قادیانی اور مسلمان

1458

سوشل میڈیا پر آج کل ایک ویڈیو وائرل ہے۔ قادیانی عبدالشکور کی وائٹ ہائوس میں صدر ٹرمپ سے ملاقات کی ویڈیو۔ سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر کا بیٹا ترجمانی کے فرائض سرانجام دے رہا ہے۔ عبدالشکور نے صدر ٹرمپ سے کہا ’’میرا احمدیہ مسلم کمیونٹی پاکستان سے تعلق ہے۔ 1974 میں ہم کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا گیا۔ ہمارے گھر بھی لوٹ لیے۔ ہماری دکانیں بھی لوٹ لی گئیں۔ کئی گھروں کو آگ لگا دی۔ پھر میں ربوہ آگیا اپنے بچوں کو لے کر۔ سرگودھا میں دکان تھی۔ مجھے کتابیں بیچنے کے جرم میں پانچ سال قید اور چھ لاکھ روپے جرمانے کی سزادی گئی۔ سوا تین سال قید کاٹ کر اب میں رہا ہوکر آیا ہوں۔ ہم بڑے پرامن طریقے سے رہتے ہیں۔ میں امریکا میں اپنے آپ کو مسلمان کہہ سکتا ہوں لیکن پاکستان میں اپنے آپ کو مسلمان نہیں کہہ سکتا۔ وہ ہمیں سزا دیتے ہیں۔ ہماری جماعت جو پرامن جماعت ہے اس کو وہ لوگ گالیاں دیتے ہیں۔ گھر جلاتے ہیں۔ ہم کسی کو کچھ نہیں کہتے۔ اللہ پر چھوڑ دیا ہے‘‘۔
اس مکالمے میں قادیانیوں کی پاکستان میں تنگ اور سرگرداں زندگی کا پُر فریب تاثر پختہ کرنے کے ساتھ قادیانی عبدالشکور خود کو احمدی مسلم اور مسلمان کہنے پر مصر ہے۔ وہ قادیانیوں کی مسلم شناخت پر بضد ہے۔ ہندو تسلیم کرتے ہیں کہ وہ ہندو ہیں اور ہم مسلمان۔ عیسائی مانتے ہیں کہ وہ عیسائی ہیں اور ہم مسلمان۔ سکھ اقرار کرتے ہیں کہ وہ سکھ ہیں اور ہم مسلمان۔ یہودی سمجھتے ہیں کہ وہ یہودی ہیں اور ہم مسلمان۔ ہندئوں، سکھوں، عیسائیوں اور یہودیوں سے شناخت کے حوالے سے ہمارا کوئی جھگڑا نہیں۔ ہم ان کی شناخت کے دعویدار ہیں اور نہ وہ ہماری شناخت اختیار کرنے کی کسی کوشش میں مصروف۔ قادیانیوں کا معاملہ یہ ہے کہ وہ خود کو مسلم سمجھتے ہیں اور ہمیںغیر مسلم۔ قادیانی عقیدہ یہ ہے کہ جو مرزا غلام احمد قادیانی کو نبی مانتا ہے وہ مسلمان اور جو نہیں مانتا وہ کافر ہے۔ قادیانیوں کے عقائد اور تحریروں میں مسلمانوں کے ساتھ شادی بیاہ سے لے کر جنازے اور تدفین تک کسی قسم کا معاملہ رکھنے کی قطعاً گنجائش نہیں ہے۔ مسلمان جو رسالت مآبؐ کے عہد سے تاحال مسلم شناخت کے حامل ہیں انہیں قادیانی کافر، جہنمی، حرامی اور رنڈیوں کی اولاد اور پکا کافر پکارتے ہیں۔ مرزا قادیانی اور اس کے پیرو کاروں کی تحریروں سے چند حوالے ملا حظہ فرمائیے:
’’اور ہماری فتح کا قائل نہیں ہوگا تو صاف سمجھا جاوے گا کہ اس کو ولدالحرام بننے کا شوق ہے اور حلال زادہ نہیں ہے‘‘۔ (انوار اسلام صفحہ 30روحانی خزائن جلد9صفحہ 31از مرزا قادیانی) ’’میری ان کتابوں کو ہر مسلمان محبت کی نظر سے دیکھتا ہے اور اس کے معارف سے فائدہ اٹھاتا ہے اور میری دعوت کی تصدیق کرتا ہے اور اسے قبول کرتا ہے مگر رنڈیوں (بد کار عورتوں) کی اولاد نے میری تصدیق نہیں کی‘‘۔ (آئینہ کمالات اسلام صفحہ 547,548 روحانی خزائن جلد5 صفحہ 547,548 از مرزا قادیانی) ’’دشمن ہمارے بیابانوں کے خنزیر ہوگئے اور ان کی عورتیں کتیوں سے بڑھ گئیں‘‘۔ (نجم الہدیٰ صفحہ 53 روحانی خزائن جلد 14صفحہ 53از مرزا قادیانی) ’’جو میرے مخالف تھے ان کا نام عیسائی اور یہودی اور مشرک رکھا گیا‘‘۔ (نزول المسیح (حاشیہ) صفحہ 4روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 382از مرزا قادیانی) ’’اور مجھے بشارت دی ہے کہ جس نے تجھے شناخت کرنے کے بعد تیری دشمنی اور تیری مخالفت اختیار کی وہ جہنمی ہے‘‘۔ (تذکرہ مجموعہ الہامات صفحہ 168طبع دوم از مرزا قادیانی) ’’ہر ایک ایسا شخص جو موسیٰ کو تو مانتا ہے مگر عیسیٰ کو نہیں مانتا یا عیسیٰ کو مانتا ہے مگر محمد کو نہیں مانتا اور یا محمد کو مانتا ہے پر مسیح موعود کو نہیں مانتا وہ نہ صرف کافر بلکہ پکا کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہے‘‘۔ (کلمۃ الفصل صفحہ 110از مرزا بشیر احمد ایم اے ابن مرزا غلام احمد قادیانی) ’’کل مسلمان جو مسیح موعود (مرزا قادیانی) کی بیعت میں شامل نہیں ہوئے خواہ انہوں نے مسیح موعود (مرزا قادیانی) کا نام بھی نہیں سنا وہ کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہیں‘‘۔ (آئینہ صداقت صفحہ 35از مرزا بشیرالدین ابن مرزا غلام احمد قادیانی) ’’ہمارا یہ فرض ہے کہ غیر احمدیوں کو مسلمان سمجھیں اور نہ ان کے پیچھے نماز پڑھیں کیونکہ ہمارے نزدیک وہ خدا تعالیٰ کے ایک نبی کے منکر ہیں‘‘۔ (انوار خلافت صفحہ 90از مرزا محمود) ’’غیر احمدی کا بچہ بھی غیر احمدی ہی ہوا اس لیے اس کا جنازہ بھی نہیں پڑھنا چا ہیے‘‘۔ (انوار خلافت صفحہ 93) ’’ایک اور بھی سوال ہے کہ غیر احمدیوں کو لڑکی دینا جائز ہے یا نہیں۔ مسیح موعود (مرزا غلام احمد قادیانی) نے اس احمدی پر سخت ناراضی کا اظہار کیا ہے جو اپنی لڑکی غیر احمدی کو دے۔ آپ سے ایک شخص نے بار بار پوچھا اور کئی قسم کی مجبوریوں کو پیش کیا لیکن آپ نے اس کو یہی فرمایا کہ لڑکی کو بٹھائے رکھو لیکن غیر احمدیوں میں نہ دو۔ آپ کی وفات کے بعد اس نے غیر احمدیوں کو لڑکی دے دی تو خلیفہ اول نے اس کو احمدیوں کی امامت سے ہٹا دیا اور جماعت سے خارج کردیا اور اپنی خلافت کے چھ سال میں اس کی توبہ قبول نہ کی۔ باوجود یکہ وہ بار بار توبہ کرتا رہا‘‘۔ (انواخلافت صفحہ 93,94از مرزا بشیرالدین محمود ابن مرزا غلام احمد قادیانی) ’’ہم تو دیکھتے ہیں کہ مسیح موعود (مرزا) نے غیر احمدیوں کے ساتھ صرف وہی سلوک جائز رکھا ہے جو نبی کریم نے عیسائیوں کے ساتھ کیا۔ غیر احمدیوں سے ہماری نمازیں الگ کی گئیں۔ ان کو لڑکیاں دینا حرام قرار دیا گیا۔ ان کے جنازے پڑھنے سے روکا گیا۔ اب باقی کیا رہ گیا ہے جو ہم ان کے ساتھ مل کرکر سکتے ہیں۔ دو قسم کے تعلقات ہوتے ہیں ایک دینی دوسرا دنیوی۔ دینی تعلق کا سب سے بڑا ذریعہ عبادت کا اکٹھا ہونا ہے اور دنیوی تعلق کا سب سے بڑا ذریعہ رشتہ وناتا ہے سو یہ دونوں ہمارے لیے حرام قرار دیے گئے ہیں‘‘۔ (کلمۃ الفصل صفحہ 169از مرزا بشیر احمد ابن مرزا قادیانی)
اخباری کالم اس قدر تفصیل کے متحمل نہیں ہوتے لیکن اس کے باوجود ہم نے قادیانیوں کی کتابوں سے امت مسلمہ کے بارے میں ان کے خیالات اور عقائد کھول کھول کر بیان کردیے ہیں جن کے مطالعہ کے بعد مسلمانوں کے باب میں ان کی نفرت اور شدید نفرت اور بد نیتی واضح ہے۔ مسلمانوں سے اس درجہ نفرت اور بُعد کے باوجود قادیانیوں کی کوشش ہے کہ انہیں احمدیہ مسلم جماعت کے نام سے پکارا جائے۔ ان کی اسلامی شناخت ہو۔ انہیں مسلمانوں کی صف میں شمار کیا جائے۔ ان کی عبادت گاہ کے لیے مسجد کا لفظ استعمال کیا جائے۔ ان کے زندیقانہ اور تمام غیر اسلامی اعمال کے لیے اسلامی اصطلاحات استعمال کی جائیں۔
ہندوستان میں انگریز کے دور میں قادیانیت کی بنیاد رکھی گئی۔ یہ خالصتاً انگریزوں کی تحریک تھی۔ اس کا مقصد مسلمانوں کو ان کے دین اور خاص طور پر جہاد فی سبیل اللہ سے بیگانہ کرنا تھا۔ 1857 کی جنگ آزادی کے بعد بھی جب برصغیر کے مسلمان انگریزوں کے خلاف آزدی کی تحریکیں بپا کرتے رہے تو برطانیہ سے ایک اعلیٰ وفد ہندوستان بھیجا گیا۔ اس وفد نے عیسائی مشنریز، انڈین سول سروس کے اعلیٰ افسران خصوصاً یہودیوں سے ملا قاتیں کیں۔ مسلمانوں میں مسلم مذہبی رہنمائوں، گدی نشینوں اور اولیا کے اثر رسوخ کا مطالعہ کیا۔ برطانیہ واپس جاکر انہوں نے ایک رپورٹ مرتب کی جس میں درج تھا ’’ملک ہندوستان کی آبادی کی اکثریت اندھا دھند اپنے پیروئوں یعنی روحانی رہنمائوں کی پیروی کرتی ہے۔ اگر اس مرحلے پر ہم ایک ایسا آدمی تلاش کرنے میں کامیاب ہو جائیں جو اس بات کے لیے تیار ہو کہ اپنے لیے ’’ظل نبی‘‘ ہونے کا دعویٰ کردے تو لوگوں کی بڑی تعداد اس کے گرد جمع ہوجائے گی لیکن اس مقصد کے لیے مسلمان عوام میں سے کسی شخص کو تر غیب دینا بہت مشکل ہے۔ اگر یہ مسئلہ حل ہو جائے تو ایسے شخص کی نبوت کو سرکاری سر پرستی میں پروان چڑھایا جا سکتا ہے‘‘۔ (مطبوعہ رپورٹ سے اقتباس: انڈیا آفس لائبریری لندن) انگریزوں کو بالآخر مرزا غلام احمد قادیانی مل گیا جس نے نہ صرف محمد ہونے کا دعویٰ کیا بلکہ خود کو عیسیٰ اور امام مہدی بھی کہا۔ اپنی جماعت کو صحابہ کرام کی جماعت کہا، اپنی بیویوں کو امہات المو منین اور اپنے گھر والوں کو اہل بیت کا خطاب دیا۔ انگریزوں نے لوگوں کو پیسے دے کر مرزا کے مذہب میں شامل کرایا۔ مرزا کو مسلمانوں کی عقیدتوں اور محبتوں کو اپنی جانب کھینچنے، جہاد فی سبیل اللہ کو منسوخ قرار دینے اور انگریز حکومت کی اندھی اطاعت کروانے کا ٹاسک دیا گیا۔
(جاری ہے)