کیا آئی ایم ایف سے معاہدہ ناگزیر ہے

590

جاوید اکبر انصاری

آئی ایم ایف سے معاہدے کی حمایت کرکے ملک کی تمام دہریہ جماعت ثابت کررہی ہیں کہ وہ پاکستانی قوم کی غدار ہیں اور اس کو تباہ کرنے پر تلی بیٹھی ہیں۔ ہم ان کی چال سازی سے بخوبی واقف ہیں اور آئی ایم ایف سے اس معاہدے اور اس مروجہ معاشی حکمت عملی کو نفرت اور حقارت سے رد کرتے ہیں۔
بے حمیت دہریے ہم سے پوچھتے ہیں کہ سامراج کی اس پوجا کا متبادل کیا ہے۔ آوہم تمہیں بتائیں کہ اگر اس وقت پاکستان میں ایک اسلامی انقلابی حکومت قائم ہوتی تو وہ کیا کرتی۔
ہم پاکستان کے تقریباً 80 $ بلین بیرونی واجبات کی ادائیگیوں پر فی الفور پابندی (moratorium) لگا دیتے اور سامراجی اداروں حکومتوں اور بینکوں میں وسیع پیمانے پر مذاکرات کا آغاز کردیتے جیسا کہ حال میں کئی لاطینی امریکی ممالک (اکیوڈور، بولیویا، وینزویلا، پیرو اور یوروگوائے) اور ماضی میں مصر و تیونس نے کیا، ان مذاکرات کے ذریعے ان ممالک کے بین الاقوامی ادائیگیوں میں تمام تخفیف کی گئی ہے۔ ادائیگیوں کا توسیع شدہ دورانیہ مقرر کیا گیا ہے۔ ادائیگیوں کو مقروض ملک کی برآمدات سے حاصل شدہ رقوم سے وابستہ کیا گیا ہے۔ اور ایسے تمام معاہدے آئی ایم ایف کی سرپرستی سے محروم ہیں
یہ معاہدہ اس بات کے باوجود ہوئے کہ بولیویا اور اکیوڈور میں سامراج مخالف حکومتیں برسراقتدار ہیں (وینزویلا نے یکطرفہ کاروائی کی ہے) کوئی وجہ نہیں کہ ہم بھی سامراج کو اس قسم کا ایک معاہدہ کرنے پر مجبور کردیں جو واجب سود کی ادائیگی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم کردے، واجب اصل کی ادائیگی کو ہماری برآمدات کی آمدنی سے منسلک کردے اور واجبات کی ادائیگیوں کا ایک لچکدار طویل المدت دورانیہ (schedule) مقرر کیا جائے۔
سامراج کے لیے اس قسم کا معاہدہ کرنا مشکل نہیں کیونکہ پاکستان میں اس کی لگائی ہوئی رقوم عالمی سرمایہ کاری کا صفر اعشاریہ صفر، صفر، صفر فی صد ہے اور ہماری ادائیگیوں سے محرومی عالمی سرمایہ دارانہ نظام کوکسی خطرہ سے دوچار نہیں کرے گی، جن لاطینی امریکی ممالک سے اس قسم کے معاہدے کیے گئے ان کے بین الاقوامی عمومی واجبات پاکستان سے 7گنا زیادہ ہیں لیکن فرض کیجیے سامراج اس قسم کے کسی معاہدے پر تیار نہیں ہوتا تو کیا ہوگا کیا اس کی وجہ سے امریکا ہم پر حملہ کرکے چین کے ساتھ تیسری جنگ عظیم چھیڑدے گا۔ سرمایہ داری کی چھ سوسالہ تاریخ میں کبھی مقروض ممالک سے واجبات کے حصول کے لیے جنگ لڑی گئی اور اس حماقت کوئی امکان نہیں۔ زیادہ سے زیادہ ہم پر Sanction عائدکردی جائیں گی جیسا کہ 2000-1999 میں جب ہم نے نیوکلیئر دھماکا کیا تھا تو ہم پر نافذ کیے گئے تھے اوپر ہم دیکھ چکے ہیں کہ اس عمل سے ہمیں فائدہ ہی پہنچا ایک اس سال مجموعی آمدنی کی شرح نمو 5فی صد رہی حال ہی میں برادر ملک اسلامی جمہوریہ ایران پر سخت ترین Sanction لگائے گئے ہیں اور اس کے باوجود پچھلے 5سال سے اس کی معیشت 6فی صد اوسط کی رفتار سے ترقی کررہی ہے ہم نے اوپر یہ بھی دیکھا کہ ملک میں 93فی صد سرمایہ کاری اندرونی ذرائع سے ہوتی ہے اور پیداوار کا 90فی صد سے زیادہ حصہ یہیں فروخت کیا جاتا ہے نہ ہماری معیشت بین الاقوامی تجارت پر منحصر ہے نہ بین الاقوامی سودی اور سٹہ کے بازاروں پر۔ اگر ہم پر Sanction عائد کیے گئے تو ہم 2020-2019 میں وہ 1400بلین روپے جو بیرونی سود اور اصل کی ادائیگیوں کے لیے وقف کیے گئے ہیں ادا کرنے سے انکار کردیتے اور یہ پیسہ بھی ملک میں زراعت، صنعت، تعلیم اور صحت کے فروغ کے لیے استعمال کیا جاتا۔
ہماری حکومت documentation اور چھوٹے اور اوسط درجہ کے کاروبار پر نگرانی اور تعدیب کی مہمات کو فی الفور منسوخ کردیتی documentation کے ذریعے سامراجی پٹھو پوری معیشت کو سود اور سٹے کے بازاروں میں جکڑ دینا چاہتے ہیں اور حلال رزق کی فراہمی کو مشکل سے مشکل بنادینا چاہتے ہیں یہ اس لیے کہ وہ اسلام دشمن ہیں اور جانتے ہیں کہ ہمارے روایتی بازار اور کاروباری حلقہ اسلامی انقلاب کا ہراول دستہ ثابت ہونے کی اہلیت رکھتے ہیں۔
ہم تمام بینکوں اور مالی اداروں کو قومی تحویل میں لے لیتے اور زر (M1,M2, M3) کے نظام اجرا اور تخفیف میں بنیادی تبدیلی لا کر اسٹیٹ بینک مارکیٹ بیسڈ مانیٹری پالیسی (Market based monitory policy) ختم کر کے Credit planning کے اس نظام کو دوبارہ قائم کرنے پر مجبور کرتے جو 1975سے 1989 تک ملک میں نہایت کامیابی سے چلتا رہا۔ اسٹیٹ بینک کے تمام ماتحتانہ تعلقات آئی ایم ایف اور دیگر سامراجی فائنینشل اداروں سے منقطع کردیتے۔
ہم روپے کا غیر ملکی کرنسی میں شرح تبادل (Exchange rate) محدود کردیتے ہم اندرونی بیرونی زر (Foreign currency market) کو ختم کردیتے اور Foreign currency کے اجرا کی ذمے داری سرکار کو سونپ دی جاتی جیساکہ 1978 سے 1947 تھا۔
ہم بیرونی ترسیل زر پر سخت ترین پابندیاں عائد کرتے اور اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کرتے کہ پاکستان سے دولت غیرممالک منتقل کیے جانے کے تمام دروازے یکسر بند کردیے جائیں۔ ہم تمام بیرونی قرضہ جات اور بھیک کی وصولیابی پر پابندی لگا دیتے۔
ہم پیداواری شعبوں میں سرکاری سرمایہ کاری اس سطح پر لیجاتے جو وہ 1980-1975 کے دورانیہ میں تھی۔ 19-2018 میں سر مایہ کاری قومی مجموعی سرمایہ کاری کا 6فی صد تھی اور صنعتی اور زرعی شعبے میں سرکاری سرمایہ کاری کو کوئی وجود نہیں تھا۔ سرکاری سرمایہ کاری کے عدم وجود کے نتیجے میں پاکستان کی بھاری صنعتیں روبہ زوال ہیں اور ہم ٹیکنالوجیکل ایجادات سے فائدہ اٹھانے کے قابل نہیں رہے ہیں۔ پاکستانی معیشت کی اصل کمزوری حکومتی خسارہ (public deficit) میں اضافہ نہیں بلکہ وہ ساختی انجماد (Structural state) ہے جس کی وجہ سے پاکستانی محنت کشوں کی پیداواری صلاحیتوں میں اضافہ نہیں ہوسکتا ہے۔
پیداواری سکت میں اضافہ کے لیے بھاری اور Technology initiatives صنعتوں کا بڑھا ضروری ہے اور یہ صرف سرکاری سرمایہ کاری کے ذریعہ ہی ممکن ہوتا ہے۔ بھاری صنعتوں مشینری، الیکٹرونکس، ہارڈویئر، کیمیکل اور پیٹرولیم صنعتوں میں فروغ کے ذریعہ محنت کشوں کی پیداواری صلاحیتوں میں اضافہ اسلامی انقلابی حکومت کے معاشی ایجنڈے کا ایک اہم جزو ہوگا۔
پاکستان میں ایک اسلامی انقلابی حکومت کے قیام کا کوئی فوری امکان موجود نہیں۔ لیکن اس انقلاب کی راہ ہموار کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اسلامی جماعتیں مخلصیں دین کے ذریعے عوام کو باور کرائیں کہ اسلامی جماعتوں نے سامراجی عزائم کو پسپا کرنے کے لیے ایک مربوط اور قابل عمل حکمت عملی مرتب کر رکھی ہے اور اگر اس حکمت عملی کی تنفیذ کا موقع فراہم کیا گیا تو ہم پاکستان کو سامراجی گرفت سے نجات دلاسکتے ہیں۔