حج کے عملی اور تقاضے

405

عتیق الرحمن سنبھلی

سیدنا ابراہیمؑ اور ان کی ذْریت کے واقعے میں اْمتِ مسلمہ کے لیے پہلا سبق تو یہ ہے کہ اللہ کے دین کو رائج اور قائم کرنے کے لیے اور اس کی عبادت اور بندگی کو عالم میں عام کرنے کے لیے بڑے سے بڑا خطرہ مول لینے سے بھی نہ جھجکنا چاہیے۔ اس سے بڑا کیا خطرہ ہوسکتا ہے جو سیدنا ابراہیمؑ نے اپنی چہیتی بیوی اور اکلوتی اولاد کے لیے مول لیا کہ انھیں تنہا ایک ایسی جگہ چھوڑ دیا جہاں نہ انسان نہ کوئی اور جان دار، نہ سبزہ نہ پانی، نیچے تپتی زمین، اْوپر تپتا آسمان، دو نازک سی جانیں اور بس اللہ نگہبان… ایسا کیوں کیا گیا؟… صرف اللہ کے دین کے لیے۔ قرآن پاک اس بارے میں سیدنا ابراہیمؑ کا قول نقل کرتا ہے۔ ترجمہ: ’’میرے مالک میں نے اپنی کچھ آس اولاد تیرے محترم گھر کے پاس بن کھیتی والی ایک وادی میں بسا دی ہے تاکہ اے پروردگار! وہ نماز کو قائم کریں۔ (ابراھیم 37) یہ واقعہ ہمیں دوسرا سبق یہ دیتا ہے کہ حاجات و ضروریات کی ساری کنجیاں اللہ کے دستِ قدرت میں ہیں، اس میں اس کا کوئی شریک نہیں، ہماری حاجت روائی نہ کسی دوسری ہستی کے بس میں ہے نہ اسباب پر موقوف، بندہ اس بات پر یقین رکھے اور اپنی طاقت واستطاعت کے مطابق کوشش کرتے ہوئے اس وحدہ لاشریک کے سامنے دستِ سوال دراز کرے پھر اسباب ظاہری کی نامساعدت میں یہ طاقت نہیں ہے کہ اس داتا کی داد و دہش اور اعانت کو روک سکے۔ اس بے آب وگیاہ سر زمین میں سیدہ ہاجرہ اور سیدنا اسماعیلؑ کے لیے دانے پانی کی ساری راہیں بظاہر مسدود اور اسباب ایک ایک کرکے مفقود تھے، لیکن سیدہ ہاجرہؑ کی سعی اور دْعا پر مسبب الاسباب کا حکم ہوا تو بے وہم و گمان اس جلتی بھنتی اور خشک دھرتی کی چھاتی سے پانی کا دھارا پھوٹ نکلا۔ سچ فرمایا کرتے تھے نبی اْمّی: فدہ ابی و اْمّی۔ لا مانع لما اعطیت، داتا تیری دہش کو کوئی روکنے والا نہیں ہے۔
یہ دو سبق ہیں جو اس واقعے سے ہمیں ملتے ہیں۔ پس جو لوگ صفا ومروہ کی سعی کرکے اس واقعے کی یاد تازہ کرتے ہیں انھوں نے اگر غور وفکر کی قوت کو معطل نہیں کر رکھا ہے تو وہ محسوس کریں گے کہ ان کا یہ عمل (سعی) ان سے دو باتوں کا مطالبہ کرتا ہے: 1۔ اللہ کے دین کو فروغ دینے اور اس کی عبدیت وعبادت والی زندگی کو دنیا میں رائج کرنے کے لیے اپنی محبوب اور عزیز ترین چیزوں کو بھی خطرے میں ڈالنے سے گریز نہ کریں، خواہ وہ اپنی جان ہو یا اپنے بیوی بچوں کی زندگیاں۔ اس مقصد کے لیے بیوی بچوں کی جدائی اگر ضروری ہو تو اْسے گوارا کریں، غریب الدیاری کی نوبت آجائے تو اس میں پس وپیش نہ کریں، بھوک پیاس اور شدائد وخطرات کی کیسی ہی خوفناک تصویریں ذہن میں گھوم جائیں مگر دینی جدوجہد کے قدم پیچھے نہ ہٹنے پائیں۔ 2۔ دین کے فروغ اور سربلندی کی جدوجہد میں کامیاب ہونے کے لیے بھی، اور اپنی انسانی ضروریات کے پانے کے لیے بھی اپنی طاقت اور استطاعت کی حد تک تو کوئی کسر اْٹھا نہ رکھیں، مگر یہ یقین رکھیں کہ ہماری کوششوں کے کامیاب نتائج برآمد کرنے والا، حقیقی داتا اور حقیقی مشکل کشا تنہا اللہ ہے، جس کا کوئی شریک نہیں، لہٰذا اْس کے حضور میں اپنی انتہائی عاجزی اور بے بسی کے استحضار کے ساتھ اپنی کوششوں کی کامیابی اور نتیجہ خیزی کے لیے دعا کرنے میں بھی کوئی کمی نہ کریں۔ بالفاظِ دیگر اسبابی کوشش اور جدوجہد اس طرح کریں کہ مسبب الاسباب کے منکر اور تنہا اسباب کے پرستار اْن سے پیچھے نظر آئیں، لیکن جب کوئی دعا کے وقت انھیں دیکھے تو یہ سمجھے کہ انھیں اسباب پر بالکل یقین اور اعتماد نہیں ہے، اسباب ان کی نظر میں کوئی حقیقت نہیں رکھتے۔ ان کی نظر اور ان کا اعتماد صرف اللہ پر ہے، وہ اللہ جس نے ظاہری حالات کے علی الرغم سیدہ ہاجرہؑ اور سیدنا اسماعیلؑ کو صرف یہی نہیں کہ زندہ رکھا بلکہ اْن سے ایک ایسی نسل چلائی جو اْس وقت سے آج تک عزت کے ساتھ زندہ ہے اور جس کی عزت کبھی ذلّت سے نہیں بدلی ہے۔
الغرض اگر غور سے دیکھا جائے تو حج کے یہ اعمال و اشغال اپنے اندر کچھ ایسے تقاضے لیے ہوئے ہیں کہ اگر ان کو سمجھنے اور پورا کرنے کی طرف توجہ دی جاتی تو ہمارے حجاج کی زندگیوں کا رنگ ہی کچھ اور ہوتا، اور حج سے واپس آنے کے بعد ہر سال ہماری آبادیوں میں اسلامی زندگی کے لاکھوں نئے نمونے پیدا ہوجایا کرتے۔ حج کے اعمال واشغال اور ایامِ حج کی پابندیاں مومن کی مثالی زندگی کی ٹریننگ ہے جو ہر سال اْمت مسلمہ کے لاکھوں نفوس کو بیک وقت دے دی جاتی ہے جس میں ان کو اسلامی زندگی کے اصول، قواعد وضوابط اور خصوصیات کی عملی مشق کرائی جاتی ہے۔ اللہ کی ذاتی وصفاتی توحید کا گہرا اعتقاد، شرک کا بہرصورت و بہرنوع قلبی انکار، تحلیل و تحریم کا حق صرف اللہ کے لیے ماننا اور اسے اس معاملے میں مختار مطلق ماننا (یعنی صرف اسی کو یہ حق ہے کہ وہ جب چاہے اور جس چیز کو چاہے حلال قرار دے، اور جس چیز کو چاہے حرام قرار دے۔ موت کا دھیان، آخرت کی یاد، میدانِ حشر کا استحضار، دعا اور اس میں الحاح و تضرع کی کیفیت، اللہ سے بے انتہا محبت، ہردم اس کی یاد اور ذوق و شوق کے ساتھ اس کی اطاعت، زہد وتوکل، انفاق فی سبیل اللہ، نفس کشی، سادگی اور جفاکشی، جماعت اور امارت، لایعنی باتوں سے پرہیز، باہمی نزاع اور جدل وجدال سے مکمل اجتناب، گناہوں کا بالکلیہ ترک، اخلاق میں طینت، کلام میں نرمی، شعائراللہ کی عظمت، اس کے اعدا خصوصاً شیطان سے نفرت، غرض اسلامی زندگی کے سارے اجزا وعناصر کی ایسی مکمل عملی مشق ان دنوں میں کرادی جاتی ہے کہ اگر حجاج اس کو اپنی کھوئی ہوئی متاع سمجھ کر مضبوطی سے پکڑ لیں تو وہ کام (یعنی زندگیوں میں اسلامی انقلاب) جو اس وقت دنیا کے ہرکام سے زیادہ مشکل نظر آرہا ہے، اتنی آسانی سے ہوسکتا ہے کہ بڑے بڑے انقلابی دماغ تحیر اور سکتے کے عالم میں رہ جائیں۔
ایک حدیث میں رسول اللہؐ نے یہ بشارت دی ہے: جس نے محض اللہ کی رضامندی کے لیے حج کیا اور بے حیائی کی باتوں سے، بے حیائی کے کاموں سے، اور عام گناہوں سے محفوظ رہا، تو وہ ایسا پاک ہوکر لوٹتا ہے جیسا کہ ماں کے پیٹ سے پیدا ہونے کے روز تھا۔ (بخاری ومسلم) تربیت اور عہدِوفا کے بعد یہ تیسری چیز ہے جو حجاج سے زندگی کو پوری طرح اسلامی اور ایمانی زندگی بنانے کا مطالبہ کرتی ہے، اس بشارت کی پکار ہے، ’’پورے پورے فرماں بردار اور اطاعت گزار ہوجائو‘‘۔ یہ حدیث بتاتی ہے کہ جو شخص حج کو پوری پابندیوں اور اس کے حقوق کے ساتھ صحیح صحیح اداکرے اْس کو ایک نئی زندگی بخش دی جاتی ہے، گویا گناہوں سے پاک صاف کرکے اور پچھلی زندگی کا معاملہ ہلکا کرکے اْسے موقع دیا جاتا ہے کہ اب اپنی زندگی اللہ کے پسندیدہ نقشے اور اس کے رسولوں کے بتائے ہوئے نظام کے مطابق گزارے اور اپنے پروردگار کے اس زبردست انعام کی قدر کرتے ہوئے اپنی حیات کے ایک عہدِ جدید کا آغاز کرے اور گزری ہوئی زندگی کے وہ تمام رْسوا کن ابواب بند کرکے جن سے رحمت ِ حق نے خود چشم پوشی کا مژدہ سنادیا ہے، ایک نئے باب کی ابتدا کرے جس کا عنوان ہو: ’’اسلامی زندگی‘‘۔ پورے حج میں اسی کی ٹریننگ ہے، اور قدم قدم پر اسی کا تقاضا ہے اور حج کے بعد کی زندگی میں یہی دینی انقلاب اس ’’سفرِعشق‘‘ کے مقبول ہونے کی دلیل ہے، اس لیے کہ بارگاہِ عشق میں جانے والے تو بہت ہوتے ہیں مگر مقبول ہونے والے وہی ہوتے ہیں جو ہمیشہ کے لیے اسیرِ زلف یار ہوجائیں، وہ تادمِ مرگ اس قید سے کبھی چھٹی نہیں پاتے، اور نہ رہائی چاہتے ہیں۔