یکساں نظام تعلیم: پرانا شکاری نیا جال

1129

جاوید انور
عمران خاں نے واشنگٹن میں پاکستانیوں کے عوامی جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان میں یکساں نظام تعلیم لانے کی بات کی ہے۔ وہ حکومت میں آنے کے بعد اول دن سے یہ بات کہہ رہے ہیں۔ بات تو واقعی دل لبھانے والی ہے کہ امیر اور غریب کے لیے ایک ہی نظام ہوگا۔ لیکن ان کا زیادہ زور مدرسہ کے طلبہ پر ہے۔ وہ سوال کرتے ہیں کہ مدرسہ کے غریب طلبہ انجینئر اور ڈاکٹر کیوں نہیں بن سکتے (تالیاں)۔ لیکن انہوں نے ایک بار بھی یہ نہیں کہا کہ اسکول (دنیاوی تعلیم) کے بچوں کو قرآن و سنت کی تعلیم حاصل کرنی ہوگی (مکمل خاموشی)۔ عمران خاں نے یہ نہیں بتایا کہ نجی اسکولوں کے طلبہ کی ایک انتہائی قلیل تعداد ہی ڈاکٹر اور انجینئر بن پاتی ہے اور سرکاری اسکولوں سے تو صرف چپراسی، چوکیدار، اور زیادہ سے زیادہ کلرک ہی نکل پاتے ہیں الا ماشاء اللہ۔ یعنی اب مدرسہ کے طلبہ کی اکثریت کے مقدر میں بھی دین جیسی قیمتی متاع کے بجائے حقیر دنیا لکھی جانے والی ہے۔
ملک عزیز پاکستان میں ایک عرصہ سے یکساں نظام تعلیم کی بات ہو رہی ہے اور بہت مخلص لوگ یہ بات کہہ رہے ہیں۔ ان کے مقاصد مختلف اور نیک تھے۔ سابق مدیر تکبیر شہید صلاح الدین ؒ نے بھی اس موضوع پر بہت لکھا اور بولا ہے۔ انگریزوں نے ہندوستان میں رائج مسلمانوں کے قدیم نظام تعلیم کو ختم کر کے جو نظام تعلیم رائج کیا اور مسلمانوں نے بھی پرانے ملبہ سے جو نیا نظام نکالا تھا وہ بگڑتے بگڑتے اس شکل میں آچکا ہے کہ ہمارا تعلیمی نظام تقسیم در تقسیم کے عمل سے گزر کر پوری قوم کو منقسم کر چکا ہے۔ پہلی تقسیم دین و دنیا کی تھی۔ اس کے بعد دنیا کی تقسیم سرکاری اسکول سے گرامر اسکول تک دسیوں مدارج ہیں۔ یعنی یہ تمام اسکول شودر سے لے کر برہمن تک کی پیشہ وارانہ ذاتیں؛ چپراسی، کلرک سے لے کر سیکرٹری، اور ڈپلومیٹ تک نکالتا ہے۔ اس کے بعد دینی مدارس کی مسلکی بنیاد پر متعدد تقسیم ہے۔ جس میں قرآن و سنت پر عمل سے زیادہ فقہی مناظرے کا رجحان پایا جاتا ہے۔ ہم بچوں کو مدرسے اور اسکول میں تقسیم درتقسیم کے بعد یہ عجیب امید اور نرالی خواہش بھی رکھتے ہیں کہ قوم متحدد ہو جائے۔
ہندوستان کا پرانا نظام تعلیم جسے برطانیہ کی سامراجی حکومت نے تدریجاً مکمل ختم کر دیا تھا اس کی چند بنیادی خصوصیات مندرجہ ذیل تھیں:
1۔ وہ نظام تعلیم یکساں تھا، یعنی دین و دنیا کے لحاظ سے بھی اور امیر غریب کے لیے بھی۔
2۔ تعلیم مفت تھی، مسلم دور میں کبھی بھی اور کہیں بھی فیس نہیں لی گئی بلکہ ان کے لیے کتاب، کپڑے، اور ضرورت کے مطابق اقامت مفت مہیا کی جاتی تھی۔ کچھ ادوار میں ہر طالب علم کو ان کی عمر اور قابلیت کے مطابق وظیفہ دیا جاتا تھا مثال کے طور پر اورنگ زیب کے زمانے میں ہر طالب علم کو وظیفہ ملتا تھا۔ اسلام میں زکوٰۃ کی مد میں سفر کرنے والے طلبہ کو شامل کیا گیا ہے گرچہ کہ وہ عام حالات میں زکوٰۃ کا حقدار نہ بھی ہو۔ طلبِ علم کے لیے سفر کو مقدس ترین عبادت میں شمار کیا گیا ایک حدیث کے مفہوم کے مطابق ایسے طلبہ کو فرشتے اپنے پروں سے ڈھانپ لیتے ہیں۔
3۔ وہ نظام کتاب کی بنیاد (base) پر تھا، نہ کہ کلاس کی بنیاد پر۔ یعنی ایک طالب علم نے ایک کتاب ختم کی تو اسے دوسری کتاب دے دی گئی۔ یعنی ہر طالب علم اپنی رفتار سے چلتا تھا۔ کچھوا اور ہرن، گدھے اور گھوڑے ایک ساتھ نہیں جیسا کہ آج کے کلاس میں ہوتا ہے۔ ایسی مثالیں بھی ہیں کہ بعض عبقری طلبہ سات سال کی عمر ہی میں تمام علوم سے فارغ ہوگئے۔
4۔ طریقہ تدریس محض رٹا لگانے کی مشق نہیں بلکہ مباحثانہ تھا۔ اسے طریقۂ مبسوط کہا جاتا ہے۔ یعنی وسیع اور ہمہ گیر بحث و مباحثہ کے بعد ایک نتیجہ پر پہنچنا۔ اس سے فکری صلاحیت (critical thinking) میں بے پناہ اضافہ ہو تا تھا۔
5۔ تعلیمی نظام کو چلانے، نصاب بنانے، کتب لکھنے؛ یہ سارے کام علماء ہی کرتے تھے اور اس میں حکومت کی کوئی مداخلت نہیں تھی۔ علماء کو اس کام کی مکمل آزادی حاصل تھی۔
6۔ کسی مسلم حکمران نے تعلیم کا الگ سے محکمہ یا وزارت نہیں بنایا۔ بڑے بڑے اوقاف، معافیاں (tax exempt properties) ہوتی تھیں جن پر علماء کا کنٹرول ہوتا تھا۔ مسلمانوں میں عام رواج تھا کہ جائداد میں ایک تہائی وصیت کسی تعلیمی ادارے کو وقف کر دیتے تھے۔ علاوہ ازیں مختلف ادوار میں علما کو ماہانہ بھاری وظائف حکومت کی طرف سے دیے جاتے تھے تاکہ وہ معاشی طور پر بے فکر ہو کر تعلیم و تعلم کا سلسلہ جاری رکھیں۔
ہمیں شریعت کے جدید تقاضوں کے مطابق اسی نظام تعلیم کا احیاء کرنا ہے اور یہ کام پہلے کی طرح علماہی کو کرنا ہے۔ جدید مغربی نظام کے تعلیم یافتہ، مغرب سے مرعوب غلامانہ ذہنیت کے حامل کسی شخص کو ایسی ذمے داری دینا، یا ان کی قیادت میں چلنا قومی تعلیمی خودکشی ہوگی۔ یہ تعلیمی خود کشی مکمل تہذیبی خود کشی پر منتج ہوگی۔
وزارت عظمیٰ کی کرسی سے لے کر وزارت تعلیم کے قلم دانوں کو دیکھ کر یہ کہا جا سکتا ہے کہ تعلیمی نظام کے کسی منصوبے پر ان پر اعتماد کرنا ایسا ہی ہے جیسا کہ بندر کے ہاتھ میں ناریل پکڑا کر اس کی طرف دیکھنا۔ عمران خاں کا ’’نئے پاکستان‘‘ کا ’’یکساں نظام تعلیم‘‘ دراصل وہ مغربی اور امریکی نیو ورلڈ آرڈر، اور اسرائیلی نیو سنچری ایجنڈا 21 کا حصہ ہے جس پر نائن الیون کے بعد مسلم دنیا میں پوری طاقت سے بروئے کار لایا گیا ہے۔ بم اور بارود سے اجڑتے شہر اور مرتے انسان تو سب نے دیکھے لیکن نئے تعلیمی نظام کے مذبح میں نسلوں کو کاٹنے کا منظر اوجھل رہتا ہے۔ اکبر الہٰ بادی (وفات 1921) نے نئے مغربی نظام تعلیم اور سرسید کے علی گڑھ کالج پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ:
یوں قتل سے بچوں کے وہ بدنام نہ ہوتا
افسوس کہ فرعون کو کالج کی نہ سوجھی
اکبر الہٰ بادی اگر آج زندہ ہوتے تو انہیں معلوم ہوتا کہ آج کا فرعون بچوں کو تلوار اور تعلیم دونوں سے کاٹتا ہے۔ تلوار کی کاٹ وقتی ہے، تعلیم کی کاٹ مستقبل کی نسل کشی ہے۔
وزیر اعظم عمران خاں کے وزیر خزانہ اسد عمر آئی ایم ایف کے حکام سے گفتگو اور قرض کی شرائط سن کر تاب نہ لا سکے۔ انہوں نے شرم کے مارے استعفا دے دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر میں آئی ایم ایف کے شرائط بتائوں تو قوم ہمیں جوتے مارے گی (بیان کا مفہوم یہی تھا)۔ کاش کہ وہ قوم کو وہ شرائط بتا کر اس قوم پر ایک احسان کردیتے جس قوم نے آپ پر بے پناہ احسان کیا ہے۔ اسد عمر صاحب! آپ غیرت ایمانی کا مظاہرہ کریں۔ وزارت والی نوکری آنی جانی ہے، موت کے بعد دوبارہ دنیا کی زندگی نہیں آنی۔ اگر آپ نہ بھی بتائیں تو میں آپ کو ان کی چند شرائط بتا سکتا ہوں جو لازماً شامل ہوں گی۔ ۱۔ دینی مدارس، اور علماء کی قوت اور دینی نظام کا تدریجاً خاتمہ ۲۔ نیا یکساں تعلیم نظام جس میں اخلاق باختہ، مادہ پرست انسان اور صنعتی پیداواری کارکن تیا ر ہوں۔ ۳۔ صنفی منحرفین اور جنسی مرتدین (LGBTTIQ) کو مکمل آزادی اور اس کلچر کا فروغ (آبادی کم کرنے کا سب سے موثر ترین ذریعہ) ۴۔ عورت کی آزادی کے مغربی تصور سے مکمل ہم آہنگی۔ دوسری تمام شرائط اندرونی رازداں جان پارکن کی کتاب Confessions of an Economic Hitman میں موجود ہے۔ اس کتاب کا ترجمہ جسارت میں قسط وار شائع ہو چکا ہے۔
نئے یکساں مغربی تعلیمی نظام کا مقصد یہ ہے کہ عورت ماں بننے کے قابل نہ رہے اور بن جائے تو چند پیداواری کارکن پیدا کر لے۔ اس کے بطن سے حریت پسند مجاہد نہیں نکل سکتے۔ سعودی عرب سمیت بیش تر مسلم ممالک میں اس نظام تعلیم کو بروئے کار لایا جا چکا ہے۔ سعودی عرب کے نئے لبرل قوانین اسی تعلیمی نظام کا شاخسانہ ہیں۔ رقص و موسیقی کا انعقاد اس لیے ہو رہا ہے کہ اس کی طلب بڑھ گئی ہے۔ افغانستان میں گزشتہ بیس برسوں میں امریکا نے اسی تعلیمی نظام کا ڈائنامائیٹ بچھایا ہے جسے وہ ہر حال میں محفوظ رکھنا چاہتا ہے۔
تعجب ہے کی پاکستان کے علماء اور مدرسین اور منتظمین اس نئے جال میں آسانی سے پھنس رہے ہیں۔ تمام مدارس کو رجسٹریشن کے لیے کہا جا رہا ہے یعنی ’’ا سلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ کے نئے حکمرانوں کے نزدیک مدرسہ کی حیثیت ایک صنعت کی اور مدرسین کی حیثیت پیداواری کارکن (لیبر) کی ہے۔ مدارس کی رجسٹریشن کے لیے 12 سینٹر پورے ملک میںکھولے جائیں گے۔
باقی صفحہ7نمبر1
جاوید انور
وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود نے پاکستان علماء کونسل کے مرکزی چیئرمین اور وفاق المساجد و المدارس کے صدر حافظ محمد طاہر محمود اشرفی سے ملاقات کے دوران ایک طرف یہ بات کہی کہ مدارس کے دینی نصاب میں کوئی تبدیلی نہیں کی جائے گی، مدارس کی آزادی، خود مختاری قائم رہے گی، اور دوسری ہی سانس میں یہ بات بھی کہ دی کہ موجودہ حکومت صرف مدارس نہیں پورے تعلیمی نظام میں اصلاحات لا رہی ہے، ’’ایک قوم ایک تعلیم‘‘ ہمارا ہدف ہے، انہوں نے کہا کہ قومی نصاب تعلیم کی کمیٹی میں مدارس کے نمائندے شامل ہیں، مدارس کی مشکلات کوختم کرنا چاہتے ہیں، مدارس کے طلبہ کے لیے ہر سطح پر احساس اور احترام پایا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مدارس کی رجسٹریشن بینک اکائونٹ اور دیگر امور پر معاہدہ ہو چکا ہے، انہوں نے کہا کہ مدارس کے موجودہ امتحانی بورڈز کے ساتھ جو مدارس منسلک نہیں ان کی رجسٹریشن کے لیے بھی پالیسی بنائی جائے گی۔ (نمائندہ جسارت 26 جولائی)
مجھے حد درجہ تعجب ہے کہ علماء اس پر کس طرح راضی ہوگئے اور کس آسانی سے ان کے جال میں پھنس رہے ہیں۔ وقتی حکومتی مالی فوائد اور دیگر سہولتوں کی خاطر آپ متاع گراں بہا سے محروم کیے جا رہے ہیں۔ کاش کہ آپ کو اس نزاکت کا احساس ہو۔ ہمارے اسلاف نے سامراجی جال سے بچتے ہوئے گزشتہ دو ڈھائی سو سال میں کسمپرسی کی حالت میں لیکن معاشی آزادی کے ساتھ اس نظام کو بچایا ہے وہ آپ اسے دنوں اور لمحوں میں ضائع کر رہے ہیں۔