سب کمنٹری ہی کررہے ہیں

350

 

آئیے رننگ کمنٹری سنیں۔ مزا نہ آئے تو پیسے واپس… جو آپ نے دیے نہ ہم نے لیے… کمنٹری… لگتا ہے کے الیکٹرک کراچی والوں کی کھال اُتار کر لے جائے گی۔ یہ کوئی فلاحی ادارہ ہے نہ پاکستانی ہیں یہ تو یہاں پیسے کمانے آئے ہیں جتنا کمانا تھا کمالیا۔ کے ایم سی کی بجلی کاٹ رہے ہیں تو اپنے حصے کی ادائیگی بھی تو کریں۔ میئر صاحب اگر مسائل حل نہیں کرسکتے تو آپ کے رہنے کا کیا فائدہ۔ دوسری کمنٹری… طالبان کو راضی کرنا آسان نہیں۔ کام مشکل مگر پوری کوشش کریں گے۔ سارا ملک ہمارے ساتھ ہے، افغانستان میں جلد امن ہمارا اور امریکا کا مشترکہ مقصد ہے۔
ایک اور کمنٹری… مختصر اور زبردست… عمران خان کا وژن ہے!!! کمنٹری ختم… چلیں کمنٹری چھوڑیں وزیراعظم عمران خان کی بات کریں جن کے بارے میں فردوس عاشق اعوان نے انکشاف کیا ہے کہ ان کا وژن ہے وزیراعظم عمران خان سے جب امریکا میں سوال کیا گیا کہ پاکستان میں صحافت پر قدغن نہ لگائی جائے اور آزادی صحافت کے لیے آپ کیا کررہے ہیں تو انہوں نے شکوہ کیا کہ پاکستان میں کبھی کبھی اخبارات قابو سے باہر ہوجاتے ہیں۔ اس بیان کے اگلے روز میڈیا کورٹس کی تجویز سامنے آگئی۔ ظاہر ہے آج کل جس پر قابو پانا ہو اسے کورٹس کے ذریعے ہی قابو میں لایا جارہا ہے۔
ایک کمنٹری تو رننگ کرتے کرتے تھک ہی نہیں رہی وہ بھی ملاحظہ کریں۔ نواز شریف چور ہے، اس کا خاندان چور ہے، زرداری چور ہے، پیپلز پارٹی چور ہے، سب کو جیلوں میں ڈال دوں گا، 30 ہزار ارب روپیہ باہر بھیجا گیا ہے جس دن اقتدار ملا اگلے دن واپس لائوں گا۔ یہ کمنٹری لاہور سے اسلام آباد تک جلسوں میں بھی سنی گئی، کنٹینر پر کی گئی، ڈی چوک پر یہی کمنٹری سنی، پارلیمنٹ کے سامنے بھی یہی سنی۔ خدا خدا کرکے زمینی خدائوں نے انہیں اسمبلی کے اندر بھیجا کہ جائو جتنی لعنتیں بھیجی تھیں ان کو صاف کرو… اور اندر جا کر بھی یہی کمنٹری سنائی۔ لیکن اب حکومت میں آئے ہوئے ایک سال ہوگیا، کمنٹری یہی جاری ہے کہ چوروں ڈاکوئوں کو نہیں چھوڑوں گا۔ پائی پائی نکلوائوں گا، اور حال یہ ہے کہ ایک پائی بھی نہیں نکلوا پائے۔ دورہ امریکا میں بھی کمنٹری جاری رہی۔ اور ایسا لگ رہا تھا کہ کنٹینر امریکا پہنچ گیا ہے، کمنٹری کے الفاظ بھی نہیں بدلے… چور ڈاکو کا ذکر اور لوٹا ہوا مال نکلوانے کا عزم… عوام کمنٹری سنتے سنتے تھک گئے ہیں لیکن الیکٹرونک میڈیا کے سحر میں ایسے کھوئے ہوئے ہیں کہ اس کمنٹری سے نکل ہی نہیں سکتے۔ رننگ کمنٹری میں سب سے زیادہ تکلیف دہ عدلیہ کی کمنٹری ہوتی ہے جب وہاں سے صرف کمنٹس سننے کو ملتے ہیں۔ کیا سندھ میں حکومت نام کی کوئی چیز ہے، نوکری پیسے کے بغیر نہیں ملتی۔ عوام اس تبصرے کا کیا کریں اگر کوئی بیروزگار نوجوان یہ بات کہتا تو کسی اخبار میں دو سطور بھی شائع نہیں ہوسکتی تھیں اگر شائع ہوجاتیں تو بھی ان کی حیثیت تبصرے ہی کی ہوتی اور اب بڑی بڑی سرخیوں کے ساتھ عدلیہ کے اختیار اور طاقت کی وجہ سے لگ جانے کے بعد بھی یہ تبصرہ ہی ہے۔ سارے پاکستان کو پتا ہے کہ نوکری ایسے ہی ملتی ہے۔ ویسے ایک تبصرہ یہ بھی ہے کہ کیا صرف سندھ میں ایسا ہوتا ہے؟ یا باقی صوبوں میں حکومت اور قانون ہے؟ سابق وزیراعلیٰ کے پی کے پرویز خٹک کے بھتیجے 15 افراد کے خلاف 45 غیر قانونی بھرتیوں کا مقدمہ چل رہا ہے ان کے خلاف فرد جرم بھی عاید ہوگئی ہے۔ پورے ملک میں یہی ہورہا ہے، پیسے دو نوکری لو… اور پیسے وصول کرو… لیکن تبصرہ سندھ حکومت پر کیا گیا ہے۔
اپوزیشن کی جانب سے کمنٹری کو لوگ کمنٹری ہی تصور کرتے ہیں لیکن اگر حکومت عدلیہ اور بااختیار ادارے بھی محض کمنٹری کرتے رہیں تو حالات وہی ہوں گے جو آج کل ہیں۔ آئی ایس آئی کے ترجمان نے کہا تھا (کمنٹری ہی کی تھی) کہ ملک میں امن وامان کے حالات بہتر ہوگئے ہیں، فورسز کی توجہ بلوچستان پر ہے تو ڈیرہ اسمٰعیل خان میں دھماکا ہوگیا تھا۔
پھر اگلے دن دہشت گردوں کو بلوچستان ہی کی طرف توجہ مرکوز کرنا پڑی۔ انہوں نے بیان دیر میں پڑھا ہوگا۔ اب وقت آگیا ہے بلکہ گزرا چاہتا ہے کہ کمنٹری چھوڑ کر عمل کی دنیا میں قدم رکھا جائے۔ عدالتیں صرف یہ نہ بتائیں کہ کے الیکٹرک والے کراچی والوں کی کھال اتار رہے ہیں۔ کیا ہوا یہ تبصرہ شائع ہونے کے باوجود کھال اتاری جارہی ہے اور اتاری جاتی رہے گی۔ کوئی طاقتور ادارہ بھی اب افتخار محمد چودھری جیسا کارنامہ نہیں کرسکتا جس نے سی این جی پر 34 روپے ریلیف دلائی جو تقریباً دس سال عوام کو ملتی رہی۔ رننگ کمنٹری والوں نے ایک ہی حلے میں 22 روپے اضافہ کردیا۔ اہل کراچی اس بات کو اچھی طرح جانتے ہیں کہ پانی کیا ہوتا ہے اور آلودہ پانی کسے کہتے ہیں۔ گدلا پانی کیا ہوتا ہے اور گٹر کا پانی کیا ہوتا ہے۔ لیکن واٹر کمیشن کئی برس کمنٹری کرکے چلا گیا عوام کو وہ آلودہ پانی بھی نہیں مل رہا۔ اہل کراچی کی کھال کے الیکٹرک اُتار نہیں رہی بلکہ اُتار چکی ہے اور اب تو ہڈیاں بھی گلا رہی ہے۔ لیکن عدالت کمنٹری کرکے آگے بڑھ جائے گی عوام کو کیا ملا… موبائل فون کمپنیوں کے بارے میں کمنٹری ہوئی اور ایک قدم آگے دو قدم پیچھے کرکے ان کا ٹیکس بحال کردیا گیا۔ ٹیکس میں کمی کردی گئی لیکن کمپنیوں نے نرخ اور پیکیج مہنگے کردیے۔ اب ٹیکس اور پیکیج پر اضافی رقم کے مزے لے رہے ہیں جو پہلے سے زیادہ ہے، ہم رننگ کمنٹری سنتے رہے… سرکاری رننگ کمنٹری تو یہ ہوتی ہے کہ ملک ترقی کررہا ہے، عوام کا ہر مسئلہ حل ہوجائے گا، ملک ایشیا کا ٹائیگر بنے گا، عظیم ترین ملک بنے گا، اور آخر میں!! اپوزیشن نے کام نہیں کرنے دیا… کمنٹری ختم۔