اگر یہ صحیح ہے تو اس میں غلط کیا ہے؟

481

 

 

پاکستان کی ۱۹۴۷ء کی تاریخ کے آئینے میں اگرجھانک کر دیکھا جائے تو کراچی شہر کی آبادی آج کے مقابلے میں نہ ہونے کے برابر تھی۔ اس وقت جو بھی آبادی تھی اس کا ستر فی صد گوٹھوں میں آباد تھا۔ ساحل سمندر کے ساتھ مچھیرے آباد تھے جن کا انحصار مچھلی کی تجارت پر تھا۔ سمندر سے فاصلے پر آباد، آبادی زیادہ تر کاشت کاری کرتی تھی اس لیے کہ ملیر ندی اس وقت پانی کی دولت سے مالامال تھی جس کی وجہ سے اس کے کنارے کنارے میلوں دور تک میٹھا پانی پایا جاتا تھا۔ باغات یہاں کی بڑی دولت تھے جن میں امرود کے باغات بہت نمایاں تھے۔ اس سے دور دیگر گوٹھ مال مویشی بھی پالتے تھے اور ضروری اشیا کی تجارت کرتے تھے۔ شہر میں رہنے والے دیگر تجارتی سامان اور درآمد و برآمد سے وابستہ تھے۔ صنعتیں تھیں لیکن وہ بہت بڑے پیمانے پر نہیں تھیں لیکن پاکستان بننے کے بعد اچانک کراچی شہر پر آبادی کا ایک بہت بڑا بوجھ آن پڑا لیکن یہ آنے والے کسی کے لیے بوجھ نہیں بنے بلکہ انہوں نے کراچی کا نقشہ ہی بدل کر رکھ دیا۔ وہ شہر جو کبھی صرف مچھیروں کی آماج گاہ تھا، صنعتوں کا ایک بہت بڑا منبع بن گیا، زندگی بدل گئی، اونٹ گاڑیاں اور گدھا گاڑیاں بند ہو گئیں اور ان کی جگہ ہلکی اور بھاری مال بردار گاڑیوں نے لے لی۔ سائیکل رکشوں اور گھوڑا گاڑیوں کی جگہ آٹو رکشوں، ٹیکسیوں، منی بسوں اور بسوں نے لے لی۔ اسکول بن گئے، کالج کھل گئے اور یونیورسٹیاں قائم ہوگئیں۔ بڑے بڑے فلاہی ادارے بنے، اسپتال بنے اور بے شمار تعمیرات ہوئیں اور دیکھتے دیکھتے یہ پاکستان کا سب سے بڑا شہر اور معاشی حب بن گیا۔ یہی نہیں بلکہ یہ دنیا کے چند بڑے بڑے شہروں میں شامل ہوگیا۔
پاکستان کے تمام شہروں کے مقابلے میں یہاں روزگار کے اتنے مواقع مہیا ہوگئے کہ پوراپاکستان کراچی میں دوڑ دوڑ کر آنے لگا اور اس کی چند ہزار کی آبادی کروڑوں سے تجاوز کر گئی۔ کراچی کی جانب پاکستان کے ہر صوبے اور شہر سے آنے کا سلسلہ مسلسل جاری ہے اور اگر دیگر شہروں میں ترقی کی رفتار اسی طرح سست روی کا شکار رہی تو ہوسکتا ہے ایک کراچی ہی آبادی کے لحاظ سے آدھے پاکستان سے بھی زیادہ ہو جائے۔ اس ساری صورت حال سے ہوا یوں کہ وہ لوگ جو یہاں کے اصل رہائشی کہلاتے ہیں یا وہ کئی صدیوں سے آباد چلے آرہے ہیں وہ اس حد تک اقلیت میں جا چکے ہیں کہ اب وہ شاید کبھی اس شہر میں وہ حیثیت حاصل نہ کر سکیں جو ہر شہر کی مقامی آبادی کو حاصل ہوتی ہے۔
ان کے ساتھ ایک المیہ تو یہ ہے کہ وہ اقلیت کا شکار ہوئے لیکن اس المیہ سے بڑھ کر المیہ یہ ہے کہ وہ بہت سارے معاملات میں نئے آنے والوں سے کوسوں دور رہ گئے۔ ان میں سے اب بھی یقینا بہت سارے ایسے خاندان ہیں جو نئے آنے والوں سے دسیوں گنا خوشحال ہیں لیکن دو معاملات ایسے ہیں جو ان کو کبھی نئے آنے والوں سے آگے نہیں نکلنے دیں گے جس میں ایک تعلیم سے دوری ہی نہیں بہت زیادہ دوری اور دوسری اہم ترین بات یہ کہ ان کی واضح اکثریت اپنی پرانی بود و باش کو بدلنے کے لیے قطعاً تیار نہیں۔ اسی طرح پرانے اسٹائل میں رہنا، اسی طرح مکانات بنانا، پان اور گٹکوں، سگریٹ اور بری لتوں میں مبتلا رہنا اور شہروں میں آکر آباد ہونے سے اجتناب جیسی روایتوں نے انہیں نئے آنے والوں سے بہت ہی مختلف بنا دیا جس کی وجہ سے یقینا وہ احساس محرومی کا شکار نظر آتے ہیں۔ بات کو یہاں تک لاکر میں گوادر کی تازہ ترین صورت حال بیان کرنا چاہوں گا اور پھر کراچی اور گوادر کا تجزیہ ایک اور انداز میں کرکے قارئین کے سامنے یہ سوال رکھوں گا کہ ماضی میں کراچی کی مقامی آبادی کے ساتھ جو ہوا کیا گوادر کی آبادی کے ساتھ بھی وہی کچھ ہونے والا ہے۔ اگر ایسا ہی ہے تو کیا ’’غلط‘‘ ہے؟
’’دی بلوچستان پوسٹ‘‘ میں جو معلومات شائع ہوئی ہیں وہ گوادر کی مقامی آبادی کے لیے نہایت تشویش ناک ہیں۔ گوادر جو پاکستان کی ایسی قدرتی بندرگاہ ہے جو نصیب ہی سے کسی ملک کو ملتی ہے۔ ماضی کی حکومتوں نے اسے جس بے رحمی کے ساتھ نظر انداز کیا اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے وہ کم ہے۔ صرف بندر گاہ ہی کو نہیں، پورے بلوچستان سے جس انداز میں چشم پوشی سے کام لیا گیا وہ ایک سنگین جرم ہے جبکہ پورا بلوچستان ہر قسم کی معدنیات کے علاوہ سونے، چاندی، تانبے اور یورینیم کے ذخائر سے لدا پڑا ہے اور اس کے پاس ہزار میل سے بھی زیادہ طویل سمندر ہے جس میں کراچی اور گوادر کی طرز کی بیسیوں بندگاہیں بنائی جا سکتی ہیں لیکن پاکستان کی بد قسمتی ہے کہ اس نے ان پوشیدہ اور عیاں خزانوں سے اپنے آپ کو مستفید نہیں کیا۔ ’’دی بلوچستان پوسٹ‘‘ کی رپورٹ کے مطابق بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر میں پانچ لاکھ چینی باشندوں کی آبادکاری کے منصوبے پر گوادر سمیت بلوچستان بھر میں شدید تشویش پائی جاتی ہے، بلوچ آزادی پسند تنظیمیں گوادر پورٹ منصوبے کے شروع ہونے سے ہی وقتاً فوقتاً کہتی آرہی ہیں کہ یہ منصوبہ بلوچوں کی آبادی کو اقلیت میں بدلنے کی پاکستان اور چین کی مشترکہ بھیانک سازش ہے۔ دی بلوچستان پوسٹ کے نامہ نگار شہداد بلوچ‘‘ کا کہنا ہے کہ گزشتہ دنوں لندن میں منعقد ہونے والی تقریب میں سرمایہ کاری کرنے والی کمپنی نے گوادر میں مکانات تعمیر کرنے کا 500 ملین ڈالرز کے منصوبے کا اعلان کیا، منصوبے کے پہلے مرحلے میں پانچ لاکھ چینی باشندوں کے لیے مکانات تعمیر کیے جائیں گے جو ممکنہ طور پر 2021 تک گوادر میں باقاعدہ طور پر آباد ہوجائیں گے۔ چائنا پاک ہلز کے نام سے یہ رہائشی منصوبہ چائنا پاک انویسٹ منٹ کارپوریشن اور ٹاپ انٹرنیشنل انجینئرنگ کارپوریشن کے اشتراک سے بنے گا، اس رہائشی منصوبے کی وجہ سے چین اور پاکستان کے پیشہ ور لوگوں کی لاکھوں کے حساب میں آبادکاری ہوگی۔ شہداد بلوچ نے اس بارے میں گوادر کے صحافی رسول بخش سے جب پوچھا کہ وہ اتنی بڑی تعداد میں چینی باشندوں کی آبادکاری کو کیسے دیکھتے ہیں، جس پر ان کا کہنا تھا ہمارے شہر کی آبادی 1998 تک محض 85,000 تھی اور گوادر پورٹ بننے کے بعد شہر کی آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے، حالیہ مردم شماری کے اعداد و شمار کے مطابق گوادر کی آبادی 263,514 ہوگئی ہے۔ پانچ لاکھ چینی باشندوں کے علاوہ پنجاب اور دیگر علاقوں سے لوگوں کو یہاں آباد کرنے کے بعد بلوچ اقلیت میں بدل جائیں گے۔ ماہی گیری کے شعبے سے منسلک مقامی مچھیرے ’’داد رحیم‘‘ نے مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ گوادر پورٹ منصوبے کے افتتاح کے وقت حکمرانوں نے ہماری تعلیم و ترقی کے لیے بلند و بانگ دعوے کیے تھے کہ ہمارے بچوں کو ٹیکنیکل تعلیم دیکر گوادر پورٹ میں ملازمتیں دی جائیں گی اور ماہی گیروں کے لیے ’’فشرمین ٹاؤن‘‘ بنایا جائے گا، نہ تو ہمارے بچوں کو ٹیکنیکل تعلیم دی گئی، نہ ملازمتیں ملیں اور نہ ہی ہم ماہی گروں کے لیے گھر بنائے گئے، ہمیں ہماری سرزمین سے بیدخل کرکے چینی اور دوسرے لوگوں کو آباد کیا جارہا ہے۔
کراچی سے تعلق رکھنے والے اشتیاق احمد جو گزشتہ کئی سال سے گوادر میں رئیل اسٹیٹ کے کاروبار سے جڑے ہوئے ہیں، انکا کہنا تھا کہ پلاٹوں کی قیمتیں بڑھیں یا کم ہوں، خریدار ہمیشہ موجود ہوتے ہیں۔ ہمارے نمائندے نے پوچھا کیا خریدار بلوچ ہیں؟ تو انکا کہنا تھا کہ نہیں، خریدنے اور فروخت کرنے والے دونوں بلوچ نہیں ہیں، اکثریت کا تعلق پنجاب، خیبر پختون خوا اور کراچی سے ہے کچھ غیر ملکی بالخصوص چین سے تعلق رکھنے والے لوگ بھی ہیں۔
اب جو بات میں کہنے جا رہا ہوں وہ کچھ یوں ہے کہ کراچی میں مقامی آبادی اقلیت کا شکار ہوئی وہ ایک المیہ ضرور تھا اور ہے لیکن مقامی آبادی کا مسلسل وقت کے ساتھ نہیں دوڑنا ان کے لیے ہر قسم کی ترقی کی دوڑ سے بہت پیچھے رہ جانے کا سبب بن گیا اور وہ تاحال اس دوڑ میں شریک ہونے کے لیے تیار نہیں۔ یہی کچھ گوادر کی بلوچ آبادی کے ساتھ ہونے جا رہا ہے لیکن دونوں میں فرق یہ ہے کہ کراچی کے بلوچ تو کراچی کو درجہ بدرجہ بڑھتے دیکھ کر بھی اپنے آپ کو بدلنے کے لیے تیار نہ ہوئے لیکن گوادر کے بلوچوں کو ہم نے گوادر کی تقدیر کا شریک بنانا ہی پسند نہیں کیا۔ ممکن ہے میں کچھ زیادتی سے کام لے رہا ہوں لیکن کیا منصوبے چندگھنٹوں میں بن جایا کرتے ہیں؟ جس گوادر کو پورٹ بنانے کا خیال پاکستان کو آیا ہے وہ بہت عرصے پہلے آیا تھا جس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ گوادر کے منصوبے کو شروع کرنے سے پہلے بلوچستان کے لوگوں سے وعدہ کیا گیا تھا کہ وہ مقامی لوگوں کو ہر قسم کی ضروری تربیت دیں گے تاکہ انہیں اس پروجیکٹ کے ہر شعبے میں ملازمت مل سکے لیکن بعد میں ان کے ساتھ وعدہ خلافی کی گئی اور ان کو عملاً اس پروجیکٹ سے دور کر دیا گیا۔ اگرایسا (دانستہ یا نادانستہ) نہیں کیا جاتا اور حسب وعدہ منصوبے کے خیال کے ساتھ ہی مقامی آبادی میں سے ہر قسم کے ہنر مند لوگ، بڑی تعداد میں تربیت دینے کے بعد لے لیے جاتے تو آج اور آنے والے دنوں میںہزاروں مقامی لوگ برسر روز گار ہو سکتے تھے۔ میں اب بھی یہی کہوںگا کہ وقت ابھی نہیں گزرا ہے اور ہنگامی بنیادوں پر اس نیک کام کو شروع کیا جا سکتا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ میں تمام اہل قلم سے گزارش کروںگا کہ وہ اس سلسلے میں آواز اٹھائیں تاکہ اگر ماضی میں کوئی چوک ہوگئی ہے تو مستقبل میں اس کا ازالہ کیا جا سکے۔ امید ہے کہ میری اس بات پر توجہ دی جائے گی اور اس سلسلے میں بھی لکھنے والے اپنا اپنا حصہ ضرور ڈالیں گے۔