تعلیم کے ساتھ کھلواڑ

643

پاکستان تحر یک انصا ف کی موجودہ حکومت 2018 کے عام انتخابات میں صوبے کی انتخابی تاریخ کے برعکس پانچ سالہ حکومت کے بعد دوبارہ برسر اقتدار آئی تو عام تاثر یہ تھا کہ پچھلے پانچ سالہ اقتدار کے تجربے کے نتیجے نیز بھاری اکثریت کی حامل ہونے کے باعث یہ حکومت کارکردگی اور نتائج کے لحاظ سے ماضی کی حکومتوں کے برعکس ایک کامیاب اور مثالی حکومت ثابت ہوگی لیکن اگر پچھلے ایک سال کے دوران صرف تعلیم کے شعبے میں اس کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو اس سے جو نقشہ ابھرکر سامنے آتا ہے وہ اتنا مایوس کن ہے کہ ماضی کی حکومتوں میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ واضح رہے کہ پی ٹی آئی کے ایک قوم ایک نصاب کے دعوئوں کے برعکس صوبے میں اب بھی بیک وقت تعلیم کے کئی ماڈل کام کر رہے ہیں جو نہ صرف من مانی فیسیں وصول کر رہے ہیں بلکہ ہر تعلیمی سسٹم حکومتی ہدایات سے ہٹ کر اپنا اپنا نصاب بھی نئی نسل پر ٹھونس رہا ہے حالانکہ پی ٹی آئی کا دعو یٰ تھا کہ صوبے کے تمام تعلیمی اداروں میں یکساں نظام اور نصاب رائج کیا جائے گا لیکن اس ضمن میں اب تک معمولی پیش رفت بھی نہیں ہو سکی ہے بلکہ سرکاری تعلیمی اداروں اور مختلف پرائیو یٹ ایجوکیشن سسٹمزکے درمیان نصاب اور فیسوں کی خلیج دن بدن مذید بڑھتی جا رہی ہے جس سے معاشرہ واضح طور پر تین چار طبقات میں تقسیم ہوتا جارہا ہے۔ اسی طرح موجودہ حکومت کا یہ بھی دعویٰ تھا کہ تمام سرکاری اداروں بالخصوص شعبہ تعلیم کو حکومتی مداخلت سے پاک رکھا جائے گا جس کا ہر سطح پر بھرپور خیرمقدم کیا گیا تھا لیکن ان اطلاعات کہ خیبر پختون خوا حکومت نے صوبے میں اساتذہ کے تبادلوں کو مقامی ایم پی ایز کی سفارش سے مشروط کردیا ہے اور اساتذہ کے تبادلے اب مقامی ایم پی ایز کی پرچی یا تحریری درخواست پر کیے جائیں گے اور اس سلسلے میں صوبائی مشیر تعلیم کے دفتر کے باہر نوٹس بھی لگادیا گیا ہے لہٰذا یہ فیصلہ نہ صرف متذکرہ بالا دعوے کی نفی ہے بلکہ شعبہ تعلیم کے ساتھ سنگین مذاق کے بھی مترادف ہے۔ اس فیصلے کے محکمے کی کارکردگی اور رہی سہی ساکھ پرکیا اثرات پڑیں گے اسے ہرکوئی بخوبی سمجھ سکتا ہے۔
ایک اور خبر کے مطابق صوبائی حکومت نے مالی مشکلات کے باعث رواں مالی سال کے دوران صوبے میں ایک بھی نیا اسکول تعمیر نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس خبر میں بتایا گیا ہے کہ صوبائی حکومت نے رواں مالی سال کے دوران محکمہ ابتدائی وثانوی تعلیم کے 67منصوبوں کے لیے 9ارب 69کروڑ روپے مختص کیے ہیں ان میں 52جاری اور 15نئے منصوبے شامل ہیں البتہ ان 15 منصوبوں میں نئے اسکولوں کی تعمیر کا کوئی بھی منصوبہ شامل نہیں ہے حالاںکہ انٹرنل مانیٹرنگ یونٹ کی رپورٹ کے مطابق خیبر پختون خوا میں 18لاکھ بچے ایسے ہیں جو سہولت نہ ہونے کے باعث تعلیم سے محروم ہیں جب کہ 70فی صد بچوںکا پرائمری کے بعد تعلیم ادھوری چھوڑ نے کے اعداد وشمار بھی تعلیمی شعبے کی زبوں حالی کی ایک اور واضح مثال ہے لہٰذا ایسے میں اگر سارے سال میں ایک بھی سرکاری اسکول تعمیر نہیں کیا جائے گا تو اس کا لامحالہ نقصان اس صوبے کے غریب بچوں کو ان پڑھ اور جاہل رہنے کی صورت میں برداشت کرنا پڑے گا۔
گزشتہ روز یہ اطلاع بھی سامنے آ چکی ہے کہ صوبائی حکومت نے صوبہ بھر میں قائم اساتذہ کے تربیتی ادارے ریجنل انسٹی ٹیوٹ آف ٹیچرز ایجوکیشن کو ختم کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ یاد رہے کہ صوبے میں اس وقت اساتذہ کی تربیت کے 21ریجنل انسٹی ٹیوٹ آف ٹیچرز ایجوکیشن ادارے قائم ہیں جن کے خاتمے کے بارے میںصوبائی مشیر تعلیم کا کہنا ہے کہ اس اقدام کا مقصد اخراجات کنٹرول کرنا ہے۔
دوسری جانب تعلیمی نصاب میں نت نئے تجربات اور غیرملکی ڈونرز ایجنسیوں کی کھلم کھل مداخلت کا یہ حال ہے کہ ان ایجنسیوں کی ہدایات پر پہلے اسلامیات، اردو، معاشرتی علوم اور انگریزی کے مختلف سطحوں کے مضامین سے اسلام کے بنیادی عقائد، سیرت رسول اللہ، سیرت صحابہ اور اسلامی تاریخ کے اسباق چن چن کر نکالے گئے اور ان کی جگہ سیکولر اور لبرل مائینڈ پر مبنی مضامین شامل نصاب کیے گئے اور اب اس ضمن میں ایک اور بلنڈر کرتے ہوئے جماعت نہم ودہم کی اسلامیات کی خیبر پختون خوا ٹیکسٹ بک بورڈ کی شائع کردہ کتاب میں سورۃ الانفال کے ترجمے میں جنگ احد کے موقع پر صحابہ کرام کے مال غنیمت جمع کرنے کے واقعے کا ترجمہ لوٹ مار لکھ کر جہالت اور اسلام بیزاری کی انتہا کی گئی ہے جس کی بازگشت نہ صرف میڈیا اور صوبائی اسمبلی میں سنائی دی ہے بلکہ اس دیدہ دلیری کا نوٹس پشاور ہائیکورٹ نے بھی لیتے ہوئے محکمہ تعلیم سے وضاحت طلب کی ہے۔ اس ظلم کے بارے میں صوبائی حکومت کا کھسیانی بلی کھمبا نوچے کے مترادف کہنا ہے کہ یہ الفاظ غلطی سے شامل اشاعت ہوئے ہیں اور یہ کہ تمام شائع شدہ کتب واپس منگوالی گئی ہیں اور یہ کہ نئی چھپنے والی کتب میں اس کی تصحیح کر دی جائے گی۔ سوال یہ ہے کہ متذکرہ نصاب تیاری اور نظر ثانی کے کئی مراحل سے گزرنے کے باوجود یہ توہین آمیز الفاظ آخر کیوں کر شامل نصاب ہوئے اور کسی بھی مرحلے پر اس کو کسی نے چیک کرنے کی زحمت کیوں کر گوارہ نہیں کی لہٰذا اس فاش غلطی کے مرتکب عناصر کی نہ صرف نشاندہی ضروری ہے بلکہ انہیں قرار واقعی سزا بھی ضرور ملنی چاہیے۔