گورنر باقر صاحب، ملک معاشی ترقی کیلیے گھر جلانے کی کیوں ضرورت ہے؟

580

قاضی جاوید
گورنر اسٹیٹ بینک آ ف پاکستان ڈاکٹر باقر نے کہا ہے کہ شرح سود میںمزید ایک فیصد اضافہ کر کے 13.25فیصد کر دیا ہے ۔ جس کی وجہ سے بینک کھاتیداروں اور قومی بچت اسکیموں کے سر مایہ کاروں کے منافع میں اضافہ اور ڈالر کی خریداری میں کمی کا امکا ن ہے ان کا کہنا تھا وہ لوگ جن کے پاس ڈالرز کا ذخیرہے وہ ان کو روپے میں تبدیل کر کے شرح سود میں ا ضافہ سے منافع کمائیں گے ۔ ڈاکٹر رضا باقر کے دور میں ان کی دوسری لیکن پریس کانفرنس میں پہلی زری پالیسی کا اعلان کر تے ہو ئے پہلی براہ راست صحافیوں سے گفتگو کی تھی جس میں گورنر صاحب یہ ثابت کر نے کی کوشش کرتے رہے کہ ان کی آمد کے بعد سے ملک میں معاشی ترقی کا دور دورہ شروع ہو رہا ہے ،ایک سینئر صحافی کے سوال کے جواب میں گورنر نے کہا کہ یہ تاثر درست نہیں ہے ان کے بتائے ہو ئے اعداد وشمار ایف لیلیٰ کی کہانی کے سوا کچھ بھی نہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ موجودہ اعداد وشمار بتارہے ہیں کہ ملک میں معاشی ترقی شروع ہو چکی ہے اس سلسلے میں ان کا کہنا تھا کہ ملک کا کرنٹ اکاؤنٹ خسار ہ کم ہو گیا ہے اور اگر تیل کا درآمدی بلز نکال دیا جائے حقیقت میںکرنٹ اکاؤنٹ خسار ہ صفر ہو چکا ہے ۔لیکن کسی نے کیا خوب کہا گھر سے باہر آدمی حقیقت میں گھر کے بارے میں کچھ نہیں جانتا اور اگر کچھ جانتا بھی ہے اس کے مثبت اثرات کبھی ظاہر نہیں ہو سکتے ایسا ہی کچھ گورنر بہادر کا حال پریس کانفرنس میں نظر آرہا تھا ان کا کہنا تھا ڈالر کی خریداری میں کمی کا امکا ن ہے ان کا کہنا تھا وہ لوگ جن کے پاس ڈالرز کا ذخیرہ ہے وہ ان کو روپے میں تبدیل کر کے شرح سود میں ا ضافہ سے منافع کمائیں گے باقر صاحب آپ بہت بڑے معیشت کے ماہر ہیں صرف تین ماہ میں ڈالر کی قدر میں 25سے 30فیصد کا اضافہ ہو رہا ہے اورگورنر صاحب آپ کا کہنا ہے کہ لوگ شرح سود سے میں1اور 2 اضافہ منافع کمائیں گے۔ان کا کہنا تھا کہ زری پالیسی کمیٹی ایک آزاد پالیسی کمیٹی اور اس کے پاس بہت تحقیق اوربحث کے بعد فیصلہ کیا جاتا ہے ۔اس کے علاوہ اس زری پالیسی کمیٹی میں گورنر کے علاوہ بہت سارے ارکان پرانے ہیں اور وہ سوچ سمجھ کر فیصلہ کر تے ہیں لیکن گونر صاحب ہم نے تو یہی دیکھا ہے ایک سال قبل اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی زری پالیسی کمیٹی نے نواز حکومت کے دور میں شرح سود کو 5.5فیصد تک پہنچا دیا تھا جس کی وجہ سے ملک صنعتی ترقی میں بے تحاشہ اضافہ ہو ا تھا ۔ان کا کہنا تھا کہ ملک کا کرنٹ اکاؤنٹ خسار ہ کم ہو گیا ہے اور اگر تیل کا درآمدی بلز نکال دیا جائے حقیقت میںکرنٹ اکاؤنٹ خسار ہ صفر ہو چکا ہے،ان کہنا درست ہو سکتا ہے لیکن وہ اس بات کا بھی جائزہ لیں کہ ملکی صنعتوں کے لیے جس خام مال کو درآمد کر نے کی ضرورت ہو تی ہے اس میں کس قدر کمی ہو ئی ہے۔پورا ملک بجٹ کے بعد بے یقینی اور بے چینی کی لپیٹ میں آ گیا ہے جس سے معاشی سرگرمیاں متاثر ہو رہی ہیں۔سیاسی صورتحال مخدوش ہے ، اسٹاک مارکیٹ میں مندی ،صنعتیں گو مگو کا شکار جبکہ معاشی اشاریے کمزور ہو رہے ہیں جس کی وجہ سے ڈالر اور سونے کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں اور اب شرح سود میں مزید1فیصد اضافہ سے مہنگائی کی نئی لہر آئے گی اورکاروبار جاری رکھنامزید مشکل ہو جائے گا۔موجودہ حکو مت کے دور میںشرح سود میں 5.75فیصد اضا فہ ہو چکا ہے ۔حکومت اور کاروباری برادری مل کر معیشت کو ابتری کی کیفیت سے نکال سکتے ہیں ورنہ معاشی گرد اب سب کو ڈبو دے گا۔ گورنر نے بتایا کہ زری پالیسی کمیٹی نے اپنے16 جولائی 2019ء کے اجلاس میں پالیسی ریٹ 100 بی پی ایس بڑھا کر 13.25فیصد کرنے کا فیصلہ کیا ہے جو 17 جولائی 2019ء سے مؤثر ہوگا۔ اس فیصلے میں 20مئی 2019ء کے زری پالیسی کمیٹی کے گذشتہ اجلاس کے بعد سے شرح مبادلہ میں کمی کی بنا پر مہنگائی کے بڑھتے ہوئے دباؤ اور یوٹیلٹی کی قیمتوں میں حالیہ ردّوبدل کیا ،یکبارکے اثر اور مالی سال 20ء کے بجٹ کے دیگر اقدامات کے نتیجے میں مختصر مدت میں ہونے والی مہنگائی کو ملحوظ رکھا گیا ہے۔اس فیصلے میں طلب کے مدھم پڑتے ہوئے اظہاریوں کی بنا پر مہنگائی کے دباؤ میں کمی کا بھی لحاظ رکھا گیا ہے۔ ان عوامل کے پیش نظر زری پالیسی کمیٹی کو توقع ہے کہ مالی سال 20ء میں اوسط مہنگائی 11-12 فیصد رہے گی جو پہلے کی پیش گوئی سے زیادہ ہے۔ تاہم مالی سال 21ء میں جب حالیہ اضافے کے بعض اسباب کا ایک بار کا اثر گھٹے گا تو مہنگائی میں خاصی کمی آنے کی توقع ہے، اللہ کر ے گورنر کی یہ ساری باتیں ایف لیلیٰ کی کہانی ثابت ہو لیکن حالات اور وقت کسی داستا ن کا انتظار نہیں کرتا اور ویسے بھی گورنر باقر ،سابق وزیرِ خزانہ ڈاکٹر محبوب الحق ، وی اے جعفری ،سابق وزیر اعظم معین قریشی اور شوکت عزیز کی طرح رات کے اندھرے میں شنا ختی کارڈ بنواکر عہدے حاصل کر نے والوں کی طرح بریف کیس گورنر کے طور پر پاکستان میں آئی ایم ایف نے بیٹھا دیا ہے اور جب چاہے گا واپس بلوا لے گا ۔گورنر باقر صاحب کا کہنا تھا کہ شرح سود کے بارے میں اس فیصلے کے حوالے سے زری پالیسی کمیٹی اس نقطہ نظر کی حامل ہے کہ ماضی کے عدم توازن کی وجہ سے شرح سود اور شرح مبادلہ میں تبدیلیاں واقع ہوئیں۔ آگے چل کر زری پالیسی کمیٹی آئندہ کے معاشی حالات اور اعدادوشمار کے مطابق اقدامات کرنے کے لیے بھی تیار رہے گی۔ یہ بھی ماضی کا بے نام سا طریقہ ہے ما ضی کے عدم توازن کی وجہ سے شرح سود اور شرح مبادلہ میں تبدیلیاں واقع ہوئیںاور سب کچھ ٹھیک ہے لیکن پاکستانیوں کی بدقسمتی یہ ہے کچھ بھی ٹھیک نہیں ہو تا اور ہر نیا ء گورنر آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرنے کے بعد واپس آئی ایم ایف کے پاس چلاجاتا ہے۔ مہنگائی میں غیرمتوقع اضافے جو اس کے منظر نامے پر منفی اثر ڈالیں مزید معتدل سختی کی طرف لے جاسکتے ہیں۔ دوسری طرف ملکی طلب میں توقع سے زیادہ نرمی اور مہنگائی میں کمی زری حالات میں نرمی کی بنیاد فراہم کرے گی۔ اس فیصلے پر پہنچنے کے لیے زری پالیسی کمیٹی نے 20مئی 2019ء کو منعقدہ زری پالیسی کمیٹی اجلاس سے لے کر اب تک معاشی حالات ، حقیقی بیرونی اور مالیاتی شعبوں میں ہونے والی تبدیلیوں اور ان کے نتیجے میں زری حالات اور مہنگائی کے منظرنامے پر غورو خوض کیا تھا۔گذشتہ زری پالیسی کمیٹی اجلاس کے بعد اہم تبدیلیاںگذشتہ زری پالیسی کمیٹی اجلاس کے بعد تین کلیدی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔ اوّل، حکومت پاکستان نے مالی سال 2020ء کا بجٹ منظور کیا ہے جس میں محاصل کو بڑھانے کے اقدامات کے ذریعے ٹیکس بیس کو وسیع کرتے ہوئے مالیاتی پائیداری کو معتبر انداز میں بہتر بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ توقع ہے کہ یوٹیلٹی کی قیمتوں اور بجٹ کے دیگر اقدامات سے مالی سال 20ء کی پہلی ششماہی میں قیمتوں میں ایک بار خاصا اضافہ ہوگا۔اس تفصیل سے یہ کہاں مطب نکلتا ہے کہ ملک میں معاشی ترقی ہو رہی ہے، یہ ساری صوتحال ملک کے لیے ایک تباہ کن تباہی کی نوید دے رہی ہے اور اس سے پتہ چل رہا ہے آئی ایم ایف کی ٹیم ملک کو کس طرح مفلوج بنانے کی تیاریاں کر رہی ہے۔ ان کاکہنا تھا کہ حکومت نے اسٹیٹ بینک سے قرض لینے کا سلسلہ بھی ختم کرنے کا عزم کیا ہے جس سے مہنگائی کے منظرنامے میں معیاری بہتری آئے گی۔ دوم، آئی ایم ایف کی توسیعی فنڈ سہولت کے تحت پہلی قسط کی موصولی، تیل کی سعودی سہولت کے بروئے کار آنے اور کثیر طرفہ و دوطرفہ شراکت داروں کی جانب سے امداد کے دیگر وعدوں کے نتیجے میں بیرونی مالکاری کا منظر نامہ مزید مضبوط ہوا ہے۔ ی سب وہ باتیں جو ان سے قبل کے گورنرز بھی بولتے رہے ہیں اور آئی ایم ایف سے قرض لینے کا سلسلہ جاری رہا تواس طرح چٹکلے سننے کو ملتے رہے اور ملتے رہیں ہیں اورملتے رہیں گے ،لیکن ہونے والاکچھ بھی نہیں ۔گورنر کا کہنا تھا کہ برآمدی حجم بڑھتا رہا ہے حالانکہ اکائی قیمتوں میں کمی کے باعث برآمدی قدریں پست رہی ہیں جیسا کہ حریف برآمدی ممالک کو بھی تجربہ ہوا ہے۔ برآمدی کارکردگی میں آئندہ تبدیلیوں کا انحصار بھی ہمارے تجارتی شراکت داروں کی شرح نمو اور ملکی ساختی رکاوٹیں دور کرنے میں پیش رفت پر ہوگا۔یہ باتیں تو برسوں سے برآمدکنندگان کی سمجھ سے بھی بالا تر ہیں ،ڈالر کی قدر میں جس تیزی سے اضافہ ہو اہے برآمدات میں وہ تیزی نظر نہیں آرہی ہے۔ اسٹیٹ بینک یہ تسلیم کیا ہے کہ یکم جولائی سے 28 جون مالی سال 19ء کے دوران نجی شعبے کا قرضہ 11.4 فیصد بڑھا ہے جبکہ پچھلے سال کے اسی عرصے میں 14.8 فیصد بڑھا تھا۔ قرضے کی رفتار میں کمی حقیقی لحاظ سے زیادہ نمایاں تھی کیونکہ نجی شعبے کے قرضے میں زیادہ تر اضافہ خام مال کی بلند قیمتوں کی وجہ سے ہوا جس نے کاروباری اداروں کی جاری سرمائے کی ضروریات کو بڑھا دیا، اس کی اصل وجہ بھی شرح سود میں اضافہ ہے جس کی وجہ سے نجی شعبہ قرض لینے گھبرا رہا ہے او روہ قرض لینے بجائے کاروبار کا سمیٹنے میں مصروف ہیں۔پوری پریس کانفرنس کے داوران صحافی گورنر کو یہ بناتے رہے کہ ُان کے اقدامات سے ملک معاشی تباہی سے دوچار ہوہا ہے لیکن گورنر کا کہنا تھا کہ شرح سود میں اضافہ سے ملک کو معاشی استحکام حاصل ہو گا ،لیکن گورنرباقر صاحب،پوری معاشی تاریخ میں یہ بات روز روشن کی صاف اور واضع ہے کہ سود ی معیشت اللہ اور اس کے ر سولﷺ سے جنگ ہے اور اس جنگ کو لڑنے والا ملک ، عوام کو معاشی تباہی اور بربادی کے سوا کچھ نہیں دے سکتا لیکن آئی ایم ایف کے ملازم ان باتوں کو کہاں سمجھتے ہیں۔