بارش رحمت بھی زحمت بھی!

2147

ابھی چند روز پہلے تک گرمی نے قیامت ڈھا رکھی تھی اور بجلی کی لوڈشیڈنگ نے اسے عذاب میں تبدیل کردیا تھا، یہ عذاب قدرت کا نازل کردہ نہیں تھا بلکہ آدمی کے اپنے ہاتھوں کی کمائی تھی جسے وہ اپنے دونوں ہاتھوں سے سمیٹ رہا تھا۔ ہر طرف ہاہا کار مچی تھی، اس پر پانی کی قلت نے مخلوق خدا پر مصیبت کا پہاڑ ڈھا رکھا تھا، لوگ شدید گرمی میں پانی کی بوند بوند کو ترس رہے تھے اور حکمران خاموشی سے یہ تماشا دیکھ رہے تھے، ان کا کام تو رعایا پر حکمرانی کرنا تھا، بجلی پانی یا دیگر سہولتیں فراہم کرنا ان کی ذمے داری نہ تھی۔ بہرکیف گرمی کا زور ٹوٹا اور لوگوں کی جان میں جان آئی۔ اب برسات کا موسم ہے ملک کے طول و عرض میں بارشیں ہورہی ہیں، ایک زمانہ تھا جب یہ موسم محبتوں کا موسم کہلاتا تھا اس سے رومان انگیز تصورات وابستہ تھے، لوگ برسات کا جشن منانے کے لیے گھروں سے نکل پڑتے تھے۔ باغوں پارکوں اور سیرگاہوں میں پکنک کا سماں بندھ جاتا تھا۔ برسات کی جھڑی میں زندگی کا کارخانہ بھی چلتا رہتا تھا، دنیا کے کام بھی نہیں رکتے تھے۔ دفتروں، اسکولوں اور بازاروں کی رونق بھی بحال رہتی تھی اور برسات کا جشن بھی جاری رہتا تھا لیکن اب تو زمانہ ہی بدل گیا ہے۔ محکمہ موسمیات بارش کی پیش گوئی کرتا ہے تو دل دہلنے لگتے ہیں۔ بارش اللہ کی رحمت اور مخلوق کے لیے اس کا انعام ہے، اللہ کی کتاب میں بارش کا جگہ جگہ ذکر آیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ یہ بارش ہی ہے جس سے مردہ زمین جی اُٹھتی ہے اور انواع و اقسام کے پھلوں سے انسانوں کی جھولی بھر دیتی ہے، رحمتوں بھری اس بارش کو ہم نے اپنے اعمال سے زحمت بنادیا ہے، شہر کبھی صاف ستھرے ہوا کرتے تھے، بارش ہوتی تو سڑکیں دُھل کر چمک اُٹھتی تھیں اور پانی نالوں کے ذریعے نشیب میں بہہ کر دریا کا حصہ بن جاتا تھا۔ برساتی نالے ہر شہر میں ہوا کرتے تھے اور ان کی صفائی کا خاص خیال رکھا جاتا تھا تا کہ برسات میں پانی کا ریلا آئے تو اس کے بہنے میں کوئی رکاوٹ پیدا نہ ہو اور شہر کی سڑکیں اور گلیاں سیلابی ریلے سے محفوظ رہیں لیکن ترقی کے اس واویلے میں سارا نظام ہی تلپٹ ہوگیا ہے۔ برساتی نالے کچرے اور پلاسٹک شاپر سے بھر گئے ہیں ان کی صفائی کا کوئی انتظام نہیں ہے۔ نتیجہ یہ نکلا ہے کہ بارش ہوتی ہے تو نالوں کا کچرا بہہ کر سڑکوں اور گلیوں میں آجاتا ہے اور پورا شہر تعفن ہوجاتا ہے۔ کراچی کا یہ حال ہم نے ٹی وی چینلوں پر دیکھا ہے، یہ شہر جو کبھی عروس البلاد کہلاتا تھا آج اپنی تباہی و بربادی پر آنسو بہا رہا ہے۔ بارشوں میں دوسرے شہروں کا حال بھی کچھ زیادہ مختلف نہیں، لاہور کراچی کے بعد پاکستان کا دوسرا بڑا شہر ہے۔ اس شہر پر شریفوں نے کم و بیش چالیس سال تک حکومت کی لیکن حال یہ ہے کہ ذرا سی بارش ہو تو پورا شہر تالاب بن جاتا ہے۔ نکاسی آب کا کوئی منصوبہ اس شہر کے لیے نہیں بنایا گیا۔ البتہ اورنج ٹرین جیسے فضول منصوبے پر 260 ارب روپے ضائع کردیے گئے جو اہل لاہور کے لیے ایک ڈرائونا خواب بن گیا ہے اور عدالت عظمیٰ کی بار بار کی وارننگ کے باوجود اس کی تکمیل کی کوئی صورت آج تک پیدا نہیں ہوسکی۔ شہر کے جن علاقوں سے اس منصوبے کو گزارا گیا ہے ان کا حلیہ ہی بگڑ گیا ہے اور کتنے ہی تاریخی آثار تباہ ہوگئے ہیں۔ بارش ہوتی ہے تو یہ سارا روٹ تباہی و بربادی کی منہ بولتی تصویر بن جاتا ہے۔
بارش اللہ کی رحمت ہے اس کے ذریعے لاکھوں کروڑوں کیوسک صاف و شفاف پانی آسمان سے برستا ہے جس میں انسانوں کے لیے شفا بھی ہے اور ان کی پیاس بجھانے کا انتظام بھی، لیکن ہم اس پانی کو محفوظ اور ذخیرہ کرنے کا کوئی بندوبست نہیں رکھتے، اس طرح یہ پانی سڑکوں پر بہہ کر ضائع ہوجاتا ہے۔ البتہ جو پانی زمین میں جذب ہوتا ہے اس سے زیر زمین پانی کی سطح بلند ہوتی ہے اس طرح خشک کنوئیں سیراب ہوجاتے ہیں اور لوگوں نے گھروں میں پانی کے جو بور کرا رکھے ہیں ان میں بھی پانی آجاتا ہے۔ یہ قدرت کا بندوبست ہے جس سے عام لوگ فیض یاب ہوتے ہیں ورنہ حکومت نے تو پانی کی فراہمی سے خود کو بالکل ہی بَری الذمہ کر رکھا ہے۔ کراچی سمیت بہت سی شہری آبادیاں ایسی ہیں جہاں نہ کنوئیں ہیں نہ گھروں میں بور ہیں، وہاں بارشیں ہورہی ہیں، ہر طرف پانی ہی پانی ہے لیکن وہ پینے کے پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہیں۔ ابھی برسات مزید ایک ڈیڑھ مہینے چلے گی۔ طوفانی بارشیں ہوں گی، سیلاب آئے گا، بھارت نے خشک دریائوں میں کسی وارننگ کے بغیر پانی چھوڑنا شروع کردیا ہے، یہ سلسلہ جوں جوں بڑھے گا پنجاب کے دیہی علاقے زیر آب آتے جائیں گے۔ ہر سال ایسا ہوتا ہے اب کی دفعہ بھی آبادیاں سیلاب کی زد میں آئیں گی، لوگ بے گھر ہوں گے، ان کی فوری امداد اور بحالی کے لیے پہلے بہت سے فلاحی ادارے میدان میں ہوا کرتے تھے لیکن ایف اے ٹی ایف نے دہشت گردی کی روک تھام کی آڑ میں ان سب پر پابندی لگوادی ہے۔ اب صرف الخدمت فائونڈیشن ہی میدان میں سے وہ کتنا بوجھ اٹھاسکے گی؟ اللہ نہ کرے سیلاب کی صورت میں کوئی بڑی آفت پاکستان پر نازل ہو لیکن جو افتاد بھی پڑے گی وہ ہمارے ہی ہاتھوں کی کمائی ہوگی۔ بارش اللہ کی رحمت ہے لیکن اسے زحمت بنانے میں انسانوں نے کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے اور ہم شہر شہر اس کے دل خراش مناظر دیکھ رہے ہیں۔ اللہ ہمارے حال پر رحم فرمائے۔