وڈیو اسکینڈل: ایف آئی اے انکوائری رپورٹ طلب، کمیشن یا پیمرا نواز شریف کی سزا ختم نہیں کر سکتی، عدالت عظمیٰ

431

 

اسلام آباد (آن لائن) عدالت عظمیٰ نے وڈیو اسکینڈل کیس کی سماعت 3 ہفتے کے لیے ملتوی کرتے ہوئے اٹارنی جنرل سے ایف آئی اے کی انکوائری رپورٹ طلب کر لی ہے ‘ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا ہے کہ کمیشن یا پیمرا نوازشریف کی سزا ختم نہیں کرسکتا‘ ہائی کورٹ ہی ریلیف دے سکتا ہے‘ اندھیرے میں چھلانگیں نہیں لگائیں گے‘ پہلے انکوائری رپورٹ دیکھیںگے‘ جج کے کنڈیکٹ کا خود جائزہ لیں گے‘ کیا جج کا سزا دینے کے بعد مجرم کے گھر جانا درست ہے یا نہیں؟ ‘ جبکہ اٹارنی جنرل نے کہا کہ دائر درخواستیں خارج کی جائیں‘ قانونی فورم دستیاب ہیں تو کمیشن بنانے کی بھی ضرورت نہیں‘ ایف آئی اے نے وڈیوکا فرانزک کیا ہے۔ منگل کو چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس عظمت سعید اور جسٹس عمر عطا بندیال پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے وڈیو اسکینڈل سے متعلق درخواست کی سماعت کی۔ اس موقع پر اٹارنی
جنرل انور منصور خان نے اپنے دلائل میں کہا کہ درخواست میں جوڈیشل کمیشن کی استدعا کی گئی ہے جبکہ ایک استدعا جج ارشد ملک کے خلاف کارروائی کی بھی ہے‘ اس حوالے سے جج کا بیان حلفی بھی جمع کرا دیا گیا ہے اور الیکٹرانک کرائم ایکٹ کے تحت ارشد ملک کی شکایت درج کرانے پر مقدمہ درج ہو چکا ہے‘ملزم طارق محمود کو گرفتار کیا گیا ہے ‘ میاں طارق کے بقول اسے چیک دیا گیا جو کیش نہیں ہو سکا ہے اور میاں طارق کے پاس جج ارشد ملک کی کافی وڈیوز موجود ہیں‘ میاں سلیم رضا نامی شخص کو کچھ وڈیو فروخت کی ہیں اور سلیم رضا نے وہی وڈیو ناصر بٹ کو فراہم کیں اور اب ناصر بٹ پاکستان سے باہر جا چکا ہے‘ ایف آئی اے مزید ملزمان تک پہنچ رہی ہے۔ اس پر چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ ایک وڈیو کی تصدیق بھی کرائی گئی ہے۔ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ پاکستان میں کوئی لیبارٹری وڈیو کی فرانزک نہیں کر سکتی‘ ایف آئی اے نے اپنے طور پر فرانزک ضرور کیا ہے مگر آئی ایس او کی تصدیق شدہ لیبارٹری پاکستان میں نہیں ‘2000 ء سے 2003 کے درمیان وڈیوز بنائی گئیں اور اصل وڈیو کیسٹ میں تھیں اور ریکوری یو ایس بی سے ہوئی ہے ‘میاں طارق کی نشاندہی پر بیڈ کی ٹیبل سے وڈیو برآمد ہوئی ہے ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ جج نے ایسی حرکت کی تھی تو تب ہی وہ بلیک میل ہوا۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ایک وڈیو وہ بھی ہے جو پریس کانفرنس میں دکھائی گئی۔ اٹارنی جنرل نے کہاکہ جج نے پریس کانفرنس کی وڈیو کے بعض حصوں کی تردید کی ہے۔ اس موقع پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ آرٹیکل موجود ہیں پیمرا ، نیب آرڈیننس ، توہین عدالت سمیت ایف آئی اے جیسے فورم کام کر رہے ہیں تو موجودہ درخواستوں کو خارج کیا جائے۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ بیان حلفی کے مطابق جج پر وڈیو پیغام کا دباؤ ڈالا گیا‘ عدالت نے تمام الزامات کی سچائی کا جائزہ لینا ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ درخواستوں کی کارروائی سے ہائی کورٹ میں اپیل متاثر ہو گی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کوئی کمیشن یا پیمرا احتساب عدالت کا فیصلہ ختم نہیں کر سکتا ‘ شواہد کا جائزہ لے کر ہائی کورٹ ہی نواز شریف کو ریلیف دے سکتی ہے ‘ جوڈیشل کمیشن صرف رائے دے سکتا ہے فیصلہ نہیں‘ ہائی کورٹ شواہد کا جائزہ لے کر ہی فیصلہ کرے گی ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ جج کے کنڈیکٹ کا خود جائزہ لیں گے‘ کیا جج کا سزا دینے کے بعد مجرم کے گھر جانا درست ہے یا نہیں ؟ کیا مجرم کے رشتے داروں، دوستوں سے ملاقاتیں اور حرم شریف میں ملنا جلنا درست تھا یا نہیں ؟ فکر نہ کریں‘ جج کے کنڈیکٹ پر عدالت عظمٰی ہی فیصلہ دے گی ۔ عدالت نے اٹارنی جنرل سے ایف آئی اے انکوائری رپورٹ طلب کرتے ہوئے سماعت تین ہفتوں کے لیے ملتوی کر دی ۔
ویڈیو اسکینڈل