ہم سے غلطی ہوئی

271

جویریہ سعید

ہم سے غلطی ہوئی۔ کیونکہ خود ہم بھی تھکے ہارے پریشان تھے۔
ہماری زندگی کی اپنی کٹھنائیاں تھیں۔ ہر دور کی طرح ہم بھی گذرے زمانوں کا تاوان ادا کررہے تھے۔ ہم بھی خود پر بیتے لمحوں کا کرب کاٹ رہے تھے۔ ہم خود اپنے اندھیروں میں چل کر راستے ڈھونڈ رہے تھے۔ راستے بنا رہے تھے۔
مگر میرے بچے!
ہم نے چاہا کہ تمہیں اس کرب کی خبر نہ ہو۔
ہم نہ اتنے سمارٹ تھے اور نہ اتنے بہادر کہ تمہیں ان کٹھنائیوں کی تفصیل دکھاتے جس کا کرب جھیلنا ہمارا سب سے بڑا چیلنج تھا۔ ہم نے چاہا تھا کہ تمہیں بہلا دیں۔ تم ہمارے بہلاووں سے مان کر سو جاؤ تو ہم رات چکی پیستے ہوئے گزار لیں۔ اور صبح تمہیں پیٹ بھر کھانے کے لئے روٹی تیار ملے۔ اس لیے ہم تمہیں بہلاتے رہے۔
اب یہی عقل و دانش اب تمہیں تمہارے بڑوں کے جرائم کی فہرست دکھاتے ہوئے ان کی قربانیوں اور اپنی دھوکہ دہی کا بیان غائب کردیتی ہے۔
تمہیں لگا تمہاری ماں تمہیں چھوڑ کر نوکری پر نکل جاتی تھی۔ تمہیں کیا خبر کہ معاشی عسرت ایک عفریت ہے۔
تمہارے والدین کی نسل کی عورت نے دہلیز اس لیے نہ پار کی تھی کہ پزا ہٹ، اور میکڈانلڈ میں انجوائے کرکے سیلفیاں لے سکے یا دبئی شاپنگ کے لئے جاسکے۔ تمہارے ماں باپ نے یہ سوچا تھا کہ معاشی ناہمواریوں اور سماجی مشکلات کے جہنم سے تمہیں بچانے کا طریقہ شاید یہ ہوگا کہ تمہیں اچھے اسکول میں پڑھایا جائے۔ دنیا کی نعمتیں دی جائیں۔ تاکہ تم اپنی ماں کی طرح نہ بنو جس کے پاس خود اعتمادی اور اپنی ذات کا اعتبار جیتنے کے لیے مواقع کا وہ جہان نہ تھا جو تمہارے پاس ہے۔ اس نے سوچا تھا کہ پڑھ لکھ کر دنیا میں جینے کا گر سیکھ کر تم مضبوط بنو گے۔ تمہارے باپ نے سوچا تھا کہ جس گھر کے کرائے کو بھرنے کے لیے اسے ہر ماہ نوکری پر سو باتیں سننا پڑتی تھیں، مالک مکان کی مصیبتیں سہنا پڑتی تھیں، تم پڑھ لکھ کر اس سے بہت پہلے اپنا مکان بنانے کے قابل ہوگئے تو تم اس اذیت سے بچ جاؤ گے۔ تمہارے والدین کی نسل کےپاس چھوٹا گھرانہ کی عیاشی نہ تھی۔ انہیں اپنے بچوں سے پہلے اپنے بہن بھائیوں کو پیروں پر کھڑا کرنا ہوتا تھا۔تو پیلے اسکولوں میں کپڑے کے تھیلوں میں کتابیں لے جانے والوں نے خواب دیکھا کہ ان کے بچے انگریزی اسکولوں میں نت نئے بیگز اور پانی کی بوتلیں اور لنچ باکسز لے کر جائیں۔ کیونکہ اگر وہ ایسا نہ کرتے تو تم منہ بسورتے ہوئے آتے تھے کہ میرا دوست مجھے تنگ کرتا ہے۔
اور تمہارے ماں باپ نے ایسا کیوں سوچا؟
اس لیے کہ اس وقت انہیں یہی سمجھایا گیا تھا۔ وہ سب ذرائع جو آج تمہیں سکھاتے ہیں نا کہ تمہارے ماں باپ نے تمہارے ساتھ کیا کیا زیادتیاں کیں، یہی عقل و دانش کے نت نئے بیج اگانے والے ذرائع اس وقت کے نوجوان تمہارے ماں باپ کو یہی یقین دلاتے تھے کہ اپنے بچوں کا مستقبل محفوظ کرنے کا یہی طریقہ ہے۔ انہیں بہترین جگہ پڑھا و، بڑا آدمی بناؤ، کیرئیر دو، خود مختار، خوشحال اور خود اعتماد بناؤ۔ تو وہ اس کرب سے بچ جائیں گے جس سے تم گذرے۔
وہ عقل و دانش اس وقت اپنی شے فروخت کرنے کے لیے اس سودے کے سائڈ ایفیکٹس نہیں بتاتی تھی۔
اب یہی عقل و دانش اب تمہیں تمہارے بڑوں کے جرائم کی فہرست دکھاتے ہوئے ان کی قربانیوں اور اپنی دھوکہ دہی کا بیان غائب کردیتی ہے۔
اب تم کڑھتے ہو کہ تمہاری ماں تم کو چھوڑ کر جاتی تھی تو تمہیں دیے جانے والے وقت اور تمہارے ساتھ گزارے لمحوں میں سے بہت کچھ چھین کر نکلتی تھی۔ تمہارا باپ تمہیں بہتر گریڈز کے حصول پر مجبور کرکے تمہیں جان لیوا دوڑ کا تھکا ہوا ایتھیلٹ بنانے پر مجبور کررہا تھا۔
ان ماؤں کی اولاد بھی خفا ہے جو گھر گرہستی تک محدود رہیں اور بچوں کو لذیذ کھانے، صاف ستھرا گھر اور ہر چیز وقت پر تیار فراہم کرتی رہیں۔ صبر کرتی رہیں۔ اور وہ بچے بھی ناراض ہیں جن کی مائیں ان کی مہنگی تعلیم اور اچھے اسٹیٹس کی خاطر باہر دھکے کھاتی رہیں۔
وہ نسل جس کے جینے پر تعجب کرکے کہتے ہو کہ ان خوشیوں کے بغیر تو انہیں مر جانا چاہیے، اس نسل نے اپنی خوشیاں اولاد کی خوشی سے باندھ دینی چاہی تھیں۔ ہاں آج وہ فرد جرم اور سزا سن کر شدت غم سے ششدر ہیں کہ کیا انہیں واقعی جینا چاہیے؟
اور یہی عقل و دانش آج نئی نسل کو کامیابی اور خوشی کے نئے فریب دیتی ہے۔
پہلے اس نے تمہاری ماں کو تمہارے مستقبل کے لئے نکالا تھا، آج وہ تمہیں یقین دلا رہی ہے کہ یہ کیرئیر تمہاری اپنی شخصیت کئ شناخت کے لئے ضروری ہے۔
ماضی میں اس عقل نے جتایا تھا کہ اپنے خاندان کے لئے اچھا اسکول، اچھا کھلونا، اچھا گھر اور ذرا ڈھنگ کی سواری خوشی کا ضامن ہوگا۔ آج اسی مکار دانش نے ہزاروں برینڈز، لاکھوں ریسٹورنٹس دے کر تمہیں اکسایا ہے کہ کیسی بنجر اور کیسی بے مزہ زندگی ہے کہ تمہیں ان سب آسائشوں سے محروم پھیکی زندگی گزارنی پڑے۔
اسی دانش نے تمہاری نسوانیت کو تمہارے خوابوں کی راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ بنا کر دکھایا ہے۔
اس عصری دانش اور اس کے سرمایہ داروں نے ایک ایسا نظام تخلیق کیا ہے جہاں مرد و عورت کے خوابوں کی تکمیل کے لیے خاندان راہ کی رکاوٹ بتایا جاتا ہے۔ ارے تم ماں بن کر بچوں کے لئے خود کو برباد نہ کرو، اس حیا و پردے کے لوازمات کے چکر میں تم اپنی منزل کیوں کھوٹی کرتی ہو۔ شادی شدہ زندگی کی ذمہ داریوں اور گھر بنانے سنوارنے کی مشقت تو تمہاری اپنی شخصیت، تمہارے اپنے خواب کھا جائے گی۔
میری عزیز کچھ بڑے جب محبت کو ایک جھوٹا سپنا بتاتے ہیں تو ہوسکتا ہے وہ اپنے اندر کسی ٹھنڈی آہ کو دباتے ہوں۔ ہوسکتا ہے کہ تمہاری خاطر، تمہارے اس ماں/ باپ کی خاطر جس سے جدائی کا تصور آج تمہارے لیے محال ہے، انہوں نے اپنی آرزوؤں کی قربانی دی ہو۔
محبت کیا ہے؟ روحانیت اور عصری چلن اس کے معنی متعین کرنے میں ہمیشہ ایک دوسرے کے بالمقابل رہے ہیں۔
اگر دنیا میں اچھے انسان باقی ہیں تو محبت بھی باقی ہے۔ خالق نے انسان کو مکمل شر یا مکمل خیرنہیں بنایا۔ اس کے نفس میں محبت کا پودا الہام کیا اس میں اتارے شر کے ساتھ۔ انسان میں محبت باقی رہتی ہے۔ شر سے لڑتی ہے۔ کبھی ٹھٹھری رہے، کبھی سر اٹھائے اور کبھی نمو پائے۔
مگر وہ محبت ہے کیا؟ اس کی تعریف میں اختلاف ہوگا۔ تو اس کے وجود اور عدم وجود میں اختلاف ہوگا۔ دل کی دھڑکن کہتی ہے کہ کسی پیاری سی چیز کو دیکھ کر اس کو حاصل کرنے کی جو بے قرار خواہش ابھرتی ہے وہ محبت ہے۔
روحانیت سکھاتی ہے کہ محبت کابیج تو لگایا جاتا ہے۔ بس دیکھنا چاہیے کہ زمین زرخیز ہے یا نہیں۔ اگر زمیں زرخیز ہو تو لگا لگایا پودا نہ بھی مل سکے تب بھی محبت اگائی جاسکتی ہے۔
ہم تمہیں بتانا چاہتے ہیں کہ محبت بنی بنائی بازار میں کم ہی ملتی ہے۔ محبت کو اکثر اگانا پڑتا ہے، سینچنا پڑتا ہے، خون دل سے آبیاری کرنی پڑتی ہے۔
ہم محبت کے نام پر بنائی گئی اس رہ گزر سے گزرے ہیں اس لیے ہمدروں اور دوستوں کے روپ میں بلاؤں کو پہنچانے لگے ہیں۔ اور ہم تمہارے لیے ڈرتے ہیں۔
مگر ہاں! ہمیں خود کو یہ سکھانا ہے کہ ابھی رک جاؤ، انہیں خود دریافت کرنے دو۔
ہمارا یقین کرو۔ ہماری عقل بھی ناقص ہوسکتی ہے مگر ہمارے تجربے ہیں جو اندیشے بن کر ہمیں ڈراتے ہیں۔
مگر اب ہم دکھی دل سے سوچتے ہیں کہ اپنی محبت کے اس روپ کو بھی اسی طرح چھپا لیں جیسے کم عمری میں اور طرح ٹھکرائے جانے کو پی جاتے تھے۔
ہمیں انگلی پکڑ کر بنائے ہوئے راستوں پر چلائے جانے کی عادت تھی۔ سوال کرنا ہمارے لئے ایک نامانوس روایت تھی۔ مگر محبت کی مانوس خوشبو ہمیں اعتبار دیتی تھی اور ہم انہی راستوں پر چل لیتے تھے۔ ہم نے تمہیں سوال کرتا پایا تو گھبرا گئے۔ غیر متوقع عمل پر ایک حیران انسان ایسا ردعمل دے سکتا ہے۔ مگر ہم نے خود کو بہت بدلا ہے۔
اب ہر طرف سوال ہیں اور ہم ان سوالوں کو سنتے ہیں، سمجھتے ہیں، اپنے دوستوں سے ڈسکس کرتے ہیں اور اداس ہوکر اپنی روحانیت سے رہنمائی اور پریشان ہوکر عصری دانش سے مشورے طلب کرتے ہیں۔
میرے بچو!
ہم سے غلطی ہوئی۔
مگر یاد رکھنا کہ ہم نے خود گیلے بستر پر رات بسر کر کے تمہیں سوکھے بستر پر سلایا تھا۔
ہم نے خود مشقت کاٹ کر تمہیں تمہارے دور کے لیے نئے بستے، نئی کتابوں، نئے کھلونوں، نئے خوابوں کی تعبیریں مہیا کرنے لی کوشش کی تھی۔
ہم سے غلطی ہوئی۔ مگر تم جدید دور کی ہم سے زیادہ سمجھدار نسل ہو۔ کیا ہم یقین رکھیں کہ تمہاری آنے والی نسلیں تم سے شکوہ کر کے تمہیں تمہارا نامۂ اعمال نہیں دکھا رہی ہوں گی؟