کراچی میں ہلکی بارش کارکردگی دھو گئی

453

کراچی میں مون سون کی بارشوں کے دوسرے سلسلے کا جمعہ کی رات سے آغاز ہوگیا ہے ۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ بارش برسانے والے اس سلسلے کا زور ٹوٹ گیا ہے اور بہت زیادہ بارشوں کا اب اندیشہ نہیں رہا ہے جس کے بارے میں کہا جارہا تھا کہ کراچی میں شہری سیلاب کا خطرہ ہے ۔ سنیچر کو وقفے وقفے سے جو بارش ہوئی وہ سندھ حکومت اور بلدیہ کراچی دونوں کو ایک مرتبہ پھر سے آئینہ دکھاگئی ۔ پورے شہر میں جگہ جگہ پانی کھڑا تھا اور گاڑیاں اس میں ڈوبی ہوئی ۔ اس بات کا اظہار ان ہی صفحات پر پہلے بھی کئی مرتبہ کیا جاچکا ہے کہ مسائل کے حل کی طرف نہ تو سندھ حکومت سنجیدہ ہے اور نہ ہی بلدیہ کراچی ۔ سندھ میں پیپلزپارٹی ہی مسلسل دور اقتدار میں ہے اور بلدیہ میں متحدہ قومی موومنٹ مگر یہ دونوں پارٹیاںہی ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بد انتظامی اور کرپشن کا الزام ایک دوسرے پر ڈال کر گنگا نہا لیتی ہیں ۔ ان دونوں پارٹیوں کی نااہلی کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ جتنے بھی پل تعمیر کیے گئے ہیں ، ان کے آغاز اور اختتام پرتعمیری نقص کی وجہ سے ہر بارش میں کئی کئی فٹ پانی تالاب کی صورت میں کھڑا ہوجاتا ہے جس میں سے چھوٹی گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کا نکلنا تو ناممکن ہی ہوتا ہے اور اکثر بڑی گاڑیاں بھی اس میں خراب کھڑی نظر آتی ہیں ۔ اسی طرح شہر کی مختلف سڑکوں کے ان مقامات سے سب آگاہ ہیں جہاں پر پانی کھڑا ہوتا ہے ۔ اس پانی کو جب تک عملہ نہ نکالے ، اس وقت تک اس کی نکاسی ممکن نہیں ہوتی کہ اس کی وجہ تعمیر ی نقص ہے پانی کھڑا ہونے سے شہر کی سڑکیں ادھڑ گئی ہیں۔ گورنر ہاؤس ، وزیر اعلیٰ ہاؤس ، بلدیہ کراچی کے مرکزی دفتر کے آس پاس کا علاقہ ہی ملاحظہ کرلیں تو پتا چل جائے گا کہ بقیہ شہر کس حالت میں ہوگا ۔مجال ہے کہ ایک مرتبہ بھی نیا پل یا سڑک بناتے وقت اس بات کا خیال رکھا جائے کہ ایسی صورتحال نہ پیدا ہو۔ پیپلزپارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ کے لیڈر فوٹو سیشن کے لیے تو ضرور ہر بارش میں باہر نکل آتے ہیں ، اب اس میں تحریک انصاف کے گورنر اور رہنماؤں کا بھی اضافہ ہوگیا ہے مگر کوئی بھی کراچی کی اس صورتحال کا مداوا کرنے کے لیے تیار نہیں ہے ۔جن مقامات کے بارے میں معلوم ہے کہ یہاں پر پانی محض اس لیے کھڑا ہوتا ہے کہ تعمیری نقص کی وجہ سے تالاب بن جاتا ہے تو کم از کم اس نشیب کو تو بھر ہی دینا چاہیے کہ وہاں پر دوبارہ پانی نہ کھڑا ہو ۔مگر ایسا ایک بار بھی نہیں کیا جاتا کیوں کہ ہر مرتبہ بارش کے نتیجے میں کھڑے ہوئے پانی کی نکاسی کے نام پر ہنگامی طور پر کروڑوں روپے کے فنڈ جاری کیے جاتے ہیں اور یوں یہ حکومت سندھ اور بلدیہ میں قابض پیپلزپارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ کے لیے سالانہ بونس کا باعث ہوتے ہیں ۔ اگرکہیں کراچی میں لاہور جیسی بارش ہوگئی تو شاید کراچی کا ذکر پانی کے اندر ڈوبے ایک شہر کے طور پر کیا جائے ۔