مظلوم عافیہ کا غدار شکیل سے تبادلہ!

593

وزیر اعظم عمران خان کا دورہ امریکا مکمل ہوگیا ہے ۔ اس دورے سے دونوں ممالک کو کیا حاصل ہوا ، اس کا عقدہ کچھ عرصے کے بعد ہی کھل سکے گا کیوں کہ عمران خان اور ڈونالڈ ٹرمپ دونوں ہی نے اس معاملے میں میڈیا کو ابہام میں رکھا ہے ۔ اب تک جو کچھ بھی سامنے آیا ہے اس پر بھی یقین نہیں کیا جاسکتا کہ عمران خان اور ٹرمپ دونوں کی شہرت یو ٹرن کی ہے ۔ دونوں ہی لیڈر جو کچھ بھی کہتے ہیں اس پر کچھ عرصے کے بعد ہی پلٹ جاتے ہیں ۔ مزید افسوسناک بات یہ ہے کہ اس پر شرمندہ بھی نہیں ہوتے ہیں ۔ کچھ ایسا ہی عافیہ صدیقی کی وطن واپسی کا معاملہ اور امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے مسئلہ کشمیر پر ثالثی کی پیشکش کا ہے ۔ اخباری اطلاعات کے مطابق امریکی صدر ٹرمپ نے مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے ثالثی کی پیشکش کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس بارے میں ان کی بھارتی صدر نریندر مودی سے بات ہوچکی ہے اور مودی ثالثی کے امریکی کردار پر رضامند ہیں ۔ٹرمپ نے کہا ہے کہ مودی نے بھی مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے مدد مانگی ہے ۔ دوسری جانب بھارت کا ردعمل بھی سامنے آیاہے جس میں کہا گیا ہے کہ مودی نے ٹرمپ سے کشمیر پر ثالثی کی کبھی کوئی درخواست نہیں کی ۔ بھارتی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ معاہدہ تاشقند اور شملہ معاہدے کے تحت بھارت اس مسئلے کو پاکستان کے ساتھ باہمی مذاکرات کے ذریعے ہی حل کرنے کا حامی ہے ۔ ٹرمپ کی کسی بھی مسئلے پر سنجیدگی کا اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ انہوں نے کہا ہے کہ افغانستان کا مسئلہ ایک ہفتے میں حل ہوسکتا ہے مگر اس کے لیے ایک کروڑ افراد مارنے پڑیں گے ۔افغانستان ہو یا عراق یا کوئی اور امریکی جارحیت کا شکار ملک ، یہ حقیقت ہے کہ امریکا ہر جگہ بے دریغ اور بلا روک ٹوک بمباری کرتا رہا ہے جس سے ہر جگہ لاکھوں بے گناہ افراد کی ہلاکت ہوئی ہے ۔ یہ بھی تاریخ کا حصہ ہے کہ ویتنام ہو یا افغانستان ، عراق ہو یا شام کسی بھی ملک میں امریکا کو فتح نہیں ملی ہے اور ہر جگہ سے اسے ذلیل و خوار ہو کر نکلنا پڑا ہے ۔اس کے باوجود ٹرمپ کی اس یاوہ گوئی پر مسکرایا ہی جاسکتا ہے۔ کچھ ایسا ہی معاملہ وزیر اعظم عمران خان نے ڈاکٹر عافیہ کے معاملے پر کیا ہے ۔ مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران عمران خان انگلی کے اشارے سے پاکستانی صحافیوں کو عافیہ صدیقی کے بارے میں سوال کرنے سے منع کرتے رہے ۔ اس کے باوجود جب ایک پاکستانی نژاد امریکی صحافی نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے بارے میں سوال کر ہی لیا تو عمران خان نے بہ مشکل ٹرمپ کی طرف دیکھتے ہوئے یہ جواب دیا کہ اس پر بات کریں گے ۔ بعد میں فاکس نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ پاکستان شکیل آفریدی کو عافیہ صدیقی کے بدلے امریکا کے حوالے کرنے پر تیار ہے ۔ ڈاکٹر عافیہ کے بدلے شکیل آفریدی کو امریکا کے حوالے کرنے کی پیشکش کرتے ہوئے عمران خان یہ بھول گئے کہ یہ کوئی مجرموں کی حوالگی کا معاملہ نہیں ہے ۔ ڈاکٹر عافیہ کا معاملہ یکسر مختلف ہے ، انہیں پاکستان سے اغوا کرکے افغانستان کی بگرام جیل میں پہنچایا گیا ۔ اس امر کا سب نے اعتراف کیا کہ جنرل پرویز مشرف نے ڈاکٹر عافیہ کو امریکی حکام کے حوالے کرنے کے عوض بھاری مالیت میں ڈالر وصول کیے ۔ پھر ایک جعلی مقدمے میں ڈاکٹر عافیہ کو امریکی عدالت نے بھونڈے طریقے سے سزا دی ۔ جبکہ شکیل آفریدی پر یہ جرم ثابت ہوچکا ہے کہ پاکستان میں امریکا کا ایجنٹ تھا اور اس نے پاکستان کی سالمیت کے خلاف کام کیا ۔ اصولی طور پر شکیل آفریدی کو پاکستان کی سلامتی کے منافی کام کرنے پر موت کی سزا دے دینی چاہیے تھی مگر عمران خان نے یہ پیشکش کرکے ڈاکٹر عافیہ اور شکیل آفریدی کو ایک صف میں لا کھڑا کیا ہے ۔ یادش بخیر طالبان نے بھی ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کا معاملہ اپنی شرائط میں رکھا ہوا ہے اور اطلاعات کے مطابق اس پر امریکا راضی بھی ہے ۔ ابھی تک یہ علم نہیں ہوسکا ہے کہ عمران خان کے دورہ امریکا کے نتیجے میں پاکستان پر عاید امریکی تجارتی پابندیاں کتنی نرم ہوئیں اور امریکا نے پاکستان سے اس کے عوض کیا فرمائشیں کیں۔ ٹرمپ کے اس بیان سے ضرور تشویش ہوئی ہے کہ گزشتہ پاکستانی حکومتوں نے جن امریکی فرمائشوں کو پورا کرنے سے انکار کردیا تھا ، عمرانی حکومت وہ سب کچھ کررہی ہے ا س لیے عمران خان ٹرمپ کے گڈ بوائے ہیں ۔ عمران خان نے ٹرمپ کے اس دعوے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکا کے ساتھ کیے گئے وعدے پورے کریں گے اور یہ وعدے پورے کرنے میں پاکستانی فوجی قیادت ان کے ساتھ ہے ۔ قوم یہ جاننے کا حق رکھتی ہے کہ آخر یہ کون سے وعدے ہیں جنہیں پورا کرنے کی عمران خان یقین دہانی کروارہے ہیں اور جنہیں سابقہ حکومتوں نے پورا کرنے سے انکار کردیا تھا جس کے جواب میں پاکستان کے لیے امریکی امداد معطل کردی گئی تھی ۔برسبیل تذکرہ جسے امریکا پاکستان کے لیے امداد قرار دیتا ہے وہ پاکستان میں سہولیات استعمال کرنے کا بل ہے جو امریکا اور ناٹو افواج پاکستان کو ادا کرنے کی پابند ہیں ۔ اس بل میں امریکی فوجی بھاری روڈ ٹرانسپورٹ سے ٹوٹنے والی سڑکیں ، ٹول ٹیکس ، بندرگاہ کے استعمال اور پاکستانی ہوائی اڈوں اور پاکستانی فضاء کے استعمال کے چارجز شامل ہیں جسے ادا کرنے سے امریکا انکاری ہے ۔امریکا میں عمران خان کے پاکستانی کمیونٹی سے خطاب کو بھی پاکستان میں زبردست تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے ۔ انہوں نے کیپیٹل ایرینا میں پاکستانی کمیونٹی سے خطاب کے دوران پاکستان کے لیے لابی کرنے ، پاکستان کے لیے کام کرنے کی اپیل کرنے کے بجائے نواز شریف کے کمرہ جیل سے ائرکنڈیشنر اور ٹی وی نکلوانے جیسی احمقانہ باتیں کیں اور آصف علی زرداری کو بیرک میں بھیجنے کا اعلان کیا ۔ دیکھیے وقت کے ساتھ ساتھ تھیلے سے کیا کچھ باہر آتا ہے ۔