حکومت سید صلاح الدین بنے

556

مبارک ہو! وزیراعظم ’’عمران احمد خان نیازی‘‘ نے کشمیر کی تشویش ناک صورت حال پر 7رکنی کمیٹی بنادی ہے۔ بھارت کے جارحانہ عزائم اور مقبوضہ کشمیر کی تیزی سے بگڑتی ہوئی صورتحال کے پیش نظر وزیراعظم نے یہ فوری اور اہم قدم اٹھانے کا فیصلہ کیا۔ قومی اسمبلی، سینیٹ، نیشنل سیکورٹی کونسل، ڈیفنس کمیٹی جیسے بڑے اداروں کی موجودگی میں ایک ایسی کمیٹی کا قیام ضروری تھا جو زیادہ قریب سے تماشا دیکھ سکے۔ وزیراعظم کے اعلان کے بعد کمیٹی کے معزز ارکان نے ایک اچھے نائی سے رگڑ رگڑ کر فیشل کروایا۔ حلیے کی نوک پلک سنواری۔ شلوار قمیص کو خوب کلف لگایا۔ اچکن پر استری بھی خود کھڑے ہوکرکروائی۔ جوتوں کو بھی تھوک لگا کر خوب چمکایا۔ شنید ہے کہ اراکین کمیٹی کی طوفانی تیاری اور وزیراعظم کے شقی القلب فیصلے سے نریندر مودی کی حکومت لرزہ براندام ہے۔ پورے ہندوستان میں تھر تھری مچی ہوئی ہے کہ کمیٹی سے ٹکر لی تو بھارت کے پرخچے اڑ جائیں گے۔ ہندوتوا کے حامی بھی نریندر مودی کو کوس رہے ہیں کہ نہ وہ مقبوضہ کشمیر کو بھارت میں ضم کرتے نہ پاکستان کے وزیر اعظم کے ہاتھوں یہ برے دن دیکھنے پڑتے۔ بہر حال اب پچھتانے سے کیا ہوسکتا ہے اب تو کمیٹی بن گئی۔
وزیراعظم عمران احمد خان نیازی کا پارلیمنٹ سے خطاب بھی بھارتیوں کے لیے مسئلہ بنا ہوا ہے۔ انہوں نے جب سے یہ اعلان کیا ہے کہ وہ ٹیپو سلطان کی گود میں بیٹھ کر بھارت سے ٹکر لیں گے ہر بھارتی کے لبوں پر ایک ہی سوال ہے ’’اب کیا ہوگا‘‘۔ اسرائیل کے بیلچے سے اہل کشمیر کی قبر کھودنے کے اس بھارتی اقدام کے جواب میں پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلایا گیا تو وزیر پارلیمانی امور اعظم سواتی کی طرف سے جو قرار داد پیش کی گئی اس میں وہ آرٹیکل 370 کا ذکر کرنا بھول گئے۔ اس بھول کو حکومت کے خواب خرگوش سے تعبیر کرتے ہوئے اپوزیشن نے ہنگامہ کھڑا کردیا حالانکہ بات صرف اتنی سی تھی کہ اعظم سواتی جہاں دیدہ کلر بلائنڈ ہیں۔ لاکھ اور کروڑ سے کم کے ہندسوں کو ہیچ سمجھتے ہیں جو انہیں کم ہی نظر آتے ہیں۔ وزیر اعظم نے اپنی تقریر دل پزیر میں ڈنکے کی چوٹ پر کہا کہ مقبوضہ کشمیر کو ضم کرنا آسان نہیں ہے۔ ہم اس معاملے کو سلامتی کونسل میں لے کر جائیں گے۔ سلامتی کونسل میں جانا ہمارا پرانا چسکا اور دیرینہ کمزوری ہے۔ جب تک ہم کسی مسئلے کو سلامتی کونسل میں نہ لے جائیں بے کیف سے رہتے ہیں۔ مسئلہ حل ہونا نہ ہونا تو اللہ کی مرضی پر منحصر ہے لیکن سلامتی کونسل میں جانے سے ہمارے حکمرانوں کو یک گونہ تسکین ملتی ہے کہ انہوں نے مسئلے کے حل کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی ہے۔ وزیراعظم نے عالمی برادری پر بھی زور دیا کہ وہ بھارتی اقدامات کا نوٹس لیں۔ عالمی برادری کا ہماری پریشانیوں کے حل میں وہی مقام ہے جو ہاتھ پر ہاتھ دھرے کسی حرام خور کی زندگی میں محنت مشقت کے ذکرکا ہوسکتا ہے۔
وزیر اعظم عمران احمد خان نیازی نے کہا ہے کہ انہیں شک تھا کہ نریندر مودی ہم سے مخلص نہیں ہے۔ یہ اعلان وزیراعظم کی اعلی بصیرت کا غماز ہے ورنہ تمام پاکستانیوں کو پہلے دن سے یقین تھا کہ نریندر مودی مسلمانوں سے انتہائی مخلص اور ان کی ترقی کا آرزو مند ہے۔ مودی کی اس ذہنیت کا ادراک وزیراعظم کی پا لیسیوں میں کیوں نظر نہیں آیا اس کی وجہ یہ تھی کہ مودی کے ارادوں سے آگاہ ہونے کے بعد کہیں ہماری شیردل افواج جنگی تیاریاں شروع نہ کردیں۔ کشمیر کا بھولا ہوا سبق پھر تازہ نہ ہوجائے۔ ہماری بہادر افواج نصف صدی سے بھارت سے مشرقی پاکستان کا بدلہ لینے کے لیے بے چین ہیں۔ کشمیر کے معاملے میں بھی وہ بھارت کے دانت کھٹے کرنے کے لیے بے قرار ہوگئیں تو یہ دوہرا بوجھ ان کے اعصاب کے لیے تباہ کن ثابت ہوسکتا ہے۔ وہ ڈیپریشن کی مریض بن سکتی ہیں۔
کور کمانڈر میٹنگ کے بعد آرمی چیف نے بیان دیا ہے کہ کشمیریوں کے لیے کسی بھی حدتک جائیں گے۔ پہلے تو ہم سمجھے کہ یہ کسی سیاست دان کا بیان ہے۔ پھسپھسا، بے وزن، لچکدار، جھوٹا آسرا دلانے والا۔ ہم آج تک پاکستان کے لیے کسی حدتک نہ جاسکے تو کشمیریوں کے لیے بھلا کیا کریں گے۔ یہ خطہ بھی اللہ اور امریکا کے طفیل ہمارے پاس ہے۔ 1971 میں امریکا نے بھارت کو مغربی پاکستان میں داخل ہونے سے روکا تھا۔ ہم بھارتی ردعمل میںکارروائی کرتے ہیں۔ ہم نے طے کرلیا ہے کہ ہم محض اپنی سرحدوں تک محدود رہیں گے۔ آگے بڑھ کر ہمیں کوئی کارروائی نہیں کرنی ہے۔ ہم اندروں بیں ہوگئے ہیں۔
ہماری تمام جنگی صلاحیتوں اور حکمت عملی کا مرکزو محور بھارت کو اپنی سرحدوں میں داخل ہونے سے روکنا ہے۔ بھارت مقبوضہ کشمیر میں چاہے جتنا ظلم وستم کرلے آئے دن پاکستان کی سرحدوں کی خلاف ورزی کرتا رہے۔ پاکستانی شہریوں کو شہید اور زخمی کرتا رہے۔ ہم بھارت سے احتجاج کرنے یا پھر حد سے حد جوابی فائرنگ میں مصروف ہیں اور اپنی اس دفاعی پالیسی پر نازاں ہیں۔ ہم یہ بھول گئے ہیں کہ دفاع ایک وقتی اور عارضی بندوبست ہوتا ہے۔ دشمن کے مقابل اپنے وجود کو برقرار رکھنے کا مستقل انتظام نہیں۔ سر باسل ہنری لڈل ہارٹ دفاع کو ایک ’’رکا ہوا حملہ Attack Halted‘‘ قرار دیتا ہے۔ اس کے بعد جب تک حملہ نہ کیا جائے کامیابی ممکن نہیں۔ جب تک کوئی قوم جارحانہ عزائم نہیں رکھتی اس وقت تک کسی قابل ذکر کامیابی کا حصول ممکن نہیں۔
عام طور پر کہا جاتا ہے کہ مسلمانوں کی اولین جنگیں دفاعی تھیں۔ یہ درست نہیں ہے۔ مدینہ میں اسلام کے مخصوص مفہوم اور تصورات کو زندگی کا ضابطہ حیات اور مرکزبنا دینے کے ساتھ ساتھ آپؐ ان تیاریوں میں بھی مصروف تھے جن کے ذریعے آپ کفر کی مادی طاقت کو مادی طاقت کے ذریعے مٹاسکیں۔ یوں آپؐ نے پہل کرتے ہوئے جہاد کی قوت سے ان رکاوٹوں کو ہٹانے کا فیصلہ کیا۔ اسلام کی دعوت کو مدینہ سے باہر پھیلانے کے لیے آپؐ نے ایک فوج تیار کی اور ازخود ایسے اقدامات کیے جن سے یہودیوں اور منافقین پر رعب طاری ہوا اور بڑی جنگوں کا ماحول پیدا ہوا۔ جزیرہ نما عرب میں گشت اور فوجی مہمات کی روانگی کے ذریعے آپ نے پہل کرتے ہوئے قریش کو چیلنج کیا جس کا نتیجہ غزوہ بدر کی صورت میں رونما ہوا۔ جو مسلمانوں کی فتح اور قوت میں اضافے کا باعث بنا۔ غزوہ خندق میں آپؐ نے دفاعی حکمت عملی اپنائی لیکن دفاع کو مستقل آپشن قرار دینے کے بجائے آپؐ نے اسے ایک رکا ہوا حملہ باور کیا اور مکہ پر حملہ کرکے اسے فتح میں تبدیل کردیا۔ جب رومی لشکر اسلامی سرحدوں پر جمع ہونا شروع ہوا تو آپؐ نے دفاع پر انحصار نہیں کیا بلکہ پورے عرب کو قابل حرب ٹروپس سے خالی کرکے تیس ہزار کا لشکر ’’جیش العسرہ‘‘ لے کر تبوک کی طرف روانہ ہوئے۔ مسلمانوں کی اس پیش قدمی اور جارحانہ کارروائی کا نتیجہ یہ نکلا کہ رومیوں نے تبوک سے پیچھے ہٹ کر شام میں محصور ہونے میں ہی عافیت سمجھی۔ آپؐ نے ثابت کردیا کہ اسلام کا تصور جنگ دفاعی نہیں جارحانہ ہے۔ مسلمانوں نے مدینہ تک محدود رہنے کے بجائے باہر کی طرف دیکھا اور پوری دنیا پر چھا گئے۔
مغربی اقوام نے یہ جارحانہ حکمت عملی مسلمانوں سے مستعار لے کر دنیا بھر میں کامیابیاں حاصل کیں۔ برطانیہ محض چار جزیروں کا چھوٹا سا ملک تھا لیکن اس پالیسی پر عمل کرکے اس نے صدہا سال دنیا کو اپنا غلام بنائے رکھا۔ جرمنی نے بیسویں صدی میں باہر کی طرف دیکھا اور اکیس برس کی قلیل مدت میں دنیا کی دو بڑی سلطنتوں کو روند ڈالا۔ اسرائیل پہلے دن سے اپنی سرحدوں سے باہر دیکھ رہا ہے۔ آج تمام عرب ممالک اس کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑے ہیں۔ پاکستان نے بھارت کے ساتھ چار چھوٹی بڑی جنگیں لڑیں لیکن کوئی فائدہ نہیں اٹھایا سوائے نقصان کے۔ ہم جارحانہ کے بجائے محض دفاعی حکمت عملی تک محدود ہوکر رہ گئے ہیں۔ آج ہم ایٹمی قوت ہونے، دنیا کی بہترین لڑاکا افواج رکھنے اور جدید ترین اسلحے سے لیس ہونے کے باوجودغریب کی جورو بنے ہوئے ہیں۔ کمزور اور بے بس۔ اقوام متحدہ اور عالمی بردری سے درخواستیں کرتے ہوئے لاچار۔