حکومت نے آئی پی پیز کو 9 کھرب 56 ارب روپے اضافی ادا کیے

139

اسلام آباد(کامرس ڈیسک)پی پی اے سی کے رکن اور حب پاور کمپنی کے چیف ایگزیکٹو خالد منصور کا کہنا تھا کہ قومی احتساب بیورو (نیب) کے ڈپٹی چیئرمین حسین اصغر کی سربراہی میں تحقیقاتی کمیشن نے بریفنگ کے لیے بلایا تھا اور انہیں ٹیرف کی ترتیب، منظوری کا عمل اور بعد میں آنے والے منافع سے متعلق اعداد و شمار فراہم کرنے کی ضرورت تھی۔انہوں نے کہا کہ ایک سال کے اعداد و شمار تحقیقاتی کمیشن کو اس فارمولے کے ساتھ فراہم کیے گئے ہیں کہ کس طرح آئی پی پیز ماضی کا ڈیٹا اور بروقت انداز میں ٹیرف ترتیب دینے کے طریقہ کار کا ریکارڈ شیئر کرسکتے ہیں۔اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ آئی پی پیز سے متعلق کمیشن کا عام تصور یہ ہے کہ انہوں نے جائز منافع سے 3 سے 4 گنا زیادہ منافع حاصل کیا۔چیف ایگزیکٹو کا کہنا تھا کہ گردشی قرضے 900 ارب روپے سے تجاوز کرگئے ہیں اور 22 آئی پی پیز کے تقریباً 370 ارب روپے حکومت پر واجب الادا ہیں۔واضح رہے کہ آئی سی ڈی، سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے توانائی، نیب اور دیگر حکومتی اداروں جیسے مختلف فورمز پر آئی پی پیز کے خلاف سنگین سطح کے الزامات لگائے گئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ یہ عام تصور ہے کہ آئی پی پیز نے غیر معمولی منافع حاصل کیا لیکن جو یہ شبہات اٹھا رہے ہیں ’ان کے سمجھنے میں بہت بڑا فرق‘ ہے۔پوچھا گیا کہ آئی پی پیز نے اس صورتحال کا مقابلہ کس طرح کرنے کا منصوبہ بنایا تھا، تو اس پر خالد منصور کا کہنا تھا کہ یہ ابھی واضح نہیں ہے کہ جو الزامات لگا رہے ہیں ان کا کیا مقصد ہوسکتا ہے۔حکومت آئی پی پیز کے بلوں کی ادائیگیوں میں تذبذب کاشکارتاہم انہوں نے کہا کہ آئی پی پیز تحقیقاتی کمیشن کے ساتھ تعاون کر رہی ہیں اور اس معاملے پر سینیٹ کمیٹی سمیت وزیر اعظم سے بات چیت کے دوران اپنا موقف پیش کیا جائے گا۔انہوں نے کہا کہ تحقیقاتی کمیشن کو بتایا گیا کہ آئی پی پیز ملک کی کُل بجلی کی فراہمی کا 50 فیصد پیدا کر رہے ہیں اور یہ غیرمنصفانہ ہوگا کہ معاہدوں کے درمیان زمینی قوانین تبدیل کردیے جائیں۔انہوں نے دعویٰ کیا کہ کمیشن کو کہا گیا کہ ’جو آپ کرنا چاہتے ہیں وہ کریں لیکن اس کے اثرات پر بھی غور کریں، ملک کا خطرہ بڑھ جائیں گا اور یہ سرمایہ کاری کے لیے نقصان کاباعث ہے ۔