وزیراعظم کا دورہ امریکا خدشات اور امکانات

486

وزیراعظم عمران خان پاک فوج کے سربراہ، آئی ایس آئی کے ڈی جی، مشیر خزانہ حفیظ شیخ اور عبدالرزاق دائود کے ساتھ امریکا پہنچ گئے جہاں ان کی ملاقات امریکی صدر ٹرمپ سے ہوگی امریکی انتظامیہ کی جانب سے بیان آیا ہے کہ عمران خان کے دورہ امریکا کے حوالے سے ’’پائیدار شراکت‘‘ کے لیے کھلے ہیں۔ ان کھلے دروازوں سے داخل ہونے کی شرائط بھی بیان کردی گئی ہیں کہ خواتین کے حقوق کے لیے ٹھوس اقدامات درکار ہیں۔ خواتین کے کون سے حقوق اور کیا اقدامات یہ بات تو عمران اور پاکستانی وفد کو اچھی طرح معلوم ہے۔ آزادیٔ صحافت کے لیے بھی اقدامات کی بات کی گئی ہے یہ آزادی کون سی ہوگی جو صحافی پاکستان کی ریاست نظریے اور فوج کے خلاف بات کرے گا وہ آزادیٔ صحافت کا علمبردار کہلائے گا امریکی اشاروں پر ہونے والے حکومتی اقدامات پر تنقید صحافت ہی نہیں کہلائے گی بلکہ اسے غداری قرار دیا جائے گا۔ امریکی انتظامیہ کے ترجمان نے پاک امریکا پائیدار شراکت کا دروازہ کھولنے کی ایک اور چابی کا ذکر کیا ہے وہ ہے پاکستان کے غدار شکیل آفریدی کی حوالگی ۔ ایک اور چابی عسکریت پسندوں کے خلاف ٹھوس کارروائی ہے، کون سے عسکریت پسند اور کیا کارروائی اس کے حوالے سے مطلوب ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ کے بیان میں سے اول الذکر خواتین کے حقوق کی بات ہے تو یہ مبہم ضرور ہے لیکن اس میں آسیہ مسیح جیسی عورتوں کے حقوق ہی کی بات کی گئی ہے عافیہ صدیقی کی نہیں جو امریکی قید میں ہے اور عمران خان سے عافیہ کی واپسی کی امیدیں خوامخواہ میں لگائی جارہی ہیں۔ دوسری بات آزادیٔ صحافت کی ہے اس آزادی کے ساتھ جو کچھ پوری آزادی سے کیا جارہا ہے اس کے بعد کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں۔ پی ٹی آئی کی سلیکٹڈ حکومت نے صحافت کا بیڑا غرق کرکے رکھ دیا ہے دیگر دو باتوں پر عملدرآمد تو تقریباً ہو ہی گیا ہے۔ شکیل آفریدی کی رہائی کے حوالے سے تو ایسا لگتا ہے کہ آج گیا کہ کل… ممکن ہے کہ ٹرمپ سے ملاقات میں پائیدار شراکت کے دروازے کھولنے کے لیے یہ کام بھی کردیا جائے۔ جہاں تک عسکریت پسندوں کے خلاف ٹھوس کارروائی کا تعلق ہے تو بھارت کے اشارے اور مطالبے پر حافظ سعید کو عسکریت پسند کہا جارہا ہے اور ان ہی کے خلاف فی الحال ’’ٹھوس‘‘ کارروائی کی گئی ہے۔ تب ہی دورہ امریکا یقینی بنا ہے۔ جہاں تک دورے کا تعلق ہے تو اس حوالے سے بھی بہت سی باتیں کہی جارہی ہیں کہ اصل ایجنڈا یہ نہیں ہے جو سامنے ہے۔ بلکہ عبدالشکور قادیانی کی ٹرمپ سے ملاقات بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے اگر چہ حکومت نے ایسی کوئی بات نہیں کی ہے لیکن قادیانی جس طرح سازشوں میں مصروف ہیں اس تناظر میں اس حوالے سے نہایت چوکنا رہنے کی ضرورت ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ختم نبوت ایک سرخ لکیر ہے اسے جس نے عبور کیا اس کا حشر برا ہوتا ہے۔ حکومت اس کو اپوزیشن کا پروپیگنڈا کہہ رہی ہے لیکن خدشات اپنی جگہ ہیں۔ وزیراعظم کے دورے سے کیا برآمد ہوتا ہے وہ پریس کانفرنسوں میں نہیں بتایا جائے گا ان کا حکومت کے اقدامات سے پتا چلے گا۔