کشمیر بنادیا ہندوستان

620

دنیا نے پاکستانی مسلمانوں کو ’’لولی پاپ‘‘ دینے کا ٹھیکا لے لیا ہے۔ جب بھی پاکستان اور ہندوستان کے درمیان کو سنگین لمحہ آتا ہے یا تنازعات شدت کے ساتھ سر اٹھانے لگتے ہیں، دنیا کے کچھ ممالک اشک شوئی کے لیے بڑے بڑے بیانات داغ کر پاکستان کے مسلمانوں کے جذبات کو ٹھنڈا کرنے کے در پے ہوجاتے ہیں اور پھر ان کی پیٹھ سہلا سہلا کر آخر کار اس میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔
ایک جانب بھارت کشمیر، جس کو پاکستان 70 سال سے چیخ چیخ کر یہ کہتا رہا ہے کہ وہ پاکستان کی شہ رگ ہے، اس پر چھری چلا چکا ہے اور کشمیر کی حیثیت کو بالکل ہی بدل کر رکھ دیا گیا ہے تو دوسری جانب پاکستان کی سرد مہری اپنی جگہ لیکن اقوام عالم کا آنکھیں بند کر لینا ایک ایسا سنگین مسئلہ ہے جس پر سوائے کف افسوس ملنے کے شاید ہمارے پاس کوئی اور حل ہے ہی نہیں۔ رگ گلو کٹے یا پوری گردن ہی اڑا دی جائے، جب پاکستان ہی اپنی شہ رگ اور وہ کشمیر جس پر بھارتی درندے گزشتہ 70 برسوں سے ظلم و جور کا بازار گرم کیے ہوئے ہیں، کچھ کر گزرنے کے لیے تیار نہیں تو پھر اگر اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری انتونیو گوٹیرس یہ فرما رہے ہوں کہ ’’مقبوضہ کشمیر کی حیثیت کا فیصلہ یو این چارٹر کے مطابق ہوگا۔ ہم وادی کی صورتحال کا جائزہ لے رہے ہیں، اس خطے سے متعلق اقوام متحدہ کی پوزیشن اقوام متحدہ کے چارٹر اور سلامتی کونسل کے قابل اطلاق قراردادوں کے تابع ہے اور بھارت کے درمیان دو طرفہ تعلقات پر 1972 کے معاہدے، جسے شملہ معاہدہ بھی کہا جاتا ہے، کا ذکر کیا، جس میں لکھا گیا ہے کہ جموں و کشمیر کی حتمی حیثیت اقوام متحدہ کے میثاق کے مطابق پْر امن طریقوں سے طے کی جائے گی لہٰذا ایسے اقدامات سے گریز کیا جائے جن سے جموں و کشمیر کی حیثیت پر فرق پڑے۔ انہوں نے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی پابندیوں سے متعلق رپورٹس پر بھی تشویش کا اظہار کیا‘‘۔ ان کا یہ سب فرمانا ایک لولی پاپ سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا اور اس وقت ایک بین الاقوامی پالیسی کے مطابق یہ طے کر لیا گیا ہے کہ پاکستان اور پاکستانیوں کے جذبات کو ہر صورت میں قابو میں رکھا جائے گا اور اگر آگ پھر بھی ٹھنڈی نہیں ہوئی تو پھر ہر وہ حربہ جو کسی بے خوف قوم کو قابو میں رکھنے کے لیے ہر طاقتور استعمال کرتا رہا ہے، اس کو آزمانے سے بھی گریز نہیں کیا جائے گا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ کشمیر کے حل کا جب بھی ذکر آیا جو بات ہمیشہ سامنے آتی رہی وہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے حوالے ہی سے آتی رہی لیکن کیا اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری یہ بتانا پسند کریں گے کہ گزشتہ 70 سال سے یہ ادارہ بھنگ پی کر سوتا رہا ہے؟۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ کشمیر کا مسئلہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق ہی حل کیا جانا چاہیے لیکن کیا اقوام متحدہ اب تک قیامت آنے کا انتظار کرتی رہی ہے؟۔ یہ ساری لیت و لعل اس بات کا ثبوت ہے کہ جب بھی پاکستان کے عوام کشمیر کے معاملے میں جوش میں آتے ہیں، دنیا ان کے جذبات کو ٹھنڈا کرنے کے لیے ایسے ہی حرکت میں آجاتی ہے اور پھر مسئلہ کسی سرد خانے میں رکھ دیا جاتا ہے۔ بھارت نے کشمیر میں جو من مانیاں مچائی ہوئی ہیں اور ظلم و جبر کا جو رویہ اختیار کیا ہوا ہے، اس پر پاکستان میں شدید رد عمل پایا جاتا ہے۔ ہر جگہ جلسے ہورہے ہیں، جلوس نکالے جارہے ہیں اور ریلیوں کا انعقاد ہو رہا ہے۔ اسی سلسلے میں جماعت اسلامی کے امیر کی قیادت میں بھی ایک عظیم الشان ریلی کا انعقاد کیا گیا تھا جس میں انسانوں کا سمندر امڈ کر آگیا۔ سروں کو گنا جائے تو ان کا شمار مشکل ہو جائے اور جذبوں کو دیکھا جائے تو لہو شریانوں میں ٹھوکریں مارنے لگے۔ انہوں نے عوام کے ٹھاٹے مارتے ہوئے سمندر سے لہو گرمانے والی ایسی تقریر کی جو ہمارے حکمران یا سالار کو قوم سے خطاب کرتے ہوئے کرنی چاہیے تھی لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ قوم کے رہنما کسی بہت ہی گہری سوچ میں ڈوبے ہوئے ہیں یا شاید ان کی قوت فیصلہ جواب دے چکی ہے۔ امیر جماعت اسلامی نے بھارتی سفارت خانے کے سامنے کھڑے ہو کر قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’حکومت بھارتی ہائی کمیشن کو تالا لگائے اور اسلامی ممالک سے اپیل کرے کہ بھارت کے ساتھ تعلقات ختم کرکے مظلوم کشمیریوں کا ساتھ دیں۔ مشرف دور میں ایل او سی پر لگائی گئی باڑ کو توڑ دیا جائے۔ حکمران کشمیر بنے گا پاکستان کے نعرے ٹھنڈے کمروں میں بیٹھ کر لگاتے ہیں انہیں ایل او سی پر جاکر بھارت کو للکارنا ہوگا۔ پاک فوج کی قیادت سے بھی کہتا ہوں کہ جہاد فی سبیل اللہ کا تقاضا ہے کہ عملاً کشمیریوں کی مدد کی جائے۔ قوم کو اپنی فوج پر مکمل بھروسا اور اعتماد ہے لیکن ہمیں بھارتی فوج کے ناپاک قدم مظفر آباد کی طرف بڑھنے کا انتظا ر نہیں کرنا چاہیے۔ کشمیری عوام کو گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ پاکستان کے 22 کروڑ غیور عوام اور ایٹمی قوت کا حامل پاکستان آپ کی پشت پر ہے‘‘۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’’پاکستانی قوم کشمیر کے لیے ہر قربانی دینے کو تیار ہے۔ پاکستانی قیادت کو بزدلی چھوڑ کر غیرت و حمیت کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ وزیر اعظم مثالیں ٹیپو سلطان کی دیتے ہیں اور پوچھتے شہباز شریف سے ہیں کہ کیا کروں؟، وزیر اعظم واقعی کچھ کرنا چاہتے ہیں تو آئیں میں انہیں راستہ دکھاتا ہوں۔ وہ راستہ پوچھنا چاہتے ہیں تو سید صلاح الدین انہیں راستہ دکھانے کو تیار ہے‘‘۔
یہ جذبات صرف سراج الحق صاحب کے نہیں بلکہ قوم کے بچے بچے کے ہیں۔ حکمرانوں کا کہنا ہے کہ اگر انہوں نے آزاد کشمیر کی جانب دیکھا تو ہم پھر سوچیں گے، ان کا یہ موقف درست نہیں اس لیے کہ کشمیر پورے کا پورا ہمارا ہے اور بھارت نے ہمارے کشمیر پر کاری وار کردیا ہے۔ وہاں قتل عام جاری ہے اور وہ کشمیری جو پاکستان کے آسرے پر اپنی آزادی اور پاکستان سے الحاق کی جنگ کے لیے اپنا خون دے رہے ہیں، خواتین اپنی عزت و آبرو کی پروا کیے بغیر آزادی کی جد و جہد میں اپنے مردوں کا ساتھ دے رہی ہیں اور مائیں اپنے لخت جگروں کو قربان کر رہی ہیں اس پر یہ ظالمانہ خاموشی ایک سنگین مذاق اور اپنی ہی شہ رگ کے کٹانے کے مترادف ہے۔ پاکستان کی سول اور عسکری قوتوں کو ایسے موقع پر خاموش رہنے اور دنیا کے آگے صرف اپیلیں کرنے تک محدود نہیں رہنا چاہیے۔ اگر آج کشمیر اور کشمیریوں کی مدد نہیں کی جائے گی تو ممکن ہے کہ وہ کشمیر جو پاکستان کے زیر اثر ہے وہ بھی ہاتھ سے نکل سکتا ہے۔
اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری خواہ کوئی بھی جذبہ رکھتے ہوں، ہمیں اپنے عوام اور ان کے جذبات کو مد نظر رکھنا چاہیے اور بھارت کے اس جارحانہ رویے کا اسی جارحیت کے ساتھ جواب دینا چاہیے۔ وقت اگر ہاتھ سے نکل گیا تو ہمارے پاس سوائے کف افسوس ملنے کے اور کچھ بھی باقی نہیں رہے گا۔ امیر جماعت اسلامی جن جذبات کا اظہار کر رہے ہیں یہ وہ حقیقی جذبات ہیں جو ہر پاکستانی کے دل میں شعلوں کی طرح بھڑک رہے ہیں اور یہی وہ جذبات ہیں جن کو دنیا کسی نہ کسی طرح سرد کرنا چاہتی ہے۔ ایسے موقع پر اقوام متحدہ کے سیکرٹری کے بیانات ہوں یا صدر ٹرمپ کی لیپا پوتی، یہ سب لولی پاپ ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ہمارے حکومت اور ہماری عسکری قیادت ان لولی پاپ سے بہلنا پسند کرے گی یا پھر کوئی ٹھوس، مربوط اور بھر پور قدم اٹھائے گی۔ کیا ہونے والا ہے اور کیا نہیں یہ سب کچھ آئندہ آنے والے چند ہفتوں میں قوم کے سامنے آ جائے گا۔ اللہ سے یہی دعا ہے کہ ہمارے حکمرانوں کو سیدھی اور جرات مندانہ راہ پر چلنے کی توفیق دے اور دنیا میں پاکستانی قوم ایک غیرت مند قوم کے نام سے پہچانی جائے۔