خوراک میںخود کفیل ملک میں بڑھتی ہوئی غذائی قلت لمحہ فکریہ ہے،میاں زاہد

145

کراچی(اسٹاف رپورٹر)پاکستان بزنس مین اینڈ انٹلیکچولز فور م وآل کراچی انڈسٹریل الائنس کے صدر ،بزنس مین پینل کے سینئر وائس چیئر مین اور سابق صوبائی وزیر میاں زاہد حسین نے کہا ہے کہ پاکستان گندم ،چاول اور دیگر متعدد اجناس کی پیداوار میں خود کفیل ملک ہونے کے باوجود آبادی کے تیسرے حصہ کا غذائی قلت میں مبتلاہونا لمحہ فکریہ ہے۔پاکستان ایک زرعی ملک ہے جو گندم کی پیداوار میں دنیا میں آٹھویں ، چاول کی پیداوار میں دسویں، گنے کی پیداوار میں پانچویں اور دودھ کی پیداوار میں چوتھے نمبر پر ہے اور یہ تمام اشیاء برآمد بھی کرتا ہے جبکہ گندم عالمی اداروں اور پڑوسی ممالک کو مفت دی جا تی ہے مگرپاکستان کروڑوں افراد غذائی قلت سے متا ثر ہیں ۔ میاں زاہد حسین نے بز نس کمیونٹی سے گفتگو میں کہا کہ پانی کی کمی میں پاکستان دنیا میں تیسرے نمبر پر ہے جبکہ غذائی سیکورٹی کی مخدوش صورتحال والے سات ممالک میں بھی شامل ہے۔انھوں نے کہا کہ اسٹیٹ بینک نے اپنی حالیہ رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ ملک میں 47فیصد گھرانے غذائی قلت کا شکا ر ہیں جبکہ ایک سال قبل سروے میں بتایا گیا تھا کہ 60 فیصد آبادی غذائی قلت کاسامنا کر رہی ہے۔اسٹیٹ بینک کی رپورٹ میںسب سے بہتر صورتحال گلگت بلتستان کی بتائی گئی ہے جہاں گندم نہیں اگتی مگرصرف 20 فیصد گھرانے غذائی قلت کا شکار ہیں جبکہ سب سے تشویشناک صورتحال بلوچستان کی ہے جہاں نصف آبادی کسی نہ کسی درجہ میں غذائی قلت کا شکا رہے۔ملک میں غذاو اجناس کی کوئی کمی نہیں مگر اسے اُگانے والے سب سے زیادہ غذائی قلت کا شکار ہیں کیونکہ عوام اور کاشتکاروں کا استحصال کرنے والا مارکیٹ سسٹم ان کے پیٹ بھرنے میں رکاوٹ بنا ہوا ہے جس سے نہ صرف آنے والی نسلیں تباہ ہو رہی ہیں بلکہ سالانہ 10ارب ڈالر کا نقصان بھی ہو رہا ہے جس میں وقت کے ساتھ اضافہ ممکن ہے۔انھوں نے کہا کہ ملک میں نصف سے زیادہ خواتین اور 6 سے 23 ماہ کے 85 فیصد بچے غذائی قلت کا شکا ر ہیں جبکہ تھرمیں نومولودوں کی اموات کا تسلسل جاری ہے ۔ گزشتہ سال ایک عام آدمی کی نصف کمائی کھانے پینے کی نظر ہو جاتی تھی جبکہ اب بڑھتی ہوئی مہنگائی کی وجہ سے صورتحال مزید مخدوش ہو گئی ہے جسکا حل اعلانات، بیانات اور دعووں میں نہیں بلکہ غریب اور متو سط طبقے کی آمدنی بڑھانے کے عملی اقدامات پرمضمر ہے ۔