فلاحی اداروں میں ایماندارہونا جرم ہے؟

262

قموس گل
خٹک
الیکٹرونک یا پرنٹ میڈیا سے یہ توقع رکھنا کہ وہ مزدوروں کے ساتھ ہونے والے غیر انسانی سلوک اور روزمرہ روا رکھے جانے والے مظالم پر کوئی پروگرام کرے یا مزدور رہنمائوں کے نقطہ نگاہ کو عوام تک پہنچائے نہ صرف خام خیالی ہوگی بلکہ جاگتے میں خواب دیکھنے کے مترادف ہوگا۔ 14 جولائی 2019کو ڈیگاری بلوچستان میں ایک مائن کے دلخراش واقعے میں 9 کانکنوں کی شہادت کا واقع تھا۔ جس سے پورے ملک میں کہرام بھر پا ہوا مگر حکمرانوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی اور نہ آزاد عدلیہ نے اس المناک واقع کا نوٹس لیا ۔ مجھے پائلر کے ڈائریکٹر کرامت علی نے فون کرکے کہا کہ چونکہ کوئلے کی کانکنی میں آپ کا نام اور کام دونوں قابل ذکر ہیں اس لیے میں چاہتا ہوں کہ آپ کی قیادت اور سندھ مائنز ورکرز فیڈریشن کے جنرل سیکرٹری محمد آصف خٹک کی موجودگی میں سندھ کے مزدور رہنما اور دیگر تنظیموں کے لیڈر گراچی پریس کلب میں اہم پریس کانفرنس کریں۔ ہم دونوں دوستوں میں اس بات پر بھی اتفاق ہواکہ پورے ملک کی سطح پر مزدور رہنماؤں سے رابطہ کرکے ایک ہی دن ڈیگاری حادثے پر احتجاج کریں اور بلوچستان ہائی کورٹ کی جانب سے خود مختیار اور نیم خودمختیار اداروں میں رجسٹرڈ ٹریڈ یونینوں پر باندی عائد کرنے کے فیصلے پر ردعمل کا اظہار اور سپریم کورٹ آف پاکستان میں چیلنج کرنے کا فیصلہ بھی پریس کانفرنس میں شامل کریں۔ کرامت علی نے کراچی میں مزدور تنظیموں کے رہنماؤں اور دیگر تنظیموں کے قائدین جس میں خواتین رہنما بھی شامل تھی رابطہ کیا اور 22جولائی کو کراچی پریس کلب میں تشریف آوری کی دعوت دی۔ حبیب الدین جنیدی ایک سرکاری میٹنگ چھوڑ کر اور دیگر دوستوں نے اپنی مصروفیات میں سے وقت نکال کر پریس کانفرنس میں شرکت کی۔
کراچی پریس کلب کا ہال مرد اور خواتین رہنماؤں سے بھرا ہواتھا۔ میں نے ایک ساتھی سے پوچھا کہ کیا میں پریس کانفرنس شروع کروں، اگر سب مدعو ساتھی آچکے ہوںتو؟ تو اس نے جواب دیا ہاں مزدور رہنماؤں ہمدرد اور خواتین رہنما سب آگئے ہیں اگر کوئی کمی محسوس ہورہی ہے تو وہ الیکٹرانک اورپرنٹ میڈیا کے نمائندوں کی ہے پھر اس نے کہا کہ یہ صورتحال مزدور رہنماؤں کی پریس کانفرنس میں ہمیشہ ہوتی ہے۔ہم مزدوروں کے معاملات یا جان لیوا حادثات پرجو بھی کہتے ہیں اس کی کوئی خاص نیوز ویلیو نہیں ہوتی شائد اس لیے ؟ اتنے بڑے واقع پر اتنی بڑی پریس کانفرنس کو وہ کوریج نہیں دی گئی جو دینی چاہیے تھی سوائے جسارت کے مزدور صفحہ کے۔جہاں تک مزدوروں کی فلاح وبہبود کے نام پر ملک بھر میں قائم سہ فریقی ویلفیئر اداروں کی جانب سے کارکنوں کو سہولیات کی فراہمی کا تعلق ہے وہ اٹھارویں آئنی ترامیم کے بعد صوبائی خودمختیاری کے بھینٹ چڑھ گئی ہے جب تک ورکرز ویلفیئر فنڈ اور EOBIوفاق کے ذریعے غیر متنازعہ طورپر چل رہے تھے ان اداروں سے خصوصاً ورکرز ویلفیئر فنڈ سے چاروں صوبوں کے صنعتی کارکنوں کو ڈیتھ گرانٹ ، جہیز گرانٹ ، اسکالر شپ، سیونگ مشین ، بائی سائیکلوں اور تعلیمی مقاصد کے علاوہ شفاف طریقووں سے رہائشی سہولیات ملتے رہے ہیں میں اس دور میں ورکرز ویلفیئر فنڈ اور سندھ ورکرز ویلفیئر بورڈ میں مزدوروں کی نمائندگی کرتا رہا۔ ان معاملات پر چند پلانٹ لیول کے مزدور لیڈروں کے علاوہ کوئی رشوت نہیں لیتا تھا لیکن اٹھارویں ترامیم کے بعد تو رشوت کے بغیر کوئی مزدور ان اداروں سے سہولیات حاصل کرنے کا تصور نہیں کرسکتا۔ سال 2010سے 2019تک ملازمتوں کے دوران فطری یا حادثاتی اموات کے حامل کارکنوں کے لواحقین کی جانب سے داخل کردہ ڈیتھ گرانٹ دفاتر کے زینت بنے ہوئے ہیں۔ حیدرآباد ریجن کے 42ڈیتھ گرانٹ کیسوں کی فائلیں سال 2014میں ڈپٹی ڈائریکٹر ویلفیئر کراچی کے دفتر سے غائب ہوچکی ہیں ۔مگر بار بار ہماری طرف سے یہ معاملہ اٹھانے کے باوجود کوئی اس کا ذمہ دارنہیں ٹھہرا اور نہ اس کا امکان ہے جن لوگوں کے کفالت کرنے والے فوت ہوئے تھے ۔ان کے پانچ لاکھ روپیہ فی کس کلیم کیوں اور کس کی غلطی سے ڈوب گئے۔ کیا نیب یہ معاملہ اٹھائے گی؟ ہم تحریری ثبوت پیش کریں گے۔ سکھر ریجن میں جہیز گرانٹ کا اسکینڈل جوایڈیشنل سیکرٹری لیبر سندھ کی قیادت میں انکوائری کمیٹی نے واضح طورپر اپنی رپورٹ میں قرار دیا ہے کہ اس کا ذمہ دار ڈپٹی ڈائریکٹر ویلفیئر احتشام میو اور منگی ہیں کیا اس انکوائری رپورٹ پر اب تک اس لیے کارروائی نہیں کی گئی کہ اس میں اوپر والے بااختیار چہرے ملوث ہیں ؟ان سہ فریقی ویلفیئر اداروں میں ہر قسم کی بے ضابطگیوں غیر قانونی فیصلوں اور کرپشن کو تحفظ دینے کے لیے بورڈز اور گورننگ باڈیوں میں نامزدگی کے تمام شفاف اور غیر جانبدرانہ طریقوں
کو یکسر ختم کرکے صرف حکمران پارٹی کے حمایتی کارکنوں کو نامزد کرنے کی روایت قائم کی گئی ہے۔ چاہے نامزد ہونے والوں کو مزدور جانتے ہی نہ ہو مگر وہ ہاں میں ہاں ملانے کے پابند ہوں بعض نامزد کردہ ارکان ذاتی مفادات کی وجہ سے اور بعض پارٹی ڈسپلن کی وجہ سے حکومتی ایجنڈے سے اختلاف یا مزدوروں کو سہولیات نہ ملنے پر آوازبلند نہیں کرسکتے اس طرح یہ سہ فریقی ویلفیئر ادارے حکمرانوں کی ذاتی ملکیت بن گئے ہیں۔ کیا یہ حکومت کے فنڈز سے چل رہے ہیں؟ ان اداروں میں ایماندار غیر جانبدار مزدور رہنماؤں کی نامزدگی سے خوفزدہ ہونے والے ملک میں مزدور دوستی اور جمہوریت کے دعویدار کیسے بن سکتے ہیں اگر ان اداروں میں کوئی بیوروکریٹ بھی ان کے ہاں میں ہاں ملانے کے لیے تیار نہ ہوا اور اس نے جھوٹی سمری یا مصنوعی منصوبوں پر دستخط سے انکار کیا ہوتو وہ سوشل سیکورٹی کے ڈائریکٹر فنانس عابد بخاری کا حشر دیکھیں۔ جس کو مزدوروں کے فنڈ کے تحفظ اور دیانتداری کی وجہ سے پے درپے اذیت دی جارہی ہے۔ اس کی موت یا ریٹائرمنٹ کی دعائیں مانگی جارہی ہیں ۔ حکمران ریاست مدینہ کے دعویدار بھی بن رہے ہیں۔اس طرح ورکرز ویلفیئر بورڈ سندھ کے ڈائریکٹر فنانس انور اوصاف کو ایمانداری کی وجہ سے ذہنی اور جسمانی اذیت دی جاتی رہی۔ انہیں باربار تبدیل کیا گیا مگر وہ عدالت عالیہ سے بحال ہوئے اورریٹائرڈ ہونے پر حکمرانوں اور کرپٹ اہلکاروں نے مٹھائیاں تقسیم کیں۔ اس سے قبل ڈائریکٹر ورکس انیس الرحمن کو مسلسل زیر عتاب رکھا گیا ان کا تبادلہ کیا گیا پھر عدالت سے بحالی کے بعد انہیں جبری گھر بٹھایا گیا جس کی وجہ سے انہوں نے تنگ آکر قبل از وقت ریٹائرمنٹ لے لی۔ یہ حشر ہوتا ہے اس ملک میں ایمانداری کا۔