چھوٹی چھوٹی باتیں کیا واقعی ہم آ زاد قوم ہیں

414

یہ سوال اکثر مجھے ستاتا ہے کہ ’’ کیا واقعی ہم آزاد قوم ہیں؟‘‘ خود ہی زبان سے اور دل سے صدا آتی ہے’’ الحمد للہ‘‘ ہم آزاد قوم ہیں ۔ اللہ کی بڑی مہر بانی جس نے ہمیں آزاد ملک دیا ہم عبادات میں ، اپنی تہذیب میں ، کلچر میں، تہواروں میں ، رشتے ناتوں میں ، پاس پڑوسیوں سے تعلقات اور دیگر معاشرتی رویوں میں جانچ کر لیں ۔ ہماری اپنی زبان ، لباس ، مختلف زبانوں کے ہوتے ہوئے بھی دکھ سکھ کے ساتھی اور ایک کشتی کے مسافر کی طرح ہی تو ہیں ۔ دکھ کی گھڑیوں میں کیسے ایک دوسرے کا سہارا بن جاتے ہیں؟ ہر طرح کی مدد کے لیے تیار ہوتے ہیں ۔ پھر بھی کوتاہی کہیں کہیں اپنے گل کھلاتی ہے ، رسوا کرواتی ہے ۔ اللہ کے حدود میں رہنا بھی تو آزادی ہے ، بے فکری ہے ، سکون قلب ہے ، عافیت ہے ، فلاح ہے ۔ اس آزادی کے لیے احساس ذمہ داری سے اپنے مسلمان اور پاکستانی ہونے کا ہر دم حق نبھانا ہو گا ۔ اپنا ہر لمحہ احتساب کرنا ہو گا ۔ اپنے مسلمان ہونے کا حق اور دوسروں کے تمام تر حقوق کی پاسداری کر کے ہم واقعی آزادی کے مستحق ہو سکتے ہیں ۔ لوگوں کے حقوق مار کر نا فرمانیاں ، بے حیائیاں ، نقالی اور دورخا پن اپنا کر ہم کبھی بھی آزاد قوم ہونے کا دعویٰ نہیں کر سکتے ۔ زندگی کے مقصد کا احساس جگاناہو گا ۔
سانسوں کے سلسلے کو نہ دو زندگی کا نام
جینے کے باوجود بھی کچھ مر گئے ہیں آج
شکر کریں زندگی کی آزادی میسر ہے ۔ اس آزادی کی گھڑیوں کو امر کرنے کے لیے حیات جاویداں کے لیے انفرادی سے اجتماعی سطح پرکوشش کرنی ہو گی ۔ کوتاہیوں ، لا پرواہیوں کو دور کر کے ایک پکے سچے مسلمان ہونے کا ثبوت دینا ہوگا تاکہ سر اٹھا کر کہہ سکیں کہ ہم آزاد قوم ہیں۔ ان شاء اللہ
لطیف النساء
جلدی جلدی کے نعرے
ایک ماں صبح نماز و ذکر ادا کرتی اپنے بچوں کو نیند سے بیدار کرے گی تو بچے دین کی طرف راغب ہوں گے اور سب سے بڑھ کر ہمارا رب راضی رہے گا ۔ آہستہ آہستہ ہماری اولادیں بھی نماز کی پابند ہو جائیں گی جو ان کے لیے سیدھی راہ پر گامزن ہونے کی نشانی ہے ۔ بر عکس اس کے بہت سی مائیں نہ خود نماز پڑھتی ہیں اور نہ بچوں کو کہتی ہیں ۔ بس اسکول بھیجنے کے لیے بچوں کوچلو چلو جلدی جلدی کرو کے نعرے لگاتی ہیں ۔ بچوں نے جیسے تیسے ناشتہ کیا یا آدھا چھوڑ دیا ، باقی ماں نے باندھ دیا ، اسکول میں کھا لینا ۔ اور خود یا تو سو جاتی ہیں یا پھر ٹی وی پروگراموں میں اپنا قیمتی وقت ضائع کرتی ہیں ۔ اب یہ سوچنے کا مقام ہے ہم اپنی مرضی کریں اور بچہ اچھا بن جائے یہ سرا سر غلط فہمی ہے ۔ الحمد اللہ ہم مسلمان ہیں ۔ مسلمان اپنی عبادت سے ہی پتا چلتا ہے ۔ بچوں کو صحیح راہ دکھانے کے لیے ہمیں بھی اپنی راہ درست کرنی پڑے گی ۔ قرآن با ترجمہ پڑھنے کا معمول بنائیں اللہ تعالیٰ ہمارے سارے کام دیکھ رہا ہے ۔ہماری اولادیں بھی اچھا پڑھ جائیںگی ۔ اللہ تعالیٰ ان کو نیکو کاروں میں تب ہی شامل کرے گا جب ایک مومن ماں ایک لمحے کو خدا کی یاد سے غفلت نہ برتے گی تو اللہ کی رحمت سے بچے تمیز دار ہوں گے ۔ کچھ وقت بچوں کے ساتھ کھیلیں ۔ دن بھر کی مصروفیات معلوم کریں۔ اس طرح ہماری اولادیں قریب آئیں گی اور مائیں ان کو اچھائی ، برائی بھی بتا سکتے ہیں ، اسلامی طرز زندگی گزارنے پر ہی معاشرے میں بہتری آئے گی۔ سب سے زیادہ ذمہ داری ماں پر عائد ہوتی ہے کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے جنت بھی اس کے قدموں تلے رکھی ہے ۔ ایک ماں اپنے بچوں کی اچھی تربیت قوم کی تربیت ہوتی ہے ۔
سائرہ بانو
چکنی غذائیں کھانا جینیاتی مسئلہ قرار
برطانیہ میں حالیہ تحقیق کی گئی اور یہ انکشاف ہوا کہ چکنائی کھانے کے شوقین افراد محض شوق کی وجہ سے نہیں بلکہ انہیںجینیاتی طور پر ہی چکنائی والے کھانوں کا ذائقہ بہتر لگتا ہے ۔ جس کی وجہ سے ایسے افراد میں موٹاپے کا امکان زیادہ ہوتا ہے اس سلسلے میں یونیورسٹی آف کیمبرج کی جانب سے تحقیق کی گئی جس کے لیے 54 رضا کاروں کو چکن قورمہ اور اس کے بعد میٹھا مہیا کیا گیا ۔ ان میں کچھ میں چکنائی زیادہ تھی اور کچھ میں انتہائی کم ۔ جن افراد کے جینز میں چکنائی کو پسند کرنے والا جین تھا ، انہوں نے چکنائی والے کھانوں کو ترجیح دیتے ہوئے زیادہ کھایا ۔
مذکورہ جین کا نام ایم سی فور آر ے ۔ ایم سی فور آر والے جین کے حامل افراد کی بھوک کو کنٹرول کرتا ہے تاہم کچھ افراد میں بھوک بالکل بے قابو ہو جاتی ہے ۔ محققین کے مطابق ایسے افراد زیادہ میٹھا کھانا بھی پسند نہیں کرتے ۔ اس تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ کھانوں میں ہماری پسند کچھ دخل ہمارے جینز کا بھی ہے۔
مطالعہ کریں اور ذہین بنیں
آج کل کے جدید ٹیکنالوجی کے دور نے ہر کسی کو کتاب سے دور کر دیا ہے ۔ ہر کوئی کتاب کی بنسبت موبائل ، ٹیبلیٹ اور لیپ ٹاپ کو ترجیح دیتا نظر آتا ہے ۔ لیکن جدید تحقیق نے واضح کر دیا ہے کہ کتاب کا مطالعہ ذخیرہ الفاظ بڑھاتا ہے جس کی وجہ سے ذہانت تیز ہوتی ہے ۔
اس ضمن میں 2014ء میں چائلڈ ڈیولپمنٹ نامی جنرل میں شائع ہونے ولی رپورٹ کے مطابق جن بچوں کو 7 سال کی عمر میں پڑھنے کی عادت ہوتی ہے ، آگے جا کر ان کا آئی کیو لیول بلند ہو جاتا ہے ۔ جو ذہانت ناپنے کا بہترین پیمانہ ہے ۔
میرا گھر میری جنت
گھر کا نام آتے ہی دماغ میں ایک سکون والی جگہ کا تصور آ جاتا ہے ۔ اور کیوں نہ آئے گھر ہے ہی آرام اور سکون کی جگہ ۔ ہم جتنے بھی تھکے ہوئے ہوں بازار سے آئے ہوں ، پکنک انجوائے کی ہو یا کہیں مہمان بن کر آئے ہوں بس گھر میں آتے ہی لگ تا ہے جیسے کہ کسی مہر بان اور پر سکون جگہ آ گئے ہیں ۔
گھر ایک ایسی جگہ ہے جہاں د ل کھول کر ہر کام ہر بات اپنی مرضی سے کر سکتے ہیں ۔ لڑ بھی سکتے ہیں ، ڈائٹ بھی کر سکتے ہیں او رپیر پھیلا کر لیٹ بھی سکتے ہیں ، مگر گھر بھی کئی طرح کے ہوتے ہیں، اگر ہم بات کریں ’’ میرا گھر میری جنت‘‘ تو اس میں بہت ساری چیزوں مثلاً گھر کے لوگوں میں اچھا اخلاق ، تمیز ، بچوں کے لیے دلوں میں پیار ، بڑوں کی عزت ، شوہر کا بیوی سے اور بیوی کا شوہر سے اچھا سلوک ، عزت اور محبت ضروری ہے اور ایسا تو جب ممکن ہے کہ کہ دنیا کے ساتھ بھی چلیں اور دین کو بھی جانتے ہوں : کیونکہ گھر صرف چار دیواری کا نام نہیں ہے۔ یہاں سے ہی معاشرے کی اکائی شروع ہوتی ہے ۔ گھر میں رہنے والے افراد ہی کا اثر ہوتا ہے کہ مکان گھر بن جاتا ہے ۔ یا محض مکان بن کر رہ جاتا ہے ۔ فیصلہ اب یہ مکینوں کو ہی کرنا ہوگا
گھر کو گھر رکھنا ہے یا گھر کو مکان کرنا ہے ۔
فرزانہ محمود