معاشرتی رویے اور عید قرباں

433

عالیہ عثمان
دنیا بھر کے مسلمان ہر سال 10ذوالحج کو حضرت ابراہیم ؑ اور حضرت اسماعیلؑ کے جذبۂ ایثار کی یاد میں ایک تہوار مناتے ہیں جسے عید الاضحی کہا جاتا ہے اگرچہ یہ واقعہ آج سے ہزاروں سال پہلے پیش آیا تھا لیکن اس کی یاد آج بھی دلوں کو ایمان کی حرارت عطا کرتی ہے ۔ ذوالحج کا مہینہ مسلمانوں کے لیے روحانی مسرتیں لے کر آتا ہے اور حج کے ساتھ عید الاضحی کا تحفہ دے کر جاتا ہے مسلمانوں کے لیے عید الاضحی کا تہوار مسرت اور شادمانی کا پیغام بن کر آتا ہے لیکن اسے کیا کہا جائے کہ انسانوں کے بنائے ہوئے نظام کی وجہ سے طبقاتی تفریق ان خوشیوں کو مانند کر دیتی ہے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مادہ پرستی کا بڑھتا ہوا رجحان اور نمود و نمائش نے بہت کچھ بدل دیا ہے لیکن پرانے لوگ اپنا دور یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ انہوں نے بہت اچھا وقت گزاراانسانوں کے بنائے ہوئے نظام نے آج خود ہی اسے مختلف خانوں میں تقسیم کر دیا ہے امیروں اور غریبوں کے درمیان فرق بڑھتا جا رہا ہے ۔ایسی صورت حال میں غریبوں کے لیے عید الاضحی کے موقع پر قربانی کرنا تو دور کی بات ہے وہ دو وقت کی روٹی کے لیے بھی پریشان رہتے ہیں پاکستان میں طبقاتی تفریق پہلے اس قدر زیادہ نہیں تھی جتنی آج ہے چنانچہ اس سال بھی کہا جا رہا ہے کہ مہنگائی بہت ہے جانوروں کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں ۔ جو لوگ انفرادی طور پر ہر سال قربانی کیا کرتے تھے ان میں سے بہت سے افراد اس بار مہنگائی کا سن کر اجتماعی قربانی میں حصہ لے رہے ہیں جانور مہنگا کرنے میں ذرائع ابلاغ بہت غلط کردار ادا کر رہے ہیں ، منڈی لگتے ہی خبریں آنے لگتی ہیں کہ خریداروں کے مقابلے میں جانور کم ہیں اس لیے مہنگائی آسمان سے باتیں کر رہی ہے ایسی خبریں سن کر بہت سے افراد منڈی جانے کا خیال دل سے نکال دیتے ہیں اوراجتماعی قربانی میں حصہ ڈالتے ہیں ۔ ایک جانب غریب ہیں اور دوسری جانب عید الاضحی کے موقع پر قربانی کے بعض جانور اور ان کے خریدار ، ذرائع ابلاغ کی خصوصی توجہ کا مرکز بنتے ہیں کسی جانور کے بارے میں خبر آتی ہے کہ وہ میوے ، مکھن ، دودھ ، جلیبی کھاتا ہے تو کسی کے بارے میں اطلاع ملتی ہے کہ وہ تخت اورچار پائی پر بیٹھتا ہے اور صرف اپنے پالنے والے کے ہاتھ سے کھاتا پیتا ہے ایسے جانوروں کے نرخ بہت زیادہ ہوتے ہیں جو عموماً چار پانچ لاکھ روپے سے شروع ہو کر بارہ لاکھ تک ہوتے ہیں ۔ انہیں خریدنے والے مال دار افراد ہوتے ہیں جو بہت خوبصورت، صحت مند اور اعلیٰ نسل کے جانوروں کی قربانی کا شوق رکھتے ہیں یہ لوگ اپنے شوق کی تکمیل کے لیے شہر کی تمام مویشی منڈیاں اورکیٹل فارمز جاتے ہیں اور بعض افراد دیگر صوبوں اور شہروں تک کا سفر کرتے ہیں ۔
خیر کچھ بھی کہہ لیجیے ۔ عید الاضحی خوشیوں اور مسرتوں کانام ہے گھر کے بڑے بوڑھے جہاں قربانی سے متعلق معاملات پر غور کر رہے ہوتے ہیں بچے ان سب باتوں سے بے گانہ ہو کر یہ سوچنے میں مگن ہوتے ہیں کہ کس کا جانورذبح ہو چکا ہے ۔ کس کا ابھی ذبح ہونا باقی ہے کس کا ٹہل چکا ہے اور کس کا ٹہلنا باقی ہے آج کل جانوروں کو ٹہلانا بچوں کا محبوب مشغلہ ہے انہیںمعلوم ہے کہ دو تین روز میں تمام جانور قربان ہو چکے ہوں گے ہاں البتہ کئی راتیں پھر رونق والی ہوں گی بہت سے گھروں میں دوپہر کے کھانے میں گوشت والے پکوانوں کی بھر مار ہو گی تو رات کو گھر گھر بار بی کیو کی محفلیں سجی ہوں گی ۔ شامی کباب ، گولا کباب ، ریشمی کباب ، سیخ کباب ، تکہ بوٹی اورنہ جانے کون کون سی کبابوں کی خوشبوئیں اُٹھ رہی ہوں گی ۔ خیر و شر اور غربت و امارات اپنی جگہ ، اصل بات معاشرتی رویوں کی ہوتی ہے اگر معاشرتی رویے مناسب ہوں تو غربت گالی نہیں بنتی اور امارت زندہ رہنے کا لائسنس قرار نہیں پاتی ضروری ہے کہ عید الاضحی کو خوشیاں بانٹنے کا دن سمجھا جائے ۔ خاص طور سے غریبوں میں جو سارا سال اچھے کھانے کے لیے اس دن کا انتظار کرتے ہیں ۔ اپنے فریج اورڈیپ فریزر گوشت سے لبا لب بھرنے کے لیے غریبوں کے دل خوشیوں اورمحبت سے بھرنے کاخیال کریں ۔ یقیناً اللہ نیتوں کا حال جاننے والا ہے ۔