بلوچستان کے وسائل کو عوام پر خرچ کیا جائے، مولانا عبدالحق ہاشمی

189

 

کوئٹہ (نمائندہ جسارت) امیر جماعت اسلامی بلوچستان مولانا عبدالحق ہاشمی نے کہا ہے کہ بلوچستان معدنی ذخائر کے لحاظ سے ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہے، یہاں سیندک پروجیکٹ گزشتہ کئی سال سے تانبے اور سونے بڑے پیمانے پر فراہم کر رہاہے، ریکوڈک کا ذخیرہ دنیا کا اب تک دریافت شدہ سب سے بڑا منصوبہ ہے، اسی طرح صوبے میں کوئلہ، گیس وتیل کرومائٹ لوہا اور دیگر بے شمار قیمتی معدنیات موجود ہیں۔ اسی پس منظر میں ہماری حکومتی لاعلمی ونااہلی اور ناپائیدار منصوبہ بندی کے باعث ہمیں فائدے کے بجائے نقصان ہورہا ہے، حالیہ دنوں میں عالمی عدالت کا ریکوڈک پر فیصلہ 6 ارب ڈالر جرمانہ اس کی مثال ہے، جس میں حکومت بلوچستان کی غلط تکنیکی منصوبہ بندی اور عدالت عظمیٰ کی چشم پوشی بنیادی سبب ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے جماعت اسلامی کے صوبائی سیکرٹریٹ میں اسلامک فقہ اکیڈمی کے زیر اہتمام فقہی سیمینار ’’معادن ورکاز کا شرعی حکم ‘‘سے مہمان خصوصی کی حیثیت سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ سیمینار کی صدارت فقہ اکیڈمی کے صدر مولانا عبدالرحیم نے کی۔ اس موقع پر سیمینار سے علمائے کرام، دانشور علامہ ہاشم موسوی، ڈاکٹر عطاالرحمن، فقہ اکیڈمی کے ڈائریکٹر ڈاکٹر مصباح اللہ صابر، پروفیسر مولانا عبدالخالق، مفتی سعد ابوسعید، مفتی ریاض احمد ثاقب، حافظ نور علی اور مولانا عبدالواسع قلندرانی نے خطاب جبکہ اس موقع پر محقیقین، فقہا وعلمائے کرام نے اپنے اپنے مقالے بھی پیش کیے اور شرکا کے سوالات کے جوابات دیے۔ اس موقع پر فقہ اکیڈمی کے ڈائریکٹر ڈاکٹر مصباح اللہ صابر نے اکیڈمی کی تعارف رپورٹ وآئندہ لائحہ عمل کے حوالے سے بریفنگ دی۔ فقہی سیمینار سے مولانا عبدالحق ہاشمی، مولانا عبدالرحیم، علامہ ہاشم موسوی، ڈاکٹر عطاالرحمن، ڈاکٹر مصباح اللہ صابر اور پروفسیر مولانا عبدالخالق نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج کا یہ سیمینار خاص طور پر اسی موضوع پر اس لیے رکھا گیا ہے کہ اسلام کے آفاقی اور فطری اصولوں کی روشنی میں معدنیات سے استفادے کی اسلامی رہنمائی کے اصولوں کو متعارف کرایا جائے تاکہ آبادی کے لوگ اور بلوچستان کے شہری اپنی معدنیات سے درست طور پر استفادہ اُٹھا سکیں اور حکومتیں اور اس کے متعلقہ ادارے غلط فیصلوں سے عوام کو نقصان نہ پہنچا سکیں۔ بلوچستان علمی طور پر وسیع زرخیز علاقہ اور یہاں علمی کام کے بہت مواقع ہیں، منافرت، تعصب، نفرت ولسانیت اور فرقہ واریت ختم کرنے کی ضرورت ہے، ملک میں عدل وانصاف کی اسلامی حکومت ہوگی تو عوام کو ان ذخائر وخزانوں اور معدنیات سے بہتر طریقے سے استفادے کا موقع ملے گا۔ اٹھارویں ترمیم سے قبل وفاق نے صوبوں کے عوام کے جائز حقوق کھائے تھے جبکہ اب اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبائی حکمران عوام پر وسائل خرچ کر نے کے حوالے سے صوبائی حکمران رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ یہ حکمران چاہتے یہی ہیں کہ وسائل عوام پر خرچ نہ ہوں بلکہ چند خاندان اس پر قابض اور اس سے استفادہ کرسکیں۔ اسلامی حکومت قائم ہوگی، اسلامی قوانین رائج ہوں گے تو صوبے کے مظلوم عوام کو ان کا جائز معاشی، آئینی حقوق ملیں گے۔ بلوچستان کے وسائل کو یہاں کے عوام کی حالت بدلنے پر خرچ کیا جائے، صوبہ وسائل سے مالامال مگر عوام پریشانی کی دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں۔ سیندک ریکوڈک کے خزانوں سے غیر ملکی اور ہمارے حکمران مالامال ہورہے ہیں۔ ملک میں کوئی قانون نہیں، حکومت کو اپنے وسائل ومعدنیات ، معاہدات اور اختیارات کا معلوم نہیں۔