور پروزیر اعظم سے متفق ہوکرکہاکہ”انڈیاانڈیپینڈنٹ بل میں ایسے جراثیم پائے جاتے ہیں کہ یہ دونوں ممالک زیادہ دیرتک علیحدہ نہ رہیں گے ۔”( کالم 1242)”
برِ عظیم کی آزادی کیلئے دارلعوام میں30جون1948ء تک کی مدت طے پائی تھی،ماؤنٹ بیٹن نے اس مدت کومختصرکرکے جلد از جلدآزادی دینے کافیصلہ کیا۔برِعظیم کی تقسیم کی خفت کی وجہ سے جلد بازی اس لئے کی کہ پاکستان سنبھل نہ پائے ۔قائداعظم نے اس جلدبازی کی سخت ترین مخالفت کی اوردارلعوام کے فیصلے کی مدت پرقائم رہنے کیلئے زوردیا ۔کسے کیامعلوم کہ اللہ تعالیٰ برِعظیم کے مسلمانوں کیلئے کیاعظیم تحفہ دیناچاہتاہے ۔ ماؤنٹ بیٹن نے اپنی ذاتی خوشی کیلئے برطانوی اوربرعظیم کے لیڈروں سے بغیرصلاح ومشورہ کے15 اگست1947ء کی تاریخ کا اعلان کردیا۔ یہ تاریخ وائسرے ہند لارڈماؤنٹ بیٹن کی زندگی میں بڑی خوشی کادن تھاجب وائسرائے ہندلارڈماؤنٹ بیٹن جنگِ عظیم دوم کے دوران برمامحاذ کاکمانڈرتھا’اسی تاریخ کو جاپان نے ہتھیار ڈالے تھے ۔
برعظیم کی آزادی اس سرنڈرکی دوسری سالگرہ کے موقع پردیناایک اورتاریخی کامیابی قراردے کرتاریخ میں خوش قسمتوں میں اپنانام لکھوانامقصودتھا۔اسے کیامعلوم کہ قائداعظم محمدعلی جناح کی مخالفت کی توپرواہ نہ کی لیکن ہندوراشٹرکے اصل حکمراں جوتشی اورستارہ شناسوں کی مخالفت کے سامنے ہتھیارڈالناپڑیں گے ۔جوتشیوں نے 15/اگست کو ”منحوس”قراردیدیا۔ ہندو رہنماتو خاموش رہے لیکن اس طاقتورطبقہ نے طوفان برپاکردیااوربزدل اورمکاروائسرائے ہندلارڈماؤنٹ بیٹن اس مخالف مہم سے بوکھلا گیا۔اس کی بوکھلاہٹ تب کم ہوئی جب جوتشیوں نے 14/اگست کو ”مبارک”قراردیا۔بزدل اور مکار وائسرائے ہندلارڈ ماؤنٹ بیٹن نے اس سیلاب کوروکنے کیلئے اپنی خواہش کوبرقراررکھتے ہوئے اورجوتشیوں کوبھی تسلی بخش طریقہ بتا کر بڑی چالاکی سے نئی تاریخ یوں پیش کی کہ آزادی کی تاریخ ”منحوس” کو”مبارک”دن کے قریب ترین آدھی رات14اور 15کی درمیانی شب بارہ بجے متعین کردیا۔ہندوجوتشیوں نے ٹھیک بارہ بجے پوجاپاٹ کے دوران بجانے والا”سنکھ”بجا کرآزادی کے حصول کامضحکہ طریقہ اپنایاحالانکہ قانون سازاسمبلی کواقتدار 15/اگست کوہی منتقل کیا گیااوردوسری طرف پاکستان کو پہلے ہی14/ اگست کواقتداراسمبلی کو منتقل کردیاگیاتھا۔
یہی انسانی مشقیں ہوئیں اورمسلم دشمن،بزدل اور مکار وائسرائے ہندلارڈماؤنٹ بیٹن خودہی اس ساعت کی طرف کھنچ کر آگیاجواللہ تعالیٰ کو منظورتھایوں14اور15اگست کی درمیانی رات 27 رمضان کاآغاز14اگست کوغروبِ آفتاب سے شروع ہوا۔اسی رات نزولِ قرآن اورلیلتہ القدر کی مبارک ساعتیں آن پہنچیں اور وہی ہواجو منظورِ خداتھا۔انہی بابرکت ساعتوں میں پاکستان عالمِ وجود میں آگیااور مملکتِ خداداد کہلایا۔14اگست1947ء پاکستان کا بچہ بچہ جانتاہے کہ یہ اسی کے مطابق ہے جوہجری سال میں27 رمضان المبارک 1366کوظہورپذیرہوا۔اس کی دینی فضیلت تو عالمِ اسلام میں نمایاں ہے اوراس کی ملی اہمیت بھی بہت اہم ہے ۔ 27 رمضان المبارک کے حوالے سے قیامِ پاکستان کی اہمیت کو نئی نسل تک روشناس کرانے اوراس پرعمل کرنے کیلئے قومی سطح پرجنگی بنیادوں پر لائحہ عمل تیارکرنے کی جواشد ضرورت تھی،قائد اعظم محمدعلی جناح ؒکے جلدانتقال کے بعد ہمارے بے عمل اورلالچی حکمرانوں نے اس پر بھرپورتوجہ نہیں دی لیکن میراوجدان اب بھی اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ اب بھی اگر قدرت کی طرف سے عنایت کردہ اس معجزہ نماریاست کے لئے ایسی منصوبہ بندی کی جائے جس کاہم نے اپنے پروردگارسے وعدہ کیا تھا تو ہم یقینًااپنی منزلِ مقصود پر پہنچ سکتے ہیں ۔
بقول قائداعظم محمد علی جناح ’’پاکستان منزل نہیں بلکہ منزلِ مقصودکاوسیلہ ہے ۔‘‘پاکستان اسلام کا قلعہ ہے ”اوریہ قلعہ اس وقت اسلام دشمن قوتوں کی گولہ باری کی شدید زدمیں ہے ۔اسے محفوظ کرنے کیلئے عوام جوطاقت کاسرچشمہ ہیں انہیں واپس انہی اصولوں کی طرف لوٹناپڑے گاجس کا ربِ کریم نے حکم دے رکھا ہے ۔بندوں کوبندوں کی غلامی سے نکال کراللہ کی غلامی میں دینا ہو گا اوراس کیلئے قرآن وسنت کے سر چشمے ہماراانتظارکررہے ہیں۔جس دن ہم اس مغربی جمہوریت کے فریب سے نکل کرصرف قرآن کواپناآئین مان کرواقعی قرآن وسنت کواپنی زندگی کے ہرشعبے میں نافذ کرلیااورمحمد عربیؐ کواپنارہبرمان لیاتویہ قوم ایک سیسہ پلائی ہوئی مضبوط دیوارکی طرح کامیابی وکامرانی کے تمام مدارج طے کرلے گی۔اللہ ہماراحامی و ناصر ہو۔ثم آمین!
اب بھی وقت ہے ،دوست دشمن کی تمیز میں فرق کرنا ہو گا۔کچھ نہیں بچے گا،صرف میرے رب کا نام جوحئی القیوم ہے اورجس نے اس دنیا کے نقشے پرپاکستان جیسی مملکت کومعجزاتی طورپرظہورپذیرکیاہے ۔
اک سوال کے اندر ہم نے کاٹی نصف صدی باندھے لاکھوں حساب
غلط ہی نکلا ہر اک حل کا لیکن انت جواب
ضرب جمع تفریق کے سارے کلئے برت لئے ازروئے تحقیق
ہر کوشش میں ہو جاتا ہے کچھ نہ کچھ تفریق
دیکھ تو کتنا اونچا ہے یہ ردّی کا انبار
تو ہی اب کچھ رحمت کر اے ربِّ غفار