معیشت کو دستاویزی بنانے کی حکومتی کوشش

747

حکومت نے تاجروں اور دکانداروں کا دیرینہ مطالبہ پورا کرتے ہوئے فکسڈ ٹیکس کی اسکیم متعارف کرا دی جس کے مطابق ڈیڑھ سو مربع فٹ تک کی دکان پر 20 ہزار سے 35 ہزار کا ٹیکس دینا ہو گا لیکن ان چھوٹی دکانوں میں جیولر، ہول سیلرز، ریل اسٹیٹ ایجنٹ، بلڈرز اور ڈویلپرز، ڈاکٹر، وکلا اور چین اسٹور شامل نہیں ہو گے جبکہ 300 مربع فٹ کے رقبے کی دکانوں سے 25 ہزار سے 40 ہزار سالانہ ٹیکس لیا جائے گا۔ دکانوں کا کوئی آڈٹ نہیں ہو گا اس طرح تاجروں سے 5 کروڑ یا اس سے زائد ٹرن اور پر ڈیڑھ سے 2 فی صد ٹیکس لیا جائے گا۔
ہمارے ملک میں صورت حال یہ ہے کہ تاجر برادری اور اسی طرح کے دوسرے کاروباری اور سروسز فراہم کرنے والے افراد ٹیکس نہیں دیتے اس وجہ سے پاکستان میں ٹیکس وصولیابی کی شرح ملک کی مجموعی قومی پیداوار (GDP) کے لحاظ سے بہت کم ہے۔ ٹیکس کا زیادہ تر بوجھ صنعتی اور تنخواہ دار طبقے نے اٹھایا ہوا ہے۔ بڑے بڑے میڈیکل اسٹور، گارمنٹ اسٹور، پینٹ اینڈ ہارڈویر اسٹور، بیکری اور مٹھائی کی دکانیں، گروسری اسٹور، دودھ اور دہی کی دکانیں، الیکٹرک اور فرنیچر اسٹور تمام ٹیکس کے دائرے سے باہر ہیں اس طرح ڈاکٹر حضرات جن کی روزانہ کی پرائیویٹ پریکٹس کی آمدنی لاکھوں روپے ہے وکلا جو اپنے کلائنٹ سے لاکھوں روپے فیس لیتے ہیں ٹیکس نیٹ میں نہیں ہیں، اسی وجہ سے پاکستان میں غیر دستاویزی معیشت کا حجم تقریباً دستاویزی معیشت کے برابر ہے۔ اس غیر دستاویزی معیشت کو دستاویزی بنانے کے لیے ماضی میں کوششیں ہوئیں مگر بھرپور مزاحمت کی وجہ سے ناکام ہو گئیں۔ پاکستان میں سروسز سیکٹرکا جی ڈی پی میں حصہ 60 فی صد ہے جبکہ ٹیکس ادا کرنے میں صرف 3 فی صد ہے اس طرح ملکی معیشت میں ریٹیل اور ہول سیلز کا حصہ 20 فی صد ہے لیکن ٹیکس کی کل وصولیابی میں ایک فی صد سے بھی کم ہے۔ تصور کریں کہ تنخواہ دار طبقہ 10 سے 30 فی صد تک ٹیکس ادا کرتا ہے جبکہ دکاندار حضرات 2 فی صد ٹیکس دینے کو تیار نہیں اور یہ معاملہ اس وقت اور بدتر ہو جاتا ہے جب حکومتی اخراجات ٹیکس کی آمدنی سے باہر ہو جاتے ہیں ارکان قومی اور صوبائی اسمبلی، وزراء اور مشیران کے اخراجات، وزیراعظم اور صدر اور وزرائے اعلیٰ کے اخراجات ان کے دوروں اور علاج معالجہ کے اخراجات نتیجہ اس کا یہ ہوتا ہے کہ آمدنی کم اور اخراجات بے حساب چنانچہ قرض پر گزارا کرنا پڑتا ہے۔
حکومت کی فکسڈ ٹیکس اسکیم کے باوجود تاجر اور دکاندار خوش نظر نہیں آتے۔ انہوں نے چار دن کی ہڑتال کا اعلان کیا ہوا ہے، 15 اور 16 اگست اور اس کے بعد 26 اور 27 اگست دوسری طرف صورت حال یہ ہے کہ حکومت نے کاروبار کرنا بھی بہت مشکل کر دیا ہے۔ بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافے کے بعد اب ہر ماہ تیل کی قیمتوں میں اضافہ کیا جا رہا ہے حالیہ اضافے کے بعد پٹرول تقریباً 118 روپے فی لیٹر اور ڈیزل 132 روپے فی لیٹر ہو گیا ہے جبکہ انٹرنیشنل مارکیٹ میں جولائی کے مہینے میں تیل کی قیمتیں کم ہوئیں بس اسی طرح ایل پی جی کا سلینڈر بھی مہنگا ہو گیا ہے جس سے پیداواری لاگت بڑھ گئی ہے افسوسناک بات یہ ہے کہ حکومت کے ساتھ ساتھ اپوزیشن بھی عوام کے مسائل پر خاموش ہے۔ اسے سینیٹ کے چیئرمین صادق سنجرانی کو ہٹانے کی بڑی فکر تھی تمام پارٹیاں مسلسل اسی معاملے پر اپنا وقت اور توانائیاں لگا رہی تھیں مگر تیل کی قیمتوں میں اضافے پر ٹھوس اور مضبوط آواز اپوزیشن نے نہ تو اسمبلیوں میں اٹھائی اور نہ ہی سڑکوں پر۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اپوزیشن کو بھی صرف اپنی سیاست کی فکر ہے عوام کے مسائل کی پروا نہیں۔
دوسری طرف شبر زیدی صاحب بار بار دہرا رہے ہیں کہ ہم نے کھانے پینے کی اشیاء پر کوئی ٹیکس نہیں لگایا جب آپ بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ کریں گے تو اس سے پیداواری لاگت میں کیا اضافہ نہیں ہوگا اسی طرح تیل کی قیمتوں میں اضافے سے ٹرانسپورٹ کے اخراجات کیا نہیں بڑھیں گے؟ یہ ایک بے معنی بات ہے اور عوام جو روازنہ کے حساب سے مہنگائی میں اضافے سے پریشان ہیں وہ حکومتی خوشخبریوں اور تسلیوں سے مطمئن نہیں ہوں گے۔