حافظ سعید اور ان کے ساتھیوں کا مقدمہ

462

جماعت الدعوۃ کے سربراہ حافظ محمد سعید اور ان کے رفقا پروفیسر عبدالرحمن مکی، امیر حمزہ اور محمد یحییٰ عزیز سمیت سات افراد نے انہیں حکومت کی طرف سے دہشت گرد قرار دینے اور دہشت گردی کی معاونت کے لیے فنڈز جمع کرنے کے الزام میں مقدمات درج کرنے کے خلاف لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کرلیا ہے۔ درخواست گزاروں کا موقف ہے کہ ان کے خلاف حکومت کے سارے الزامات بے بنیاد اور جھوٹ پر مبنی ہیں۔ ان کا القاعدہ یا کسی بھی دہشت گرد تنظیم سے کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ ہی حافظ محمد سعید کالعدم جہادی تنظیم لشکر طیبہ کے سربراہ ہیں۔ درخواست گزاروں نے لاہور ہائی کورٹ سے اپیل کی ہے کہ ان کے خلاف حکومت نے یکم جولائی کو حافظ محمد سعید اور ان کے رفقا پر دہشت گرد تنظیموں سے تعلق کا الزام لگا کر انہیں گھروں میں نظر بند کردیا تھا۔ حکومت نے حافظ محمد سعید کو کالعدم جہادی تنظیم لشکر طیبہ کا سربراہ قرار دیا تھا اور ان پر رسوائے زمانہ ممبئی حملے میں ملوث ہونے کا الزام بھی لگایا تھا۔ حافظ صاحب نے ان دونوں الزامات کی تردید کی ہے۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ دہشت گردی اور دہشت گردوں کی مالی معاونت کی روک تھام کرنے والی عالمی تنظیم ایف اے ٹی ایف (فنانشل ایکشن ٹاسک فورس) نے اس حوالے سے پاکستان کو گرے لسٹ میں شامل کر رکھا ہے، اس کا دعویٰ ہے کہ پاکستان میں ایسی تنظیمیں اور افراد موجود ہیں جو دہشت گردی کے فروغ کا سبب بن رہے ہیں اور دہشت گردوں کی مالی معاونت کا ذریعہ بھی ہیں۔ یہ تنظیم اپنے مخصوص نکتہ نظر سے دہشت گردی کی تعریف کرتی ہے اس کے نزدیک ہر وہ جماعت اور فرد دہشت گرد ہے جو پوری دُنیا میں مظلوم مسلمانوں کی مدد یا حمایت کا داعیہ رکھتا ہے یا ظلم کے خلاف مزاحمت میں ان کا ساتھ دیتا رہا ہے۔ مثلاً جو افراد یا جماعتیں مظلوم کشمیری مسلمانوں کی مدد کرتی رہی ہیں اور اب بھی تحریک آزادی کشمیر کی حامی ہیں ایف اے ٹی ایف کے نزدیک وہ سب دہشت گرد ہیں۔ اسی طرح افغانستان اور فلسطین میں ناجائز قابضین کے خلاف مزاحمت کا ساتھ دینے والے بھی اس کے نزدیک دہشت گردوں میں شمار ہوتے ہیں۔ ایف اے ٹی ایف نے آج تک مسلمانوں کے خلاف دہشت گردی کرنے والی کسی انتہا پسند ہندو، عیسائی یا یہودی تنظیم کو دہشت گرد قرار نہیں دیا اس کے نزدیک صرف وہ مسلمان ہی دہشت گرد ہیں جو اپنے مظلوم بھائیوں کی مدد کررہے ہیں یا کرنا چاہتے ہیں۔ ایف اے ٹی ایف نے اپنے اس پس منظر کے ساتھ پاکستان پر امکانی پابندی لگا رکھی ہے اور اسے گرے لسٹ میں شامل کر رکھا ہے۔ مطلب یہ کہ اگر پاکستان نے اس کی ہدایات پر عمل نہ کیا اور اپنے اندر موجود مزاحمتی عناصر کو قانون کے شکنجے میں نہ جکڑا تو اسے بلیک لسٹ میں شامل کرکے اس پر اقتصادی پابندی لگادی جائے گی۔ پاکستان پہلے ہی اقتصادی مشکلات کا شکار ہے، اس کے لیے عالمی سطح پر اقتصادی پابندی برداشت کرنا دشوار تھا۔ چناں چہ اس نے ایف اے ٹی ایف کی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے ان تمام تنظیموں اور فلاحی اداروں پر پابندی لگادی جن کی فہرست اسے دی گئی تھی۔ ان تنظیموں میں جماعت الدعوۃ اور فلاح انسانیت فائونڈیشن بھی شامل تھیں جن کا تعلق حافظ سعید اور ان کے رفقا سے ہے۔ پابندی لگاتے وقت حکومت کے ذمے داران نے انہیں بتایا کہ اس معاملے کا تعلق پاکستان کی سلامتی سے ہے، آپ لوگ پاکستان کی خاطر اس پابندی کو قبول کرلیں ورنہ پاکستان مشکلات کا شکار ہوسکتا ہے۔ چناں چہ حافظ سعید اور ان کے ساتھیوں نے حب الوطنی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس پابندی پر خاموشی اختیار کرلی اور اسے عدالت میں چیلنج نہیں کیا، حالاں کہ اس سے پہلے بھارت کے دبائو پر جب بھی یہ پابندی لگائی گئی تو عدالت سے رجوع کرنے پر حکومت عدالت میں اس کا کوئی جواز پیش نہ کرسکی تھی اور عدالت نے ان تنظیموں کو کلیئر کردیا تھا۔ اب کی دفعہ حافظ سعید اور ان کے ساتھی عدالت نہیں گئے تو اس خاموشی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے حکومت نے ایف اے ٹی ایف کی ہدایت پر خود اِن لوگوں کو دہشت گرد قرار دے دیا ہے اور ان کے خلاف مقدمات درج کرلیے ہیں۔ چناں چہ حافظ سعید اور ان کے رفقا کو مجبوراً عدالت عالیہ لاہور سے رجوع کرنا پڑا ہے۔ اس قسم کا مقدمہ پرویز مشرف کے زمانے میں بھی عدالت میں زیر سماعت رہا ہے جب حکومت نے حافظ سعید کو گھر میں نظر بند کردیا تھا اور اس نظر بندی میں ہر تین ماہ بعد مسلسل توسیع کی جارہی تھی لیکن جب عدالت میں مقدمے کی سماعت شروع ہوئی تو حکومت نظر بندی کی کوئی توجیہہ پیش نہ کرسکی اور بالآخر عدالت کو انہیں رہا کرنا پڑا۔ اب بھی صورت حال کچھ مختلف نہیں ہے۔
اب کی دفعہ ایف اے ٹی ایف کے دبائو پر عمران حکومت نے حافظ سعید اور ان کے رفقا کو گرفتار کرکے ان پر دہشت گردی اور دہشت گرد تنظیموں سے تعلق کا الزام بھی جڑ دیا ہے۔ خاص طور پر حافظ سعید کو کالعدم جہادی تنظیم لشکر طیبہ کا سربراہ قرار دیا گیا ، حالاں کہ پاکستان میں اس کا وجود ہی نہیں ہے۔ البتہ وہ مقبوضہ کشمیر میں دوسری جہادی تنظیموں کے ساتھ زیر زمین کام کررہی ہے۔ حافظ سعید کا قصور یہ ہے کہ وہ مقبوضہ کشمیر کی آزادی کے پُرجوش حامی ہیں اور ماضی میں اس کے لیے فعال کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ بھارت نے ان کے سر کی قیمت مقرر کررکھی ہے۔ ماضی کی حکومتیں بھی بھارت کے دبائو پر انہیں پابند سلاسل کرتی رہی ہیں اب بھارت ایف اے ٹی ایف کے ذریعے پاکستان پر دبائو ڈال رہا ہے اور عمران حکومت یہ دبائو قبول کرنے پر مجبور ہے لیکن اب معاملہ عدالت میں چلا گیا ہے۔ عدالتیں تو شواہد اور ثبوت مانگتی ہیں، اگر عدالتی کارروائی میں کوئی رکاوٹ نہ ڈالی گئی اور اس مقدمے کی آزادانہ سماعت ہوئی تو عدالت میں حافظ سعید اور ان کے ساتھیوں کے خلاف دہشت گردی کا کوئی الزام ثابت نہ کیا جاسکے گا اور حکومت کے ہاتھ رسوائی کے سوا اور کچھ نہ آئے گا۔
اب سوال تو یہی ہے کہ کیا عدالت میں اس مقدمے کی سماعت کی نوبت آئے گی اور کیا عدالت کسی دبائو کے بغیر فیصلہ دے سکے گی؟۔